پاکستان جیسے ملک میں جہاں مذہب ذاتیات سے نکل کر معاشرت پر استوار ہے وہاں پر اگر آپ مذہب کے متعلق سوال اٹھائے تو آپکو مختلف رویے دیکھنے کو ملے گے، اول تو آپ کو غیر اخلاقی القابات دیے جائے گے اگر آپ اس سے بھی نا خاموش ہو سکے تو آپ پر کُفر کے فتوے لگائے جائے گے اگر آپ تب بھی خاموش نا ہو تو کسی طرح سے توہین کا پہلو نکال کر آپ کو خاموش کروا دیا جائے گا اور اسکا شدید ترین ردعمل آپ کی جان لیے جانے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے لیکن افسوس یہ جان لینا قتل نہیں ہوگا بلکہ یہ دین کی خدمت ہوگی.
ایسی کئ ویڈیوز منظرِعام پر آتی رہتی ہے جہاں پر مذہبی علماء کرام سائنس کی دریافتوں اور ایجادات کو حرام اور ناقص کہہ کر خارج کردیتے ہیں.
سوال یہ ہے کہ مذہب اور سائنس میں تضاد کیوں ہے؟ تو آئے اسکا جائزہ لیتے ہے،
زمانہ قدیم میں جب انسان اپنے ماحول سے واقف نا تھا تو وہ ہر اپنے سے طاقت ور شے سے خوف زدہ ہوجاتا تھا، انسانی عقل کا ارتقاء اتنا نا ہوا تھا کہ وہ وجوہات کی تشخیص کرسکے.
یعنی جب انسان اندھیرے سے خوف زدہ ہوکر اپنی غار میں چھُپ جاتا تھا اور جس وقت سورج آکر اجالا کردیتا تو اُس نے روشنی کی اندھیرے پر فتح سے متاثر ہوکر سورج کو اپنا دیوتا بنا لیا، ایسے ہی جب اُس کو آگ سے خوف آنے لگا تو اُس نے آگ کی پوجا کرنی شروع کردی، البتہ وقت گُزرنے کے ساتھ یہ نظریات پختہ ہوتے گئے اور ان ہی نظریات کی کوکھ سے مذہب نے جنم لیا.
انسان نے سوچا کہ اگر ہوا چل رہی ہے تو یہ کون چلاتا ہے، بارش کون برساتا ہے؟ کس کی ہیبت سے زمین میں زلزلہ آجاتا ہے؟ یقیناً اُس وقت انسانی عقل نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ ان سب کا جواب دے سکتا سو ان سوالات کے جواب میں اُس نے قصے کہانیاں بنانا شروع کردی، ان قصے کہانیوں نے دیوی دیوتا کو تخلیق کیا جو اس کائنات کو چلا رہے تھے، کوئی سورج کا دیوتا، تو کوئی ہوا کی دیوی، انسان تمام مظاہر کا حل دیوی دیوتا تخلیق کرکے اور ان کے متعلق قصے کہانیاں تخلیق کرکے نکالتا رہا، یہ کہانیاں نسل در نسل چلتی اور لوگ ان پر صدق دل سے ایمان بھی رکھتے، یعنی قدیم مصر میں یہ رواج تھا کہ جب تک فرعون اپنی عبادت گاہ میں خاص عبادت نا کرے تو سورج نہیں طلوع ہوتا یا مذہبی پروہت جس وقت تک منہ میں پانی لے کر مخصوص قسم کے منتر پڑھ کر رقص نا کرے تو بارش نہیں ہوتی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی عقل کے ارتقاء کے ساتھ جب اُس نے تمام مظاہر کا حل اپنے ماحول میں تلاش کرنا شروع کیا تو وہ یہ تشخیص کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اگر فرعون عبادت نا بھی کرے تو سورج طلوع ہوگا اور مذہبی پروہت نا بھی رقص کرے تو بارش ہونا ممکن ہے. اس نئی فکر نے سائنس کو جنم دیا انسان اپنے ماحول میں تبدیلی اور ارتقاء کی تشخیص کرنے لگا اور نئی ایجادات اور دریافت کرنے لگا اُس نے تشخیص کرلی کہ زمین کی گردش کے سبب دن اور رات کا نظام قائم ہے اور یہ اٹل قانون کے مطابق گردش کرتے ہے تو اِس سے اُس نے کلینڈر بنا لیا، اُس نے دیکھا کہ ستاروں کی مخصوص حرکت ہے تو اُس نے کَمپس کی ایجاد کرلی وہ جان گیا کہ زمین سے حرارت کے باعث بخارات بن کر بادل بنتے ہے اور برستے ہیں تو وہ جان گیا کہ مذہبی پروہت کا وہ رقص اور کہانی ایک دھوکہ ہے
جوں جوں انسان نے اپنے ماحول کی تشخیص کرکے سیکھنا شروع کیا تو مذہبی بنیادیں جن کہانیوں پر استوار تھی گرنے لگ گئی اور یوں دونوں میں تضاد پیدا ہونا شروع ہوگیا.
زمانہ قدیم کے انسان نے اپنے ماحول کا مشاہدہ کرکے سیکھا تھا کہ زمین ساکن ہے کیونکہ وہ دیکھتا تھا پہاڑ جہاں ہیں وہی کھڑے ہیں، درخت جہاں ہیں وہی رکے ہوئے ہیں انسان کی نظر جہاں تک جاتی تھی زمین کی سطح ہموار دکھائی دیتی تھی اس نے ان سب مشاہدات سے اخذ کیا کہ زمین ساکن ہے اور ہموار ہے(یعنی فلیٹ ہے) اور اسی کو اس نے اپنی من گھڑت قصے کہانیوں کا حصہ بناکر دیوی دیوتا سے منصوب کردیا مگر مختلف سائنسدان جیسے گلیلیو، نیوٹن آئن سٹائن نے یہ ثابت کردیا کہ نا صرف زمین گول ہے بلکہ یہ سورج کے گرد گردش کرتی ہے.
اس سے مذہبی پروہتوں کی قصے کہانیوں کو شدید دھچکا لگا لوگ انکی تشریحات پر شک کرنے لگے بعدازاں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے انھوں نے کہانیوں میں نئے الفاظ اور تراجم کرکے اپنی ساکھ کو قائم رکھنا چاہا مگر وہ ایک ہی نقطہ پر رُکے رہے، جبکہ سائنس ترقی کرتی رہی اور چاند، مریخ اور دوسرے سیاروں کو فتح کرنا شروع کردیا.
آج اکیسویں صدی میں جہاں سائنس کی گرفت ہمارے معاشرے پر ہے کہ جہاں اپنے اردگرد نظر دوڑانے سے ہمیں سائنس کے معجزات نظر آتے ہے یہ اس چیز کی دلیل ہے کہ سائنس حق ہے.
تیز ترین گاڑیوں کی ایجاد کرکے وقت پر قابو پالیا گیا کہ جو سَفر پہلے مہینوں میں ہوتے اب گھنٹوں میں ہونے لگے.
موسم کی تبدیلیوں پر عبور حاصل کرلیا کہ مصنوعی بادل تخلیق کرکے قحط زدہ علاقوں میں بارش برسائی جانے لگی.
جہاں کوئی مریض بیماری سے مرجاتا تھا اور مذہبی پروہت دم درود سے اسکا علاج کرنے کی کوشش کرتے اور اسکو نوید سناتے کہ اب تم بہشتی ہو وغیرہ وغیرہ وہی سائنس نے دماغ کے ٹرانسپلانٹ سے لے کر ایک معمولی بیماری کے متعلق تجربات کرکے اسکی شفاء فراہم کرنی شروع کردی.
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ مذہب ہر حرکت اور عمل کی وجوہات بیرونی خیالات میں تلاش کرتا ہے جیسے کہ آپ نے دیکھا جب کرونا وائرس کی وبا آئی تو اکثر مذہبی عالم آیات اور وظائف لے کر حاضر ہوگئے کہ کرونا وائرس کہ مرض کی شفا ان آیات کے پڑھنے سے ہے پاکستان میں تو اس بیماری سے چھٹکارے کی خاطر ٹھیک 10 بجے کے بعد اذانیں دی جاتی تھی جبکہ نا آذان سے کچھ فرق پڑا نا ہی وظائف سے کچھ فرق پڑا.
مگر علاج وہی سائنس کی درگاہ پر ماتھا ٹیکنے سے ملنے کا اندیشہ ہوا. کم سے کم احتیاطی تدابیر بھی جو کی جاتی ہے جیسے کہ ماسک ہینڈ سینیٹائزر یا جو بھی ابھی ادویات دی جارہی ہے سب سائنس کے معجزات ہے.
سائنس مادے میں حرکت کے اسباب تلاش کرتا ہے اور پھر تجربہ کرکے نتیجہ اخذ کرتا ہے یعنی سائنس دان صرف مادیت پر کام کرتا ہے جہاں سے وہ سیکھتا ہے تجربے کرتا ہے اور انسانیت کی خدمت کرتا ہے.
جہاں مذہب سائنس کی برتری تسلیم کرتا ہے وہاں وہ سائنس کے در پر جھک جاتا ہے اس لیے مذہبی پروہت سائنسدان کی خدمات کو تسلیم نہیں کرتے اور خوف کھاتے ہیں کہ انکے پاس لوگوں کے اذہان پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا.
گزشتہ دنوں یہی کام ایک مدنی چینل کے مولانا کررہے تھے بچوں کو کہا زمین تو ساکن ہے سائنس کی یہ تھیوری ہی غلط ہے، اب ان کے خوف کا کیا عالم ہے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے، ایسے علماء کے خوف کی وجہ سے اکثر انکے پیروی کرنے والوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ ان کے عقائد کے لیے بھی خطرناک ہے، یہ سمجھنا چاہیے کہ جو علماء کہتے ہے کہ زمین ساکن ہے تو انکی بات سے لگتا ہے انکا ذہن بھی ساکن ہے.
کیونکہ آج کہ جدید دور میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مذہب سائنس کے در پر جھکا ہوا ہے.
—————————————————————————–
اس تحریر کا مقصد سائنس اور مذہبی نظریات میں تضاد کا بیان کرنا ہے اس لیے یہ اخذ کرلینا کہ تحریر کنندہ مذہب بیزار یا کسی بھی مذہب کے مخالف ہے تو درست نا ہوگا،اس تحریر میں جن علماء کا ذکر کیا گیا ہے اسکا مقصد ایسے عناصر کی نشاندہی کرنا ہے جن کے باعث معاشرے میں بدگمانی فروغ پاتی ہے، جن بچوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین ساکن ہے جب انھیں شعور حاصل ہوگا تو وہ بدگمان ہوجائے گے، ایسے علماء کی نشاندہی کرنا ہم سب کا فرض ہے تاکہ ہماری نسل حقیقت جان سکے اور عقل و شعور حاصل کرسکے.