پاکستان اسٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چئیرمین عامر ممتاز، امریکن شہری اور حکومت میں بیٹھے ایک وزیر کے بزنس پارٹنر ہے. وہ نجی اسٹیل مافیہ کے ساتھ مل کر پاکستان اسٹیل ملز کو تباہی کے دہانے پر پہنچنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں. اسٹیل ملز کی تباہی کے عوامل کی تحقیقات کے لیے اعلی سطحی کمیشن قائم کیا جائے جس میں ادارے کے ملازمین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی سنا جائے. ان خیالات کا اظہار ٹریڈیونینز، اسٹیل ملز یونینز، انسانی اور لیبر حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کیا.
اس بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو منصوبہ بند طریقے سے خسارے کی جانب دھکیلا گیا، یہ ادارہ 8 – 2007 میں 10 ارب روپے سے زائد کے منافع میں تھا جب کہ اس کے اکاؤنٹ میں تقریباً 11 ارب اور 12 ارب کی inventory موجود تھی لیکن غلط منصوبہ بندی کی وجہ یہ ادارہ ایک ہی سال یعنی 2009 میں 26 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہوگیا.
اس کی بڑی وجہ 2006 میں خام مال کی خریداری کے بین الاقوامی معاہدوں کو منسوخ کر کے مقامی طور پر خریداری کا ڈھونگ رچا کر ادارے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا. حالانکہ ادارے کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے روسی حکومت سے مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کئے گئے. روسی حکومت نے ایک اطلاع کے مطابق 2 ارب ڈالرز اسٹیل ملز کو چلانے کے لیے دینے کی بھی پیش کش کی تھی لیکن اسے سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آسکی.
2013-14 میں اس وقت کی حکومت نے پیداواری عمل کو جاری کرنے کے لئے 14.5 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دیا گیا جس کے نتیجے میں پیداوار بتدریج بڑھنا شروع ہو گئی اور ایک وقت میں یہ مجموعی پیداواری صلاحیت کے 65 فی صد تک پہنچ گئی. لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر 2014 کے آخر میں بلاسٹ فرنس میں دھماکہ ہوا، جس نے پیدارواری عمل کو شدید نقصان پہنچایا.
اسی دوران جون 2015 میں سوئی سدرن گیس کارپوریشن نے گیس کی مد میں 17 ارب روپے ادا نہ کرنے کی پاداش میں گیس کی سپلائی روک کر پیداواری عمل کو مکمل طور پر موت کی نیند سلا دیا. اس وقت سوئی گیس کارپوریشن کے چیرمین مفتاح اسماعیل تھے جنہوں نے ایک پرائیویٹ کمپنی "کے الیکٹرک" کے خلاف ایک نوٹس بھی جاری نہیں کیا جسے گیس کی مد میں 58 ارب روپے کارپوریشن کو ادا کرنے تھے.
یہ بھی ایک خوف ناک حقیقت ہے کہ 1985 کے ایک معاہدے کے تحت اسٹیل ملز کا پاور پلانٹ" کے الیکٹرک " کو 2 روپے فی یونٹ بجلی مہیا کر رہا تھا، 2015 میں ملز کےبند ہونے تک اسٹیل ملز صرف 2 روپے پچاس پیسے میں بجلی مہیا کر رہا تھا.
اسٹیل مافیہ کے ساتھ ساتھ لینڈ مافیہ کی نظریں قیمتی مشینری،بندرگاہ سے ملز تک لگے کنورٹر بیلٹ، جیٹی، 100 بستروں کے اسپتال، 155 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹ اور آکسیجن پلانٹ کے علاوہ ملز کی 19 سو ایکڑ انتہائی قیمتی زمین پر بھی ہے.
یہ مافیہ 850 ایکر پر آباد اسٹیل ٹاؤن اور اس سے ملحقہ 350 ایکڑ خالی پڑی سونے سے مہنگی زمین بھی ہتھیانا چاہتا ہے. اسی لیے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ ادارہ پیداوار دینے کی اہلیت نہیں رکھتا، ملکی معیشت کے لیے سفید ہاتھی ہے، اس کے ملازمین خزانے پر بوجھ ہیں اور ملازمین کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے.
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل کے ملازمین پچھلے پانچ برسوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسٹیل ملز کے پیداواری عمل کو شروع کیا جائے جس کے لیے صرف 25 سے 30 ارب روپے کی ضرورت تھی لیکن ادارے کو چلانے کے لیے بروقت رقم مہیا کرنے کے بجائے ملازمین کو بٹھا کر تنخواہوں کی مد میں مطلوبہ رقم کے برابر ادا کی گئی.
یہ بھی حقیقت ہے کہ ادارے میں پچھلے دس سالوں سے کوئی نئی بھرتی نہیں ہوئی صرف ان ملازمین کو مستقل کیا گیا تھا جو پندرہ تا بیس سال سے اسٹیل ملز میں مسلسل خدمات انجام دے رہے تھے.
وہ گروہ جس نے 2006 میں اسٹیل ملز کو صرف 21 ارب 61 کروڑ میں خریدنے کوشش کی تھی وہ گروہ، اس کےکارندے آج اسٹیل ملز پر مسلط ہیں اور ادرے کی تباہی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جسے ورکرز ہر صورت ناکام بنا دیں گے.
مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ
اسٹیل ملز کے ملازمین کی برطرفی کے غیر قانونی اور غیر انسانی فیصلے کو واپس لیا جائے.
اسٹیل ملز اور دیگر اداروں کی نجی کاری کو روکا جائے.
اسٹیل ملز جیسے اہم ادارے کو تباہی تک پہچانے والوں عناصر کی نشان دہی کے لیے اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جایے.
اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے یک وقتی فنڈ مہیا کیا جائے.
ملز کا پیداواری عمل شروع کرنے کے لیے باصلاحیت پرفشنلز اور اسٹیل ملازمین سے بمعنی مشاورت کی جائے.
تن خواہوں اور پینشن کی بر وقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے.
حکومتِ سندھ اسٹیل ملز کی نج کاری کے مسئلہ کو "کونسل آف کامن انٹرسٹ" اٹھائے کیوں کہ اسٹیل ملز حکومتِ سندھ کی اراضی پر قائم ہے.
مشترکہ بیان جاری کرنے والی تنظیمیں اور نمائندوں کے نام
1. ناصر منصور، سکریٹری جنرل نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان( NTUF)
2, اکبر ناریجو، کنوئنیر پاکستان اسٹیل ملز ٹریڈیونین الائنس،
3. کرامت علی، کنوینئر نیشنل لیبر کونسل،
4. ڈاکٹر عمار جان رہنما حقوقِ خلق تحریک ،
5. اسد اقبال بٹ، وائس چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان،
6. افتخار احمد عباسی، جنرل سکریٹری پروگریسیو لیبر یونین،
7. لیاقت علی ساہی، جنرل سیکرٹری ڈیموکریٹک ورکرز فیڈریشن،
8. یاسین جامڑو صدر انصاف لیبر یونین،
9. زہرہ اکبر خان، جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن ،
10. کامریڈ عثمان بلوچ بزرگ مزدور رہنما،
11. عروج علوی، چئیرمین یونائٹیڈ ورکرز فرنٹ،
12. عاصم بھٹی، صدر پاکستان اسٹیل ملز لیبر یونین،
13. نوید آفتاب ڈپٹی پاکستان اسٹیل کنوہنیر آفیسرز ورکرز ایکشن کمیٹی
14. شوکت علی کورائی، صدر جئے سندھ پورہیت سنگت، چودھری یاسین، چیرمین پاکستان اسٹیل ایمپلائز لیگ