مذہب کی ساری بنیاد 'نفسیاتی مکاری' پررکھی ہوئی ہے، چکرسارا مکاری پرہے،اور حتمی مقصد ایمان یافتگان کا روحانی (زہنی) اور مادی استحصال ہوتا ہے۔۔ زہنی استحصال سے وہ مکمل غلامی میں چلا جاتا ہے، اور مادی استحصال، کہ مذہب کا سارا مقدس ایمپائر۔۔۔ اپنے پیروکاروں کے پیسے بٹورنے سے چلتا ہے۔۔ بڑے بڑے مقدس مقامات، عالیشان اور رعب ڈالنے والی عمارتیں، مقبرے، مزار، کیتھڈرل، مندر، خدا اور اس کے بھیجے ہوئے مقدس ہستیوں کے نام پر بنائے جاتے ہیں۔۔
مذہب سب سے پہلے آپ کو ایک ماوارائی ہستی (خدا ، گاڈ، اللہ، بھگوان) جو مطلق پاورفل ہے، خالق ہے، اور آپ کو واچ کررہا ہے وہی ڈر جو آج کے زمانے میں ہے "کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے"۔۔۔۔۔ اس کا خوف اور رعب پیدا کیا۔۔ پھر کچھ یہ کرو اور یہ نا کرو۔۔ کی ایک فہرست پکڑا دی۔۔۔۔ اب یہاں سے انسانوں کے گروہ کو زہنی غلام بنا دیا۔۔۔ وہ اپنی ذات اور اپنی ذاتی دماغی رائے کو چھوڑ کر۔۔۔ اندھا دھند۔۔ 'یہ کرنا ہے، اور یہ نہیں کرنا ہے۔۔۔ ' یہ کرو گے، ثواب ملے گا، یہ کرو گے، خدا کی نافرمانی ہوگی، سزا ہوگی، گناہ ہوگا۔۔۔ حتہ کہ موت کے بعد بھی نہیں چھوڑا جاے گا۔۔۔
اب ماننے والوں کو پوری طرح جال میں جھکڑ لیا گیا ہے۔۔ اب اس میں ایک اور نفسیاتی چکر (مکاری) چلایا جاتا ہے۔۔ گناہ ثواب کے اس چکر میں ایک اور بدمعاشی کی جاتی ہے۔۔۔ تاکہ پیروکاروں کو مکمل اور ہمیشہ کے لئے پھانسایا جا سکے۔۔۔ ظاہر انسان سے وہ سارے 'ممنوعہ ' کام کبھی نہ کبھی سرزد ہوجاتے ہیں۔۔۔ گلٹ اور خوف پہلے ہی پیدا کردیا گیا ہے۔۔ لیکن چونکہ وہ سارے گناہ 'قابل کشش' معاملات ہوتے ہیں۔۔۔ حسب توفیق گناہ کا مزہ چکھے بغیر رہنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔۔ اب بندوں کو خوف سے مارنا بھی نہیں۔۔۔ کہ مذہب سے بیزار ہی نہ ہو جائے۔۔ اسے لعنت، طوق سمجھ کرچھوڑ ہی نہ دیں۔۔ لہذا گناہ کی سزا اور خوف کو برقرار رکھتے ہی ۔۔۔ اسے توبہ کی ریلیف دے دی جاتی ہے۔۔۔ یعنی خوف سے مرہی نہ جائے۔۔ یہ اس سارے مقدس سلسلے اور نظام کے ساتھ چمٹا رہے۔۔۔ کہ کوئی بات نہیں گناہ ہوجاتا ہے۔۔ لیکن بخشش بھی ہوجاتی ہے۔۔۔ اور بخشش بھی چونکہ اسی نظام کے اندر رہ کرہے۔۔ لہذا ایمان یافتہ نہ چھڑائے جانے والے چکرمیں مستقل مرتے دم تک چمٹا رہتا ہے۔۔ اور یوں مذہب کا سارا نظام جو چلانے والے ہیں۔۔ ان کی ابدی عیش بغیررکاوٹ کے جاری رہتی ہے۔۔
مولوی طارق جمیل کا ایک ویڈیو ٹوٹا دیکھ رہا تھا۔۔ کہتا ہے پتا ہے حور کو کیوں بنایا گیا ہے۔۔ اب آپ مکاری نوٹ کیجئے گا۔۔۔ اس لئے کہ آپ اس دنیا میں زنا نہ کریں۔۔ بچیں رہیں۔۔ صاف زندگی رہے۔۔۔۔۔۔ اس زمینی عورت کی کشش میں نہ جائیں۔ اور آپ کو یاد رہے۔۔ کہ اس سے کروڑوں گنا زیادہ حیسن عورت تمھارے رب نے تمھیں دینے کے لئے رکھی ہوئی ہے۔۔۔ (اب اس کے ساتھ ہی تیزی سے کہہ جاتا ہے) کہ ہاں کبھی ایسا ہو بھی جو جائے، تو کوئی بات نہیں۔۔ اللہ نے توبہ رکھی ہوئی ہے۔۔۔ (in between کہہ گیا ہے، زنا بھی کرلوکوئی بات نہیں) اب دیکھیں سٹل مکاری۔۔۔ بیچ میں استثنی کا لقمہ بھی پھینک دیا۔۔۔ 'زنا سے بچو۔۔۔۔ حور کا لالچ۔۔۔ زنا ہوبھی جائے۔۔ توبہ ہے۔۔۔ حور پھر موجود۔۔ زنا کا احساس گناہ پھر باقی۔۔۔۔ چلو بچو اس مقدس مکارانہ جال سے نکل کیسے سکتے ہو۔۔ مذہب بنانے اور نافذ کرنے والوں کے لئے مکارانہ دھندہ ہے، ایمان والوں کے لئے نفیساتی سہارا
“