پرانی بات ہوگئی ہے ایک دفعہ آفس میں بات چلی تو میں نے یہ کہا ہم لوگ نام اللہ کا لیتے ہیں مگر اصل میں ہم پیسے کی پوجا کرتے ہیں۔ لوگوں نے میری اس بات سے اتفاق نہیں کیا اور پورا ہی آفس میرے خلاف صف آرا ہوگیا۔ میرا کہنا تھا کہ بے شک نمازیں پڑھی جاتی ہیں، حج اور عمرہ بھی کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم رشوت، ناجائز کمائی اور دوسرے غلط کام نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بیٹھا ہوا ہے نمازیں پڑھ کر، مذہبی محفل، حج اور عمرہ کرکے اپنے گناہ معاف کروالیں گے۔ اس لیے یہ ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے پیسہ ملے اس میں جائز ناجائز کی قید نہیں ہے۔ کسی مولوی کے پاس کوئی غریب دعا کے لیے جائے تو چند الفاظ ادا کرکے اسے ٹال دیتا ہے۔ اس طرح کسی غریب کی میت کو دو منٹ میں نمٹا دے گا۔ کوئی غریب طوائف اس کے پاس جائے تو اسے کنجری کہہ کر نکال دے گا۔ مگر کوئی امیر طوائف یا امیر آدمی اس کے پاس آئے گی تو وہ اس کے ساتھ محبت سے پیش آئے گا اور اسے لمبی چوڑی دعائیں بڑی محبت سے دے گا۔ کیوں کہ اسے بھاری نذرانہ ملنے کی امید ہوتی ہے۔
آفس کے سب لوگوں نے جواب میں مجھے غلط کہا اور میری بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی دن رات کو خبروں میں دیکھا کہ ایک بہت بڑے مولوی صاھب نے ایک نامی گرامی اداکارہ سے ملاقات کی اور اسے دعائیں دیں۔ یہ وہ ادارہ تھی جس کی بہت سی فحش قسم کی تصویریں جو کہ انہوں نے انڈیا جاکر بنوائیں تھیں عام تھیں۔ دوسرے دن میں نے آفس گیا ہاں بھائیوں اب تم کیا کہتے ہوئے ہو کہ ان مولوی صاحب کس لیے کھانا کھایا تھا؟ ایک نے کمزور آواز میں کہا دعا دینے کے لیے۔ میں مسکرایا اور کہا بہت خوب مگر بات درست ہے کیوں کے ان مولویوں کو امیر آدمی سے مطلب ہوتا ہے ان کے کردار سے نہیں۔ یہ ساری باتیں تو غریبوں میں دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ یہ پیسہ کی پوجا کرتے ہیں اور پیسہ امیر لوگوں سے حاصل ہوتا ہے، غریبوں سے نہیں۔ دیکھو اللہ نے تمہارے سامنے مجھے سرخرو کیا اور فوری طور پر میری بات کو سچ ثابت کر دیا۔ مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
شاید آپ جان گئے ہوں گے یہ مولوی صاحب مولانا طارق جمیل تھے۔ وہی طارق جمیل جو کہ تبلغی جماعت کے کرتا دھرتا ہیں مگر انہوں نے کورونا کی وبا کے باوجود تبلغی جماعت کا اجمتاع موخر نہیں کروایا۔ میں یاد دلادوں طارق جمیل صاحب نے ہی مفتی حسان سے لوگوں کا تعارف کرایا تھا کہ یہ لوگوں سے پیسہ لے کر مدرسوں و مسجدوں میں پیسہ لگاتے ہیں اور انہیں اچھا منافع دیتے ہیں۔ لوگوں نے مفتی حسان کے پاس اٹھارہ ارب لگائے جنہیں لے کر مفتی حسان فرار ہوگئے۔ مولانا طارق جمیل پر بھی بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ یہ بھی شریک کار تھے۔ کیوں کہ انہوں نے ہی ہمیں پیسہ لگانے کا کہا تھا۔ یہ اگرچہ اندھی عقیدت تھی کہ مسجد اور مدرسوں میں کیسا کاروبار؟ مگر لوگوں نے مولانا کے کہنے پر پیسہ لگا دیا اور اس کیس میں سے طارق جمیل کا نام ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے شامل نہیں کیا۔ یہی طارق جمیل نے کل شب میں دعا میں عمران خان کو مرد نیک اور بہت کچھ قرار دیا اور اس کا بھی عمران خان اعتراف بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کی ایک ناجائز بیٹی امریکہ میں بھی ہے۔ مگر مولوی طارق جمیل نے انہیں مکھن لگایا۔
۔ میں نے دیکھا ہے یہ عابدگزار لوگ جن کی پیشانیاں سیاہ ہوتی ہیں اور کتنے ہی حج اور ہر سال عمرہ کرتے مگر چور بازای مفافع خور کرنے والے یہی لوگ ہیں اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ابھی ایک اور مولوی مدنی کا مار پیٹ کا قصہ اور اس کی حقیقت سامنے آئی ہے۔ ان کا کردار سخت گھناؤنا ہے اللہ ہمیں ان سے بچائے۔ طارق جمیل جو مذہب کی آڑ میں لوگوں الٹے سیدھے قصے سناکر لوگوں کو ورغلاتے ہیں۔ یہ لوگ حدیثوں کے نام سے خرافات پھیلاتے ہیں اور تبلیغ کے بہانے پیسہ کمانے کا کاروبار کرتے ہیں۔ کہنے کو میرے پاس بہت کچھ ہے۔
چپ رہتا ہوں تو دل جلتا ہے
کچھ کہتا ہوں تو ہوتی رسوائی تیری