مذہب اور عقل کی بحث آجکل عام ہوتی جارہی ہے۔ مذہب عقل کی نفی کرتا ہے، اسے قبول کرتا ہے، اس کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا منشا عقل کو زیرکرنا ہے؟ یہ سوالات عقل اور عقیدے کے تقابل اور تطابق میں پیش کئے جاتے ہیں۔ عقل عقیدے اور مذہب کے بغیر اپنے آپ کو منوا سکتی ہے اور اب تک منوا سکی ہے یا نہیں۔ عقیدہ فی نفسہہ اپنی "آفاقی اخلاقیات" اور "انسانی ضمیر" کی بنا پر مبنی بر انصاف معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ کیا عقیدہ خالص عقلی بنیادوں پر قائم ہے یا یہ مابعد الطبعیاتی سوال ہے؟ یہ سارے سوالات جدید ذہن کے سوالات ہیں۔ اس حوالے سے مختلف ردِعمل بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ تعقلیت پسند اور مذہبی ان موضوعات کے حوالے سے مختلف نکتہ ہائے نظر رکھتے ہیں۔
تعقلیت پسند عقیدے اور مذہب پر عقل کی فوقیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس کی تفہیم اور تشریحات بھی کرتے ہیں۔ تعقلیت کی فعلیت پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ سماج میں اس کو اثرات کے مشاہدات اور تجربات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ یہ لازم نہیں ہے کہ ہر تعقلیت پسند مذہب اور عقیدے کا منکر ہو۔ البتہ جب وہ تعقلیت اور عقیدے کا تطابق اور تقابل کرتا ہے تو اُس کی عقل مروجہ مذہبی شعور اور عقائد پر سوال ضرور اٹھاتی ہے اور بلا شبہ وہ ایسے سوالوں کے محض اساطیری جوابوں سے آج غیر مطمئن نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس مذہبی علما عقل اور عقیدے کی بحث میں دونوں کی حدود قائم کرنے میں بہت زیادہ فکری انتشار کا شکار نظر آتے ہیں۔ خود مذہبی علما کے ہاں بھی اس حوالے سے مختلف نکتہ ہائے نظر موجود ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اگر دو مذہبی علما کو اکٹھا بٹھا دیا جائے تو وہ کسی ایک نقطہ پر متفق نظر نہیں آئیں گے۔ اسی لئے ہمیں ایسے مذہبیوں کے مندرجہ ذیل سوالات کا اکثر سامنا رہتا ہے۔
مابعد الطبعیاتی موضوعات کیا ہیں کیا عقل ان پر مکمل طورپرحاوی ہوسکتی ہے یا نہیں۔ عقیدہ خود کس حد تک مابعد الطبعیاتی ہے؟ عقیدہ خود ہی اس کی تصدیق ہے یا اس کی تصدیق، توضیح اور تشریح کے لئے بھی یہ تعقلیت کا محتاج ہے؟ ہر دور کے شعور نے مذہب اور عقیدے پر نئے نئے سوالات کو جنم دیا اور ہر دور کے تعقلیت پسند شعور نےعقیدے اور مذہب کو سہارا بھی دیا اور اس کی جتنی ضرورت اور اہمیت رہی، اُس کو اپنے دور کے استدلال کے مطابق مضبوط بھی کیا۔ سرمایہ داری نظام کے بعد عقیدہ اور مذہب جس برے طریقے سے اپنی غیر منسلک، غیر منحصر اور آزاد اخلاقیات جسے وہ "آفاقی اخلاقیات" گردانتا ہے، کو مختلف سماجوں میں رائج کرنے میں نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ آج یہ سرمایہ داری نظام کی لونڈی کا کردار ادار کررہے ہیں، اس حوالے سے یہ سوال روز بروز مرکزیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
آجکل مذہب پر جو فلسفیانہ اعتراضات سامنے آرہے ہیں جب کسی مذہبی سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں بن پاتا تو وہ یہ نصحتیں کرنا شروع کردیتا ہے کہ جناب مذہب آپ کا میدان نہیں ہے آپ اپنے متعلقہ موضوع تک محدود رہیں تو بہتر ہو گا۔ ایک تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر قرآن عام آدمی تو کجا کسی فلسفی کا بھی موضوع نہیں ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے کسی نام نہاد عالم ہی کی ضرورت ہے اور یہ اتنا ہی مشکل ہے تو پھر اس قرآن کو عام عوام اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے اتارا ہی کیوں گیا تھا؟ اگر ہمیں اس سے طرح ان نام نہاد "علما" کے حوالے کرنا تھا تو پھر وحیِ الہی فی ذاتہہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ کیسے ہوگئی۔ دوسری بات یہ کہ مذہب خود مابعد الطبعیات کا موضوع ہے اور مابعد الطبعیات فلسفے کا موضوع ہے۔ ایسے میں یہ نصحیتیں کہ فلسفی کا میدان کونسا ہے اور کونسا نہیں ہے، کیا اس کو مناسب درِعمل خیال کیا جائے یا اس کو بھی روایتی بے سروپا استدلال ہی تصور کیا جائے۔ اگر مابعد الطبعیات فلسفہ کا موضوع نہیں ہے تو پھر یہ کس کا موضوع ہے؟
تیسری اور آخری بات یہاں نام نہاد مذہبی علما کی ہر دو اقسام آج بھی موجود ہیں۔ ایک وہ جو " سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں" اور مذہب کی سائنس پر بالا دستی ثابت کرنے کے لئے ہر سائنسی نظریہ پر اپنا اعتراض عین فرضِ منصبی سمجھتے ہیں، وہ نہ صرف فلسفے اور سائنس کے ہر میدان پر محاکمہ کرنا اپنا مذہبی فریضہ گردانتے ہیں بلکہ ثقافت اور مذہب کے حوالے سے بھی انتہائی کج بحثی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے علما پوری کی پوری انسانی ثقافت کو مذہب کی پیداوار یعنی بائی پراڈک تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ تمام فطری سائنسی علوم اور معاشرتی علوم کی ایسی تیسی کرکے رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو "اسلام اور سائنس کو متصادم تصور نہیں کرتے بلکہ تمام سائنسی تحقیقات کو اسلام اور قرآن کے عین مطابق ثابت کرکے قرآن ہی کی بالادستی ثابت کرنے کی تحریک چلائے ہوئے ہیں، وہ بھی ہر سائنسی تحقیق کو مذہب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور سائنس کی بے سروپا تشریحات کرکے لوگوں کو سائنس اور مذہب دونوں ہی سے گمراہ کررہے ہیں۔ مذہب میں ایک گروہ ایسا بھی موجود ہے جو ادھر اُدھر کے یعنی کچھ تعقلی اور سائنسی، کچھ کٹر شرعی اور کچھ تصوفانہ دلائل جمع کرکے مذہب اور عقیدہ کو بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
بیان کردہ تمام دلا ئل شکت خوردہ ذہنیت کے عکاس ہیں۔ ہمارے ان علما کو اب کھلے ذہن اور کشادی دلی سے یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ مذہب صرف مابعد الطبعیات ہے، یہ اساطیر سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں تمام علوم میں گھسنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ جدید دور مذہبی مزاحمتی تحریکوں کے باوجود اور لوگوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی تعقلیت کی راہ پر گامزن ہے۔ تعقلیت اپنے غلط اور صحیح مشاہدات اور تجربات کو اپنے ویسع دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ اپنی غلطیوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم اور قبول کرتی ہے اور اس کی حاصلات پر ترقی کی راہ پر گامزن بھی رہتی ہے۔ اسے کسی "آفاقی صداقت" کا کوئی دعوی نہیں ہے۔ لہٰذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں مذہب اگر اپنا انفرادی کردار کسی حد تک برقرار رکھ بھی جائے تو وہ صرف فرد کی انفرادی زندگی تک محدود ہوگا۔ مذہب آج اپنا اجتماعی کراد ختم کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ بالآخر آئندہ دو دہائیوں میں مذہب اور عقیدہ انسان کا انفرادی کردار بن کر ہی رہ جائے گا۔ جدید دور تعقلیت پسندی کا دور ہوگا۔ سماج اور افراد اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں کے تمام تر فیصلے تعقلیت کی بنیاد پر کریں گے۔ جدید دور کے سوالات انسانی آزادی، ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور جدید انسان اور ربوٹ کے درمیان کشمکش رکھنے والے انسان سے متعلق ہونگے۔ "
“