س: آپ نے مارکس، مارکسی روایات اور مذہب کے حوالے سے بے شمار مضامین لکھے ہیں۔ کلاسیکل مارکسزم کے وہ کون سے اسباق ہیں جو آج بھی مذہب کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یا یہ کہ کیا کلاسیکل مارکسزم آج کے حوالے سے مذہب کا تجزیہ کرنے میں زیادہ مددگار نہیں ہے؟
ج: پہلے تو یہ طے کر لیجئے کہ کلاسیکل مارکسزم سے مراد کیا ہے۔ میرے نزدیک کلاسیکل مارکسزم سے مراد ہے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، جو مارکسزم کے بانی تھے، کے وہ نظریات ہیں جو ان دونوں کی ملاقات کے بعد مشترکہ طور پر تشکیل پانے لگے اور اس سفر میں ایک اہم موڑ ’دی جرمن آئیڈیالوجی‘ کی اشاعت ہے۔ مذہب کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ دونوں تاریخی حالات و واقعات کا تجزیہ جدلیاتی مادیت کی روشنی میں کرتے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ ان کا مذہب کی جانب رویہ سیاسی تھا۔
کلاسیکل مارکسی طریقہ کار کے مطابق نظریاتی حقائق کی کوئی مادی بنیاد ہوتی ہے۔ کلاسیکل مارکسی طریقہ کار مادے اور نظریے کے باہمی تعلق کا کھوج لگاتا ہے۔
نظریے کی جتنی بھی شکلیں موجود ہیں ان میں مذہب سب سے زیادہ پیچیدہ مظہر ہے۔ اس کا ایک اظہار تو یہ ہے کہ مذاہب قدیم عرصے سے موجود ہیں اور خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ مذہب کو سمجھنے کے لئے سوشل سائنسز کے تمام شعبہ جات بشمول سائیکالوجی اورسائیکوانالسز کو بروئے کار لانا ہو گا۔
یہ کہنا کہ مذہب محض مادی حقائق کا ’پرتو‘ ہوتا ہے انتہا درجے کی تخفیف پسندی ہو گی۔ کلاسیکل مارکسزم کا مذہب کی جانب سیاسی رویہ ہی وہ پہلو ہے جو آج بھی مذہب کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ حسنِ اتفاق کہیے کہ کلاسیکل مارکسزم کا یہی پہلو ہے جس سے اجتناب برتا جاتا ہے یا اسکی انتہائی غلط تشریح پیش کی جاتی ہے۔
مارکس اور اینگلز‘ آگسٹ بلانکی اور میخائل باکونن کے ان پیروکاروں کا مذاق اڑاتے تھے جو ’بذریعہ قانون‘ مذہب کا خاتمہ چاہتے تھے۔ دونوں اس بات پر زور دیتے تھے کہ مزدوروں کی سیاسی جماعت کو مذہب کے رجعتی اور جعلی استعمال کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ ہر انسان کو اپنے مذہب پر عمل کی مکمل آزادی ہونی چاہئے اور ریاست کو کسی شہری کے عقائد میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔
گویا دونوں انتہا کے سیکولر تھے جن کے نزدیک ریاست کو مذہب سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ جس طرح مذہب کو ریاست میں مداخلت کا حق نہیں اسی طرح (اوریہ بات آجکل اکثر بھلا دی جاتی ہے) ریاست کو بھی مذہبی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ اس طریقہ کار کی اہمیت آج پہلے سے بھی زیادہ ہے۔
س: کہا جا رہا ہے کہ ’مذہب کی واپسی‘ ہوئی ہے۔ بطور مارکس وادی آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بارے میں‘ کیونکہ اس خطے پر آپ گہری نظر رکھتے ہیں۔
ج: بلاشبہ پچھلی صدی کے آخری پچیس سالوں میں ہم نے مذہب کا زبردست احیا دیکھا ہے۔ تمام مذاہب کا احیا ہوا ہے مگر یہ بات توحیدی مذاہب بارے زیادہ درست ہے۔ جو میں نے کہا کہ مذہب بارے کلاسیکل مارکسی طریقہ مکمل طور پر حتمی تجزیہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال بنیاد پرستی کا ابھار ہے۔ یہ بات کسی طور بھی قائل نہیں کرتی کہ مذہبی نظریات کا حالیہ ابھار سرمایہ داری یا اس کے نیو لبرل تغیرکی وجہ سے آیا ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی بارے تو بالکل بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی نیو لبرل شکل اور مذہبی بنیاد پرستی کے ابھار میں ایک تعلق موجود ہے۔ نیو لبرلزم کا ابھار ایک ایسے وقت میں ہوا جب سٹالنسٹ ریاستی نظام کا انہدام ہوا۔ تاہم میرے خیال میں تاریخی تبدیلیوں اور بنیاد پرستی کے ابھار کو سمجھنے کے لئے فرانسیسی ماہرِ عمرانیات ایمل درخائم نے ’انومی‘ کا جو نظریہ پیش کیا وہ زیادہ سودمند ہے۔
(انومی کو اردو میں عدم معاریت کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے تنہائی کی وہ حالت جب کوئی شخص دوسروں کے ساتھ رابطہ پیدا نہیں کر سکتا اور اسکی شناخت ختم ہو جاتی ہے: مترجم)
درخائم کے اس نظریے کو میں نے 2002ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’بربریتوں کا تصادم‘ میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ انومی سے درخائم کی مراد تھی زندہ رہنے کے حالات میں گڑبڑ اور ایک ایسی صورتحال جب انسان کے پاس (شناخت کے لئے) کوئی حوالہ نہ بچے۔ جیسا کہ اس وقت ہم پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔
درخائم کے مطابق انومی کا معاشی و اقتصادی یا نظریاتی و سیاسی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خاندان، قوم اور مذہب کی بنیاد پر جڑت پیدا کرنے لگتا ہے۔
انومی کے درخائمی نظرئے کو ایک اور خیال سے ملا کر بنیاد پرستی بارے اپنے تجزیے کو ہم نکھار سکتے ہیں۔ اس خیال کا اظہار ’کیمونسٹ مینی فیسٹو‘ میں کیا گیا ہے۔ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی کے نتیجے میں درمیانے طبقے کے کچھ حصے ’تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانے ‘کی کوشش کرتے ہیں۔
مذہبی بنیاد پرستی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ماضی کی طرف (جو ایک خیالی ماضی ہے) لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ ’سٹی آف گاڈ‘ کا احیا چاہتے ہیں۔ یوں ہم موجودہ حالات کے مصائب اور آفتوں سے بنیاد پرستی کی شکل میں ناممکن اور رجعتی فرار کو سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ یہ فرار چاہتے ہیں اور اس فرار کے چکر میں وہ متبادل برادری کا حصہ بن جاتے ہیں۔ چاہے وہ برادری چھوٹی ہو کہ بڑی‘ انہیں فرق نہیں پڑتا۔
مندرجہ بالا فریم ورک کی مدد سے ہم ماضی قریب میں بنیاد پرستی کے ابھار کو سمجھ سکتے ہیں۔جہاں انومی والے حالات کے ساتھ ساتھ دیگر وجوہات بھی تھیں۔
وہ دیگر وجوہات کیا تھیں؟ ایک تو یہ کہ مسلم دنیا میں لگ بھگ ہر جگہ حکومتوں نے ساٹھ کی دہائی میں رواج پانے والے بائیں بازو کے خلاف بنیاد پرستی کی سرپرستی کی۔ بنیاد پرست ریاستوں کا کردار سمجھنا بھی اہم ہے۔ ان ریاستوں میں سرِ فہرست سعودی بادشاہت ہے جو خطے میں امریکی سامراج کی سب سے بڑی کاسہ لیس ہے۔ انقلابِ ایران کے بعد دوسری بنیاد پرست ریاست وجود میں آئی جو امریکہ اور سعودی عرب کو دشمنِ اول تصور کرتی ہے۔ ایک وجہ بڑی طاقتوں یعنی سویت روس اور امریکہ کی افغانستان اور عراق میں جنگیں بھی تھیں۔ ایک وجہ خود ساختہ ’یہودی ریاست ‘یعنی اسرائیل بھی بنا۔
ماضی کی تشکیلِ نو اسلام کے سلسلے میں اس لئے بھی پرکشش دکھائی دیتی ہے کہ دیگر مذاہب کی نسبت اس کا ماضی زیادہ واضح ہے اور یہ دیگر بڑے مذاہب کی نسبت نیا ہے۔
س: لبریشن تھیالوجی کی تحریک میں مزدور تحریک اور چرچ کے ایک حصے میں اتحاد سامنے آیا۔ مسلم دنیا میں ایسا نہیں ہو سکا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ج: اس بات کا جواب ہم میکس ویبر کے نظریہ موانست (یعنی ایک عنصر میں دوسرے عنصر کے ساتھ ملاپ کا کتنا میلان یا کشش موجود ہے: مترجم) کی مدد سے دے سکتے ہیں۔ ’سوشلزم اور کلیسا‘ کے عنوان سے روزا لکسمبرگ نے جو مضمون 1905ء میں لکھا اس میں اس نے یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ابتدائی عیسائیت اور اشتراکیت کے درمیان مماثلت موجود تھی۔ ایک فرق البتہ ذہن میں رہے: کٹر مسیحیت اس بات کی شدید مخالف تھی کہ عیسائیت اوراشتراکیت میں مماثلت ثابت کی جائے۔
ساٹھ کی دہائی سے بالخصوص جنوبی افریقہ جہاں امریکی سامراج کی گہری گرفت تھی، کی مسیحی آبادیوں میں سیاسی و سماجی بے چینی کا اظہارلبریشن تھیالوجی کی شکل میں ہوا۔ لبریشن تھیالوجی نے عیسائیت کی اشتراکیت پسندانہ تشریح پیش کی۔ جبکہ سرکاری چرچ نے ان ممالک میں امریکہ نواز آمریتوں اور سامراج کی حمایت کی۔
مسلم دنیا میں جب بنیاد پرستی کا ابھار ہوا تو معاملہ الٹ تھا۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ 1979ء میں نکاراگوا میں بھی انقلاب آیا اور ایران میں بھی۔ نکاراگوا میں لیفٹ ونگ مسیحیت انقلاب کا اہم جزو تھی مگر حالات ایسے بنے کہ ایرانی انقلاب کی قیادت ملاﺅں کے ہاتھ لگ گئی۔ بائیں بازو کے ایرانی سیاسی کارکنان جو مذہبی قیادت کا کردار سمجھنے میں ناکام رہے‘ انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ جس انقلاب کو برپا کرنے میں انہوں نے کردار ادا کیا اسی انقلاب کے بعد بننے والی حکومت نے انہیں بری طرح کچلا۔
جبر کا شکار بننے والوں میں ایران کا مذہبی بایاں بازو بھی شامل تھا۔ مسلم دنیا میں اگر کسی دھارے کا لبریشن تھیالوجی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے تو وہ مجاہدینِ خلق ہیں۔ یہ لوگ علی شریعتی سے متاثر تھے۔ خمینی حکومت کے رد انقلابی جتھے حزب اللہ کا پہلا نشانہ یہی مجاہدینِ خلق بنے۔ بعد ازاں جلا وطنی کے دوران یہ تنظیم زوال پذیری کا شکار ہو گئی۔ اب وہ روڈی گولیانی کو اپنے دوستوں میں شمار کرتی ہے۔
ایران کی مثال سے ایک بات یہ تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ مسلم دنیا میں بھی لبریشن تھیالوجی کی گنجائش موجود ہے۔ ایسے دھاروں کی مثال سنی دنیا سے بھی دی جا سکتی ہے۔ ایک مثال تو ترکی میں سامنے آنے والے ’سرمایہ داری مخالف مسلمان‘ ہیں۔ 2013ء میں جب غازی چوک میں طیب اردگان کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے تو ان لوگوں کو کافی توجہ ملی۔ دوسری جانب ایران سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ایسے دھارے وہ مقبولیت حاصل نہیں کر پائے جو راتوں رات اخوان المسلمین جیسی بنیاد پرست تنظیموں کے حصے میں آئی۔
لیکن مسلم دنیا کا بایاں بازو محدود انداز میں ہی دیندار بن سکتا ہے اور یہ عمل لازمی طور پر جو شکل اختیار کرے گا اسے ہم ’عام لوگوں کا مذہب‘ کہہ سکتے ہیں جو ملاﺅں کے مذہب سے مختلف ہے۔ بائیں بازو کے دھارے جنہوں نے مذہب کو اپنی شناخت کا حصہ بنایا وہ مسلم اکثریتی ممالک میں بعض اوقات نظریاتی غلبہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ اس کی ایک اہم مثال تو ناصرازم ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ترقی پسند نظریات کو جو پذیرائی ملی‘ جمال عبدالناصرعرب بلکہ پوری مسلم دنیا میں اس کی علامت تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ناصر نے آمرانہ انداز اختیار کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رائج الوقت سوشلسٹ ماڈل سویت یونین کا تھا۔ ناصر سویت یونین سے متاثر تھے۔ 1956ء میں خروشیف سرمایہ داری کو دفن کرنے کی بات کرتے ہوئے ہرگز بھی احمق دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
2012ء میں جب عرب بہار کی بات ہو رہی تھی تو ’نرم خو ناصرازم‘ کے لئے ایک ’ناسٹیلجیا‘ بالکل واضح تھا۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ناصراسٹ امیدوار حمدین صباحی کو ملنے والے ووٹ اس کی غمازی کر رہے تھے۔ جس طرح 2015ء کی امریکی صدارتی مہم میں برنی سینڈرز نے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ حمدین کی کامیابی کا موازنہ بھی اس سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مصر کے دو سب سے بڑے شہروں قاہرہ اور اسکندریہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ مجموعی طور پر تیسرے نمبر پر رہے۔ اخوان اور فوجی حمایت یافتہ امیدواروں سے ان کے ووٹ کچھ ہی کم تھے۔
ایسے عوامی ’سیکولر‘ دھارے نہ کہ مذہبی رجحانات کا استعمال عوام کی ایک بڑی اکثریت کو بائیں بازو کے پلیٹ فارم پر متحرک کریں گے۔
ایسے عوامی دھارے الحاد کو رد کرتے ہیں مگر لبریشن تھیالوجی کی طرح مارکسی تجزئے سے متفق ہوتے ہیں۔ ان دھاروں کے رہنما مذہب پر یقین رکھتے ہیں اور بعض اوقات تو مذہب پر کافی حد تک عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ کسی پوپ یا امام کو نہیں مانتے ۔
یہ رہنما مذہب کو استعمال کرنے والوں کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ ناصرکی مقبولیت جب عروج پر تھی (اس وقت ناصر حکومت کا ترقی پسندانہ کردار بھی عروج پر تھا) تو اخوان المسلمین کو سی آئی اے اور آلِ سعود کا آلہ کار سمجھا جاتا تھا (یہ دونوں باتیں ہی درست تھیں)۔ مصر سمیت پوری دنیا میں اخوان عدم مقبولیت اور تنہائی کا شکار تھی۔ ناصر سرعام سعودی شاہی خاندان کو غریب دشمن ہونے کا طعنہ دیتا تھا۔ عام لوگ مذہب سے قطع نظر ناصر کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ لاطینی زبان کا ایک محاورہ ہے: آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
“