بہت سے لوگ ہمیں بتایا کرتے ہیں کہ خدا پر ایمان کے بغیر کوئی شخص خوش باش اور راست باز زندگی نہیں گزار سکتا۔ راست بازی کا مجھے کوئی خاص تجربہ نہیں۔ اس لیئے میں صرف دیکھی بھالی بات ہی کر سکتا ہوں۔ البتہ جہاں تک خوشی اور مسرت ک معاملہ ہے۔ تجربے اور مشاہدے دونوں کی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایمانداروں اور ملحدوں کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک دوسرے سے زیادہ خوش باش ہوتے ہیں اور نہ ہی رنجیدہ۔ رنج و خوشی کے عظیم اسباب عام طور پر تلاش کیئے جاتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے دکھوں اور مصائب کیلئے خود کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے اسکو کسی ماورائی قوت سے منسوب کر سکے تو پھر ان دکھوں اور مصیبتوں پر فخر کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ آئیے اب اخلاقیات کی طرف۔ اس معاملے میں زیادہ انحصار اس امر پر ہے کہ آپ اس اصلاح سے کیا معنی لیتے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، اہم خوبیاں رحم دلی اور ذہانت ہیں۔ اچھا اب معاملہ یہ ہے کہ، عقیدہ کوئی بھی ہو اور ذہانت کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کی نشونما کی مزاحمت کرتا ہے۔ دوسری طرف گناہ و سزا کے عقیدے میں ایمان رکھنے سے رحم دلی کو ضیعف پہنچتا ہے۔ یہ عقیدہ دلوں کو سخت کر دیتا ہے اور گنہگاروں کے ساتھ مہربانی، درد مندی اور لطف و عنایت کے ساتھ پیش آنے سے روکتا ہے۔
کئی عملی طریقوں سے روایتی اخلاقیات سماجی طور پر پسندیدہ امور کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ آبادی کا مسئلہ لیجئے۔ انسانی زندگی کو خوشگوار اور با وقار بنانے کیلئے بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو میں لانا ضروری ہے۔ لیکن مذہبی علماء ہر جگہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو مذہب اور خدائی منصوبے میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ اس رویئے نے انسانی مستقبل کو مخدوش بنادیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مذہبی علماء اور ادارے بے اختیار ہو چکے ہیں، لہذا انہوں نے آبادی کا مسئلہ حل کر کر لیا ہے۔ پسماندہ ممالک میں آبادی کو کنٹرول کرنا زیادہ ضروری ہے۔ مگر وہاں علمائے دین مزاحمت کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہر ذہین طالب علم کو آبادی میں اضافے سے پیدا ہونے والے عذابوں کا علم ہے، مگر بے لچک اور تنگ نظر علمائے دین اس کو قبول کرنے سے منکر ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مذہبی عقیدے کے زوال سے صرف اچھائیاں ہی پیدا ہوں گی۔ میں یہ ماننے پر بلکل تیار ہو کہ نازیوں اور اشتراکیوں جیسے عقائد کے نئے نظام روایتی نظاموں سے بھی بد تر ہیں۔ لیکن یہ نہ بھولیئے کہ بچپن میں ہمارے ذہن عقیدوں کو قبول کرنے عادی نہ بنا دیئے گئے ہوتے تو پھر یہ نئے نظام کسی طور پھل پھول نہ سکتے تھے۔ سٹالن کے طور طریقے اور اس کی زبان اس مذہبی مدرسے کی یاد دلاتی ہے جس میں س نے ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ دنیا کو عقیدے کی بجائے سائنسی تحقیق کے روئیے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو یہ بھی سکیھنے کی ضرورت ہے کہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی ایذا رسانی نا پسندیدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہے اس کا ذمہ دار سٹالن ہو یا کوئی دیوتا۔۔۔۔۔۔۔
کتاب : لوگوں کو سوچنے دو
مصنف : بر ٹرینڈ رسل
ترجمہ : قاضی جاوید
انتخاب و ٹائپنگ : محمد عمر
ناشر : فکشن ہاوس لاہور