ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ مذہبی ان گروہوں کے خلاف کاروایوں پر تشدد کیا جارہا کہ انہوں نے ملک میں انہیں کرونا کو پھیلایا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان مذہبی گروہوں کی وجہ سے ملک میں کرونا پھیل گیا ہے ۔ مگر کرونا پھیلانے میں ان مذہبی گروہوں سے زیادہ حکومت کا ہاتھ ہے ۔ جو کہ اپنی رٹ نافذ رکھنا نہیں جانتی ہے اور اسے سو سو کر خیال آرہا ہے کہ یہ غلط ہوا ہے ۔ ہمارا ان سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس اختلاف کے نتیجے میں ان کی بے جا مخالفت اور ان پر تشدد کو پسند کریں ۔ جبب ہ میں خبر مل چکی تھیں کہ چین اور اس کے بعد ایران میں کرونا پھیل رہا ہے تو اسی وقت حکومت کو ایران و شام جانے والے زائرین کو کرونا کے پیش نظر فوراً واپسی کا کہہ دینا چاہیے تھا اور ان کی واپسی کے کورنٹین اور دوسری سہولتوں کا بندوبست کرنا چاہیے تھے ۔ مگر حکومت سوئی رہی ۔ جب یہ زائرین آکر تافتان پر جمع ہوگئے ۔ جہاں انہیں بے مدد گار تافتان کے صحرا میں جہاں کھلے آسمان تلے سردی میں کھانے پینے کو کچھ نہیں ہے روک دیا ۔ ایسی صورت کوئی شخص ہو اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد گھر پہنچ جائے ۔ اگر وہاں سے کچھ لوگ مختلف راستوں سے نکل کر اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو اس میں ان کی پیشک غلطی ہے مگر اس سے زیادہ اس جرم میں حکومت شریک ہے ۔ کہ ان کے لیے کچھ نہیں کیا اور بقول مراد علی شاہ کہ یہ بلوچستان کی حکومت کا ذمہ داری ہے کہہ کر اسے مددگار چھوڑ دیا ۔ جس کو نہ تجربہ تھا نہ اس کے پاس وسائل تھے ۔
جب سندھ حکومت نے اپنے علاقہ میں آنے والے زائرین کو لا کر کورنٹین کیا تو پنجاب کی حکومت کو کچھ خیال آیا ان کچھ لوگوں کو ڈھونڈ کر انہیں کورنٹین کس طرح کیا یہ سب جانتے ہیں ۔ مگر دیر ہوچکی تھی اور یہ زائرین بہت سے علاقوں میں کرونا پھیلا چکے تھے ۔ اس طرح ان زائرین سے ملک میں کرونا پھیلا ہے تو اس میں ان زائرین سے زیادہ حکومت کا ہاتھ ہے کہ انہوں نے ان کے لیے کوئی مناسب بندوست کیوں نہیں کیا ;238;
تبلیغی جماعت ایک امن پسند جماعت ہے اور ان کے اجتماعات ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جماعتیں بن کر ملک اور بیرون ملک ہر جگہ تبلیغ کے لیے جاتی ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ مگر کرونا ملک میں پھیل چکا تھا اور اس کی روک تھام کے لیے جب لوک ڈاوَن کا اعلان فیصلہ ہوچکا تھا تو حکومت نے ان کے اجتماع پر کیوں پابندی نہیں لگائی اور ان کے جماعتوں کو واپسی کے لیے نہیں حکم دیا اور انہیں سختی سے کیوں نہیں روکا ۔ مگر حکومت خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی اور اس کے نتیجے میں وہی ہوا جس کی امید کی جاسکتی ہے ۔ جب دریاؤں سے پانی بہہ چکا ہے اور کرونا پھیل چکا تو اب ان کو گرفتار کرکے تشدد کیا جانا ہے تو یہ قابل نفرت و مذمت ہے ۔
اگر حکومت کو اپنی رٹ رکھنا نہیں چاہتی ہے تو اس میں ان مذہبی گروہوں کا کیا قصور ہے ۔ اب حکومت ان کے خلاف تشدد کرکے اپنے لیے مسلہ کھڑا خود رہی ہے ۔ حکومت اپنی کمزوریوں کی وجہ مسجدوں کی تالہ بندی نہیں کراسکی ۔ جہاں اور جب سختی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت خاموش رہتی ہے ۔ مگر جب سر سے بلند پانی ہوچکا ہوتا ہے تو حکومت کو یاد آتا ہے ۔ لہذا کچھ فہم اور فراست ہوتو تشدد سے گریز کرے ورنہ یہ اپنے لیے مزید پریشانی کھڑی کرلے گی ۔