کل جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد کے فرسٹ فلور سے جسے روس میں دوسری منزل کہا جاتا ہے، سیڑھیاں اتر رہا تھا تو ایک پاکستانی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ باقاعدہ نمازی ہیں اور ریڈی میڈ کپڑوں کے تاجر بھی، بولے کہ ابھی نماز عصر کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے کہیں جانا ہے۔ بولے آخرت بنائیں۔ میں نے بس اتنا ہی کہا کہ نماز تو انشاٗاللہ پڑھوں گا ہی۔ مجھے جہاں اور جن سے ملنے جانا تھا ان سے ملنا سماجی، انسانی اور مذہبی تینوں حوالوں سے اہم تھا یعنی اگر مذہب کے معانی میں لیا جائے تو میں نیک کام کرنے ہی جا رہا تھا۔ دعوت دینا اچھی بات ہے مگر میرے خیال میں کسی شخص کی مصروفیت کا سیاق و سباق جانے بنا، جو آپ کو حق نہیں پہنچتا، اصرار سے دعوت دینا مناسب نہیں کیونکہ جتنا آپ جانتے ہیں اتنا دوسرا شخص بھی جانتا ہے۔ یعنی عصر کو باجماعت پڑھنا ستائیس گنا ثواب لینے کی خاطر تھا۔ مجھے تو اس ستائیس کی ویسے ہی سمجھ نہیں آتی کیونکہ کسینو میں بھی کم ترین جزا ستائیس گنا ہوتی ہے اگرچہ کسینو مسلمانوں نے نہیں بنائے، شاید کسی غیر مسلم عرب نے بنائے ہوں۔
ڈاکٹر کسے کہتے ہیں، اس کو جس نے علم طب حاصل کیا ہو اور اس علم کو وہ لوگوں کا علاج کرکے پیسہ کمانے کی خاطر استعمال کرتا ہو۔ مولوی اسے کہتے ہیں جو مذہب کا علم حاصل کرے اور اسے روزی روٹی کمانے کا ذریعہ بنالے۔ مسجد میں اگر نمازی کم ہونگے تو مولوی کا جی نہیں لگے گا اس لیے وہ نمازیوں کی تعداد بڑھانے کو جزا و سزا کا ذکر زور شور سے کرے گا۔ مولوی عالم نہیں ہوتا بلکہ وہ پیشہ ور مذہب فروش ہوتا ہے۔ یہ بات ہر مذہب کے مولوی پر صادق ٓتی ہے۔ پروہت ہو، پادری ہو یا مربی سب کا ایک ہی کام ہے کہ مذہب کو سیاق و سباق سے جدا کرکے دیکھتے ہیں۔
عبادت کے لیے اجتماع ہمیشہ تب زیادہ ضرورت رہی جب لوگوں کو باہم رکھنا مقصود تھا کیونکہ زندگی کے تمام پہلووں کا تعلق مذہب سے ہوا کرتا تھا اور ایسا شروع کے سالوں میں ہو سکتا ہے جن کی تعداد دس بیس یا پچاس سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ باجماعت نماز پڑھنا ضروری ہے فرض نہیں۔ جائیے اور جا کر اتنی زیادہ مساجد میں لوگوں کی تعداد دیکھ لیجیے۔ ماسکو میں چار مساجد ہیں صرف۔ جمعہ کو ہر مسجد میں پانچ سے سات ہزار تک نمازی ہوتے ہیں لیکن باقی دنوں کی عام نمازوں میں یہ تعدا ایک سو شاید ہی ہو پاتی ہو۔ پاکستان کی مساجد میں دیکھ لیں یہی حال ہوتا ہے۔ اللہ بس دوزخ میں نہ ڈالے، ہم تو ویسے بھی طبقاتی نظام پسند نہیں کرتے چاہے وہ جنت میں ہی رائج کیوں نہ ہو۔ مرسیڈیز اور چنگچی کا تو وہاں ویسے ہی کوئی چکر نہیں ہوگا، نیچے سے اوپر تک سبھی کے لیے یہ اصول یکساں ہوگا کہ جو بھی خواہش کرے گا پوری ہوگی۔ اس بارے میں ملا لوگوں نےآج تک یہ نہیں بتایا کہ جنت کے مختلف درجوں میں مقیم جنتیوں کی خواہشات درجے کے حساب سے محدود تو نہیں ہوں گی کیا۔
مرتد کی سزا موت۔ مذاہب کے ابتدائی ایام میں ایسا اصول لاگو کیا جانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگر ایسی کڑی سزا نہ ہوتی تو لوگ مذہب قبول کرنے اور اس سے نکل جانے کو مذاق بنا کر رکھ دیتے مگر آج جب اپنے مذہب سے جڑے رہنا ہر ایک کی خواہش ہے تو کسی ایک ایسے شخص کو مارنے کی کیا ضرورت ہے جو نجانے کیوں ایسا کرتا ہے۔ اگرچہ مغربی ملکوں میں جا کر اکا دکا لوگ مذہب بدل لیتے ہیں مگر وہاں انہیں مارنے کون دے گا۔ ریاست ہر شہری کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے یا کسی بھی مذہب کو یکسرچھوڑ دینے کا حق دیتی ہے اور اس کے اس حق کی حفاظت بھی کر سکتی ہے۔ مغربی ملکوں کی تو بات ہی چھوڑیں، میں پاکستان کے ایک معروف زمیندار گھرانے کے ایک فرد کو جانتا تھا جس نے ایک عیسائی خاتون سے دوسری شادی کی اور باقاعدہ عیسائی ہو گیا۔ اس کی موت پر پادری اس کی لاش لینے پہنچ گئے تھے تاکہ اپنے مطابق دفن کر سکیں مگر زمیندار گھرانہ مضبوط تھا، مشہور کر دیا کہ مرتے مرتے اس نے کلمہ پھر سے پڑھ لیا تھا۔ وہ شخص اس مذہب کو اختیار کرنے اور اس کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہو جانے کے بعد پندرہ بیس برس زندہ رہا تھا مگر کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ اسے قتل تو کیا اس پر انگلی تک اٹھا پاتا۔ اگر کوئی عام آدمی اس طرح مرتد ہو جاتا تو اس کو مارنے میں لوگ لمحہ بھی نہ لگاتے۔ مولوی کے مذہب کی شدت کا رخ بھی مصلحت کے مطابق ہوتا ہے۔
درست کہا جاتا ہے کہ مذہب کا معاملہ انسان اور خدا کے درمیان رشتہ پے مگر ہمارے ملک اور اس جیسے ملکوں میں مولوی اور مولوی کے بتائے مذہب کو ماننے والے خود کواس رشتے کا میکہ سمجھتے ہیں یا سسرال اس بارے میں تو کچھ کہنا دشوار ہے مگر اپنے مسائل و مصائب کے سبب اپنے اندر پیدا ہو چکی درشتی اور شدت پسندی کو مذہب منوانے کی غرض سے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چاہیں تو کسی کو اٹھا کے جلتے بھٹے میں پھینک دیں چاہیں تو چوکیداروں اور ملازموں کے ہاتھوں ملک کے ججوں کو مروانے کی بات کر دیں۔
پیغمبر پر ماں باپ اور اولاد قربان کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کی بلی چڑھا دیں۔ کیا محمدﷺ جیسی شخصیت ایسا پسند کرتی۔ ایسا انہوں نے تب کہا تھا جب اسلام کو مضبوط کیے جانے کا دور تھا کہ پیغمبر کو سب سے بڑھ کر پیار کرو تاکہ ان کے بتائے مذہب کو بڑھانے کی سعی میں کوئی آپ کےآڑے نہ آ سکے۔ ضرورت پڑے تو ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد تک چھوڑ دو اوراگر وہ مذہب اور اس کے پیامبر کی نعوذ باللہ مخالفت کریں تو ان کے ساتھ ایسا ہی برتاو کرو جیسا کسی دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ آج جب آپ ، آپ کے والدین اور آپ کی اولاد سب ماشااللہ مسلمان ہیں تو یہ فقرہ کہنا ماسوائے زیبائش جذبات کے اور کوئی معانی نہیں رکھتا۔ جب آپ کے والدین اور آپ کی اولاد خود حرمت رسول کے لیے ڈٹ جانے اور جان دینے کو تیار ہے تو آپ انہیں کیونکر قربان کر سکتے ہیں۔ ملا نے ہمارے منہ میں صرف لفظ ڈالے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی جانب نہ کبھی راغب کر سکا ہے اور نہ کبھی کر پائے گا کیونکہ اس کے پاس دلیل ہے ہی نہیں محض جذبات کا فروغ ہے۔
ملا ضروری نہیں کہ مدرسہ کا پڑھا ہوا عام امام مسجد یا خطیب ہو۔ بہت پڑھا لکھا شخس بھی ملا کے رویوں کا حامل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں نے چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی جسے پاکستان کی ایک نامور انسان دوست شخصیت احسان اللہ خان صاحب نے پوسٹ کیا تھا۔ اس میں ایک غالبا" امریکی متاہل جوڑا اپنے ایک مرد دوست کے ساتھ ہر طرح سے مشترک زندگی گذار رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ تینوں اتوار کو چرچ بھی جاتے ہونگے۔ جس قصبے میں رہتے ہیں، وہاں کے لوگ بھی جانتے ہونگے کہ وہ اور طرح کی زندگی گذار رہے ہیں۔ جوڑے کی دو چھوٹی بچیاں بھی ہیں، جنہیں سکول میں کسی نے کہا کہ تمہارے دو ڈیڈ یعنی باپ ہیں تو بچی نے کہا ہاں کچھ کے دو باپ بھی ہوتے ہیں۔ میں نے اس سوال کے ساتھ کہ کیا یہ لوگ آپ کے خیال میں بے راہرو ہیں جبکہ وہ خود کو بے راہرو نہیں سمجھتے، مذہب کا حوالہ دیے بن اگر کوئی رائے دے سکتے ہیں تو دیجیے، یہ وڈیو شئیئر کر دی۔ کئی لوگوں نے مثبت رائے دی مگر میرے ایک ہم جماعت جو لندن میں سرجن ہونے کے ساتھ امام مسجد بھی ہیں، ناراض ہو گئے اور حکم دیا کہ فورا" اتارو۔ یہ بھی مولویانہ رویہ ہے کیونکہ دنیا میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ آپ کے بنائے ہوئے یا آپ کے اختیار کردہ اصولوں کو مانیں۔ ٓپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اگر ثابت کر سکتے ہیں تو دلیل کے ساتھ ان کے رویے کو غلط ثابت کریں، بزور شمشیر انہیں رویے ترک کرنے پر مجبور کرنے کا انداز مت اپنائیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...