مذہب کی عمارت:
بہت مطالعہ، مشاہدہ و تجربہ اورغوروفکر کرنے کے بعد سمجھ آتا ہے کہ مذہب کی عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہے اور اگر ایک دو ستون ٹوٹ جائیں تو ساری عمارت گرجائے. وہ چار ستون یہ ہیں:
ناپید ہونے کا خوف، لالچ ، زور زبردستی، اورلاعلمی۔
ناپید ہونے کا خوف:
انسان میں جو زندہ رہنے کا فطری جذبہ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے اور تکالیف سے بچارہے۔ جب دیکھا کہ ہر جاندار کچھ عرصے بعد مرجاتا ہے تو فکر پڑی اور سوچ پیدا ہوئ کہ موت کے بعد بھی زندگی ہونی چاہئے کیونکہ دیکھا کہ پودے پتے، کیڑے مکوڑے وغیرہ زمین میں مَرکھپنے کے بعدبھی دوبارہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہذا قدیم ہندووں میں آواگون (تناسُخ) کا نظریہ پیدا ہوا۔ جبکہ قدیم اہلِ مصر و بابل میں حیات بعد از موت کا عقیدہ پیدا ہوا جو تینوں مذاہبِ ابراہیمی اور ہِندواِزم کا ایک اہم ترین ستون بنا. اب اس مِٹ جانے کے خوف کو تسلّی و آسرا ملا اور مذاہبِ نے بھرپور فائدہ اُٹھایا، آخرت، سزاوجزا ،جنت و دوزخ کے دروازے کھل گئے اور اسکے ساتھ ساتھ نبیّوں پروہتوں پادریوں مُلاووں کی بھی لاٹری کھل گئی کہ عوام پر کنٹرول کرنے کی چھڑی مل گئ۔
لالچ :
لالچ دوسرا اہم ترین فطری جذبہ ہے جو انسان کو مختلف کاموں پر آمادہ کرتا ہے۔ جنت، حور، شراب کا لالچ دنیا کے بڑے بڑے کام کراسکتا ہے جبکہ آواگون بہتر درجے اوربہتر رُوپ کنڈلی دلا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، عوام نے اپنے حکمرانوں کا مذہب دنیاوی مفادات کے لئے بھی اپنایا۔
جبروستم:
زور زبردستی کا یہ ستون ذرا کمزور ہوچکا ہے اس نئے دور میں۔ یہ ستون حکمرانوں کی مد د سے کھڑا ہوا۔ جب ظالم حکمرانوں نے اپنے کسی پسندیدہ مذہب کو سرکاری درجہ دیا اور اسکے نہ ماننے والوں پر معاشی وسماجی ظلم کیئے تو اکثریت کو نیا مذہب مجبوراََ اختیار کرنا پڑا۔ رومن ایمپرر کانسٹنٹین نے جب عیسائت کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا اور دوسرے مذاہب کو بَین کیا تو بےشمار پَیگن اور دوسرے مذاہب کے لوگ عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ بھی بِلاواسطہ زور زبردستی کہلائے گی. بذاتِ خود عیسائت میں کوئ خاص بات نہیں تھی۔ کانسٹنٹین کسی بھی گمنام اورمعمولی مذہب کو سرکاری درجہ دے سکتا تھا اور آج وہ مذہب، عیسائت کی جگہ پر ہوتا. اِسی طرح اسلام ایک معمولی اور گمنام مذہب ہی رہتا اگر بِزنطِین کی فوجیں مسلم حملہ آوروں کو پسپا کر دیتیں۔
اسی طرح برّصغیر میں اسلام کی حوصلہ افزائ اور دوسرے مذاہب کی حوصلہ شکنی ہوئ، گو کہ برّصغیر میں دوسرے مذاہب کوبَین نہیں کیاگیا. مُسلم حملہ آور جہاں جہاں گئے وہاں حکمرانی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی حوصلہ افزائ بھی کرتے گئے۔
اگر چھوٹے پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ زور زبردستی سندھ کے گاووں میں نظر آتی ہے جہاں آج بھی ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے شادی کرلی جاتی ہے۔ اس مسئلہ کو روکنے کے لئے حکمران پیپلزپارٹی کو قانون سازی کرنا پڑی جسکی رُو سے زبردستی مذہب بدلہ نہیں جاسکتا۔
لاعلمی:
انسان چونکہ تجّسس پسند ہے اور بے شمار چیزیں نہیں جانتا مگراپنے مسائل حل کرنا چاہتاہے تو شروع سے طاقتور مظاہرقدرت کو اپنے لئے راضی کرنے کی تگ و دو میں رہا. نمعلوم طاقتوں کو دیوی دیوتا اور خدا کا نام دیتا آیا ہے. شروع میں کئ خدا دیوتا تھے، شعور بڑھنے کے ساتھ ساتھ خداوں کی تعداد کم ہوتی گئ، تثلیث ہوئ، پھر ثنویت ہوئ، آخر میں وحدانیت پر تھمی۔
اپنی کم علمی یا لاعلمی کی وجہ سے انسان اپنی کم مائگی، کمزوری اور محرومی کو نمعلوم خدا کی مرضی و منشاء سمجھتا ہے تو تسلّی ہوتی ہے. اور اسی سے مدد مانگتا ہے. ظلم ہونے پر بدلہ نہ لے سکے تو اسے کسی طاقتور خدا کی ضرورت پڑتی ہے جو اسکا بدلہ لے سکے اِس دنیا یا آخرت میں۔ ان نفسیاتی بے قراریوں کا مداوہ ایک مذہب بخوبی سرانجام دیتا ہے اور اس طرح مذہب کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔
مذہب کی بنیاد ہی چونکہ غَیب ہے لہذا جب عقل و شعور کی روشنی پڑتی ہے تو غَیب غائب ہونے لگتا ہے. متذکرہ چار ستون اسی غَیب پر قائم ہیں. پَروں والے فرشتے، شیاطین، جنات، حیات بعد از موت، جنت، دوزخ، روح، خود خدا سب غَیب یا، غائب ہیں. یوں سمجھ لیں کہ غیب ایک تخیلّاتی جال ہے جسمیں عوام کی اکثریت کو پھنسایا جاسکتا ہے اور ریوڑ کے ریوڑ کسی ایک رستے پر چلائے جاسکتے ہیں.
اور جال میں وہی آتے ہیں جو خوف، لالچ، زور زبردستی، لاعلمی میں پھنس جائیں.
اصل میں، مذہب کے علاوہ بھی کوئ نظریہ مثلاََ کمیونزم، نازی ازم، نیشنلزم، کیپٹلزم، جمہوریت وغیرہ کسی بھی طرح کے تخیلّاتی جال (Imagined Order) کوکامیابی سے استعمال کرسکتا ہے.
مگر جیسے جیسے شعور بڑھتا ہے، کم علمی یا لاعلمی غائب ہونے لگتی ہے اور انسان کو سمجھ آنے لگتا ہے کہ یہ کائنات چند اصولوں پر چل رہی ہے اور کوئ مداخلت کرنے والا دیوی دیوتا نہیں، اور نہ ہی کوئ وہ خدا ہے جو مذاہب بتاتے ہیں. انسان بے شک کئی طرح کی محدودیات میں جکڑا ہوا ہے مگر اپنی زندگی بہتربنانے کا ذمّہ دار وہ خود ہے اور اپنی زندگی تبھی بہتر بنا سکتا ہے جب معاشرہ بھی بہتر بنا ئے.
( صَریرِ خامہ: خُوشدِل عظیم)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“