مذہب ِ سائنس کی شدت پسندانہ روش کا جائزہ
سائنس کو یہ وہم ہے کہ وہ فطرت کو سمجھتی ہے۔ فی زمانہ سائنس کی حیثیت کسی مضبوط مذہب کے جیسی ہے۔ کوئی مضبوط مذہب اپنے عہد میں یوں پہچانا جاسکتاہے کہ اُس کے ماننے والے کھلم کھلا اپنے عقائد کا اظہارکرسکیں اور باقی لوگ اُن سے فی الواقعہ مرعوب ہوں۔ دور ِ حاضر میں مذہبِ سائنس کے ماننے والے عام طور پر کہہ دیتے ہیں، ’’آئی ڈونٹ بیلیو اِن گاڈ، آئی بیلیو اِن سائنس‘‘۔ اور یوں سائنس ایک مذہب ہے۔ یہ مقدمہ خاصا طویل ہے اور تمام قضیات یہی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ سائنس فی الواقعہ ایک مذہب ہے۔
یہ ایک بِیلیف سسٹم ہے جو اب پوری دنیا میں پھیل چکاہے۔ چنانچہ ہم کیسے یقین حاصل کرینگے کہ وہ سائنس جسے ہم ’’تحقیق کا فقط ایک طریقۂ کار‘‘ مانتے تھے اور یہ سائنس جو عقائد کا ایک مکمل نظام ہے دونوں میں سے کون درست ہے اور دونوں میں سے فی زمانہ کس کا راج ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی سائنسی نظریہ مقبول ہوجاتاہے تو وہ خود بخود پوری دنیا کے انسانوں کے ذہنوں میں گھر کر جاتاہے اور یوں بعض سائنسی نتائج وقت کے ساتھ ساتھ عقائد کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر سے لے کراب تک سائنس ایک طریقِ تحقیق سے بڑھ کر عقائد کے ایک نظام کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اگر فلسفیانہ طور پر عقائد کے اس نظام کا جائزہ لیا جائے تو ہم اِسے عموماً نام دیتے ہیں،
میٹیریل ازم
جدید سائنسی ذہن کی نظر میں سائنس مقدس ہے اور اس کے مقابلے میں وہ کتابیں جنہیں کبھی مقدس سمجھا جاتا تھا ناپاک ہوچکی ہیں۔ اگر ہم کبھی سائنسی عقائد پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اُن میں بھی ویسے ہی نقائص پائے جاتے ہیں جیسے مذہبی عقائد میں ڈھونڈے جاتے ہیں۔ رُوپرٹ شیلڈریک (Rupert Sheldrake ) نے رچرڈ ڈاکنز کی کتاب، ’’ گاڈ ڈلیوژن‘‘ کے جواب میں ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا، ’’سائنس ڈلیوژن‘‘۔ اِس کتاب میں رچرڈ ڈاکنز کے ہی طریق ِ استدلال کومدنظر رکھا گیا اور سائنسی عقائد کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو ڈاکنز نے مذہبی عقائد کے ساتھ کیا۔ نتیجہ حیران کن تھا۔ سائنس کے سب بنیادی عقائد عین اُنہی اعتراضات کی زد میں آرہے تھے جو ’’گاڈ ڈلیوژن‘‘ میں ڈاکنز نے خدا اور مذہبی عقائد پر کیے تھے۔
رُپرٹ نے سائنس کے دس بنیادی عقائد کو باقی عمومی سائنس سے الگ کرکے اُن کا جائزہ لیا۔ سائنس کے اِن بنیادی عقائد پر رُپرٹ نے سائنٹفک طریقِ کار کے مطابق ہی نگاہ ڈالی تو اُن میں سے کوئی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا اہل نہیں تھا۔ رُپرٹ نے کہا کہ یہ دس عقائد وہ ہیں جنہیں بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا ’’ڈیفالٹ وِیو‘‘ کہا جاسکتاہے۔ وہ دس عقائد یہ ہیں،
۱۔ نیچر مکینکل یعنی کسی مشین کی طرح ہے۔ کائنات ایک مشین کی طرح ہے۔ جانور اور پودے مشینوں کی طرح ہیں۔ ہم مشینوں کی طرح ہیں۔ ہم دراصل روبوٹس ہیں جنہیں جینیٹکلی پروگرام کیا گیا ہے۔
۲۔ مادہ بے شعور ہے۔ یہ ساری کائنات ایسے مادے سے بنی ہے جس میں شعور نہیں ہے۔ ستاروں، سیّاروں، کہکشاؤں، جانوروں، پودوں حتیٰ کہ ہم میں خود شعور نہیں ہے۔ چونکہ مادہ بے شعور ہے اِس لیے فطرت کے قوانین طے شدہ اور متعین ہیں۔
۳۔ فطرت کے قوانین آج بھی وہی ہیں جو بگ بینگ کے وقت تھے اور یہ قوانین ہمیشہ ایسے ہی رہینگے۔ صرف قوانین ہی نہیں بلکہ وہ تمام کانسٹینٹس (constants ) جیسے کہ بِگ جی (G) یا روشنی کی رفتار وغیرہ بھی متعین اور طے شدہ ہیں اور کبھی نہیں بدل سکتے۔
۴۔ مادے اور انرجی کی کُل مقدار ہمیشہ ایک رہتی ہے۔ یہ مقدار کبھی نہیں بدلتی۔ بس صرف اس وقت یہ مادہ اور توانائی نہیں تھے جب بگ بینگ نہیں ہوا تھا لیکن جب ہوگیا تو اس کے بعد سے انرجی اور مادے کی کُل مقدار ہمیشہ ایک رہتی ہے اور رہیگی۔
۵۔ فطرت کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ فطرت مقصد کے بغیر ہے۔ نیچر پرپَز لیس ہے۔ ارتقأ کا بھی کوئی مقصد نہیں ہے۔ ارتقأ کسی سے ہدایات لیے بغیر وقوع پذیر ہوا ہے سو یہ اَن گائڈڈ ایوولیوشن ہے۔
۶۔ ہر وہ شئے جو ہمیں وراثت میں ملتی ہے ایک میکانزم کی پابند ہے۔ ہم جینٹک کوڈ کے طور پر جو کچھ وصول کرتے ہیں وہ مادیت کے اُصولوں پر کاربند ہے۔ ایک مشین کی ترقی کا یہ پہلو کہ وہ جینٹک کوڈز کے ذریعے اپنے جیسی نئی مشینیں بناسکتی ہے خالصتاً سائنسی بایں ہمہ غیرشعوری اور خودکار عمل ہے۔
۷۔ یاداشتیں ہمارے دماغ کے اندر محفوظ ہیں۔ جو کچھ بھی ہمیں یاد ہے یا بھول گیا وہ سب مادی سطح کی میموری ڈسک میں محفوظ رہتاہے۔ یاداشتیں جمے ہوئے خیالات اور تصورات ہیں جو دماغ کے مختلف حصوں میں سے ایک کے اندر میکانکی انداز میں رکھے ہوئے ہیں۔
۸۔ ہمارا ذہن ہمارے سر کے اندر ہوتاہے۔ تمام شعور ہمارے دماغ کی سرگرمی ہے اور کچھ بھی نہیں۔
۹۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ اُس وقت تک رابطہ نہیں کرسکتا جب تک درمیان میں کوئی خالص مادی واسطہ موجود نہ ہو۔
۱۰۔ کسی بھی بیماری کا علاج ہمیشہ میکانسٹک میڈیسن سے ہی ممکن ہے۔ باقی تمام طریقہ ہائے علاج توھمات ِ محض ہیں۔
ان بنیادی عقائد پر رُپرٹ نے سائنسی نکتۂ نگاہ سے ہی اعتراضات اُٹھائے جو منطقی اعتبار سے تقریباً درست ہیں۔ رُپرٹ کا بنیادی مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ سائنس عہدِ حاضر کا مضبوط ترین مذہب ہے۔ فقط مذہب نہ کہ سائنس۔ اور میری دانست میں رُپرٹ اپنے مقدمے میں کامیاب ہوا ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ رُپرٹ نے اِن عقائد پر کس طرح کے اعتراضات کرکے انہیں جانچنے کی کوشش کی آپ کو رُپرٹ کی کتاب ’’سائنس ڈلیوژن‘‘ پڑھنا ہوگی۔ البتہ رُپرٹ کے اعتراضات میں سے ایک جو مجھے دلچسپ لگا یہ تھا،
ہم جانتے ہیں کہ ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور سورج ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ کے بائیں بازو میں بہت دور ایک انجان سے علاقے میں موجود ہے۔ ہماری کہکشاں کے دو بازو ہیں، جو بہت لمبے ہیں اور یہ دونوں بازور کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ہمارا سورج، ہماری ہی کہکشاں کے مرکز کے گرد اپنا ایک چکر ۲۳۰ ملین سال میں پورا کرتاہے۔ جب سے زمین پر ہم پیدا ہوئے ہیں تب سے اب تک ہماری زمین نے ہماری کہکشاں کے مرکز کا ایک چکر بھی پورا نہیں کیا۔ یہ سفر جاری ہے اور ہمیں بالکل بھی معلوم نہیں کہ راستے میں کیا کیا آئیگا۔ ہم انسانوں کے لیے یہ پہلا سفر ہے۔ اور یہ چونکہ یہ انجان راستوں پر ہے اس لیے آگے کسی سٹیشن پر ڈارک میٹر آجائے گا یا ڈارک انرجی کا کوئی خوفناک بادل ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر کل کو ایسا کچھ ہوجائے تو عین ممکن ہے سب کچھ ہی بدل جائے۔ یہ گریوٹی اور روشنی اور دیگر قوانین۔ سب کچھ ۔
کارل پوپر کو فلاسفی آف سائنس کا غالباً سب سے بڑا فلسفی مانا جاتاہے۔ اس نے سائنس اور غیر سائنس کے لیے فالسفیکیشن کا اصول وضع کیا ہے جس کے مطابق سائنسی سچائی کا اصول یہ ہے کہ اسے جھٹلایا جاسکے۔ مذہب اس لیے سائنس کا مقابلہ کرنے کا اہل نہیں کہ مذہب کے پاس فالسفکیشن جیسا طاقتور اُصول نہیں ہے۔ اگر مذہب کے عقائد کو بھی جھٹلایا جاسکتا تو ان کی سچائی کو بھی سامنے لاجاسکنا ممکن ہوتا۔ اگر فالسفکیشن کے اصول کو درست مان لیا جائے تو یہ اصول گزشتہ صدی کی زیادہ تر سائنسی تھیوریز پر یکساں اپلائی ہوتاہے۔ اِس اصول کے مطابق کوئی عقیدہ تب عقیدہ ہے جب اسے جھٹلانا ممکن نہ ہو وگرنہ وہ سائنسی حقیقت ہے۔ ایسے تمام عقائد جو انسانی دماغوں میں اس طرح سے داخل ہوچکے ہیں کہ انہیں جھٹلانا وقت کے ساتھ ممکن نہیں رہا اِسی اُصول کے تحت مذہبی عقائد کے درجہ پر آچکے ہیں۔ رُپرٹ کہتاہے،
’’ارتقأ کے دوران ’’حملہ کرنے والے‘‘ اور اُن کی ’’خوراک بننے والے‘‘ جانوروں کے درمیان ایک تعلق نے پرورش پائی۔ اس تعلق کے دیگر بے شمار خوبصورت پہلوؤں میں ایک ’’پشت پر گھُورنے‘‘ کا تعلق ہے۔ ایک درندہ جب کسی سبزی خور کو چھپ کراس کی پشت پر گھورتاہے تو سبزی خور کو اس کی خبر مل جاتی ہے‘‘۔
کہا جاسکتاہے کہ سبزی خور کو درندے کی بُو آجاتی ہے۔ لیکن رُپرٹ کے مفروضے سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اِسے تجربے میں لانا بھی بہت مشکل ہے۔ ذاتی طور پر ہم خود دیکھتےہیں، سانپ کی موجودگی میں چڑیاں شور مچانے لگ جاتی ہیں۔ کتے خلا میں گھورتے ہوئے بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ پودے آپس میں باتیں کرتے ہیں جنہیں ہرروز کی مارکنگ کے ذریعے باقاعدہ سمجھا جاسکتاہے۔ ساری کائنات بول رہی ہے اور ریاضی ہے کہ کائنات کی گفتگو کو بیان کرنے میں پوری طاقت کے ساتھ دوڑتے ہوئے آنے کے باوجود ابھی بھی پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ایک دُونے دو اور دو دُونے چار کررہی ہے۔
میں کہا کرتاہوں کہ متکلمین پر دہریت کا یہ اعتراض کہ ہرنئی سائنسی ایجاد ان لوگوں کو اپنی آسمانی کتابوں میں پہلے سے لکھی ہوئی مل جاتی ہے۔ سائنس آج کچھ کہتی ہے تو کل کچھ اور کہتی ہے۔ اگر مذہبی لوگوں کو سائنس کے اصولوں سے تائید لینے کی عادت ڈالنی ہے تو اپنے عقائد کو بدلنے کی عادت بھی ڈالنی ہوگی۔ یہ اعتراض نہایت بُودا ہے۔ میری دلیل یہ ہے کہ ذہن ِ انسانی کے بس میں جس قدر جاننا ہے وہ اتنا جانتا چلا جارہاہے۔ وقت کےساتھ اِس رفتار میں تیزی بھی آئی ہے۔ لیکن سائنس پر ’’بدل جانے‘‘ کا الزام قطعی طور پر غیر درست ہے۔ انسانی منطقی فہم میں جب زمین کو فلیٹ دیکھنے کی صلاحیت تھی توفلیٹ زمین ہی سائنسی تھی اور پھر جب انہیں کسی نے بتایا کہ زمین گول ہے تو انہوں نے بہت وقت لیا اس نئے تصور کے مطابق اپنے ذہنوں کو ڈھالتے ہوئے۔ چنانچہ یہ انسانی ذہن ہے جس نے ترقی کرنی ہوتی ہے نہ کہ سائنس۔ اگر انسانی ذہن زیادہ ترقی کرگیا تو مذہبی عقائد بھی شاید اُس پر کھل جائیں لیکن سردست چونکہ یہ راستے میں ہے تو بے شمار مذہبی عقائد کا فہم بھی اس کے لیے ابھی راستے میں ہے۔ نہ سائنس بدلتی ہے نہ مذہبی عقائد، بدلتا ہے تو صرف انسانی ذہن اور اس کا منطقی فہم۔
ان باتوں کو موجودہ مذہب ِ سائنس کے نزدیک زنا بالجبر جتنا بُرا گناہ سمجھا جاتاہے اوراِس کی سزا فقط سنگسار ہے۔ جدید مغربی کیپٹالسٹ سوسائٹیز کے تابع اذہان زومبیز کی طرح ہیں۔ خبردار جو کسی سائنسی حقیقت سے کوئی مذہبی عقیدہ برآمد کرنے کی کوشش کی تو۔ ورنہ ہم سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔
سائنس اور اہل ِ سائنس ماضی میں موجود مذاہب جتنے زور آور ہوچکے ہیں جب کہ اُن کا دامن خالص سائنسی سچائیوں سے یکسر خالی ہوچکاہے۔ ان کے پاس کچھ بچا ہے تو وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے مذہبی عقائد ۔
بہت سی کائناتیں ہیں۔ وقت میں سفر ممکن ہے۔ مادے کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ بگ بینگ خود بخود ہوگیا۔ ارتقأ اَن گائیڈڈ ہے۔ کائنات بے شعور ہے۔ انسانی ذہن مادے کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ خدا کی پناہ!!!! کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس کی حیثیت غیب جیسی نہ ہو۔ تو پھر اور مذہب کیاہوتاہے۔ اور مذہب بس یہی ہوتاہےکہ ان باتوں کو مانو! اگر نہیں مانتے تو ہم تمہیں سزا دینے میں حق بجانب ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“