قدیم زمانے میں اگرچہ ہیروڈوٹس اور زینوفن نے زرتشت کا ذکر نہیں کیا ہے مگر ایک دنیا اس کے سحر میں مبتلا تھی اور اس کو ایک مذہب کے بانی کے علاوہ ایک عظیم فلسفی اور دانشور سمجھا جاتا تھا۔ فیثاغورث، افلاطون، سقراط ارسطو، ڈینئن، یوڈاکسس اور تھیوہامپس جیسے لوگ بھی آتش پرستوں کی شاگردی پر فخر کرتے تھے۔ افلاطون و ارسطو کے شاگرد پانٹکس نے اپنی تصانیف میں زرتشت کے بہت سے حوالے دیے ہیں۔ ارسطو کے ایک ہم عصر پراڈیکس کے پیروؤں کے متعلق کہا جاتا کہ یہ فخر کرتے تھے کہ زرتشت کی تصانیف ان کے پاس تھیں۔ یونانی فلسفی ہرمیپس نے زرتشتی عالموں سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا۔ پلوٹارک، سٹریبو اور سوڈاس وغیرہ نے بھی زرتشت کے حوالے دیے ہیں۔ قدیم یونانی کتابوں میں زرتشت کے اکثر اقوال ملتے ہیں اور ان کی بہت سی روایات جو دخشور (پیغمبر) زرنشت کے نسبت سے مشہور تھیں۔ یعنی قدیم یونانی اور رومی اس کے ثنا خواں تھے۔ ایرانی سلطنت جس نے روم کے عروج کے زمانے میں اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تھی۔ جب کہ روم کے سامنے دنیا کی دوسری قومیں سررنگوں ہوچکی تھیں۔ مگر ایرانیوں نے رومیوں کی برتری کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور رومیوں کو ان کے عروج کے زمانے میں بھی شکت دی اور ان کے کئی بادشاہوں قیدی بنایا۔ ان کی قدیم سلطنت کے عروج کے بارے میں تاریخیں بھری ہوئی ہیں۔
مغرب میں جب علمی تحقیقات کا آغاز وہ تو وہ بھی زرتشت کے سحر میں مبتلا تھے۔ ان کا گمان تھا کہ دین زرتشت کی مذہب کتاب علم و دانش کا ایک عظیم مرقع ہوگی اور اس زرتشت کے شخصیت پر اور فلسفہ کے بہت سے راز پنہاں ہوں گے جس کو قدیم زمانے میں بیلوں کی بارہ ہزار کھالوں پر لکھا گیا تھا اور ویسٹ نے نے حساب لگایا ہے اس کے الفاظوں کی تعدادد ۰۰۰۷۴۳ ہوگی۔ اس سے پہلے زرتشت کے بارے میں کچھ مواد عربی کتابوں سے ملا تھا اور بعد میں کچھ پہلوی کتابیں جس میں دین کرت اور بند ہشن اور ان کتابوں میں اوستا کہ گمشدہ کے عنوانات کی تفصیل ملی وہ اس کی وسعت دیکھ کر عشق عشق کر اٹھے۔ پھر انہیں دساتیر اور دبستان مذہب جیسی کتابوں میں ان کے قدیم پیغمبروں کا حال مرقوم تھا۔ اس لیے ان کا گمان تھا کہ ایران کا مذہب قدیم اور وہاں ایک عظیم سلطنت ہزاروں سال پہلے قائم ہوچکی تھی اور اور یہ اس کے بہت سے راز اوستا میں پہنا ہیں اس لیے اس کی تلاش شروع ہوئی۔
ایک بیس سالہ آکتیل فرانسیسی نوجوان اوستا کی تلاش میں سپاہی بن کر ہندوستان پہنچ گیا اور نو سال محنت سے اوستا اور دوسری کتابوں حاصل کیں اور اوستا زبان بھی سیکھی۔ اس نے نو سال کے بعد ۲۶۷۱ء میں نو سال کی دماغ سوزی کے بعد اوستا کے ترجمے کو تین جلدوں پیش کیا۔ آج تک زرتشتی مذہب کے بارے میں جو کچھ ادبی، لسانی، قومی اور فلسفیانہ انکشاف مغرب میں ہوئے ہیں وہ سب آکٹیل کے طفیل ہوئے ہیں۔ مگر اہل علم و حکماء میں زرتشت کی قدر و منزلت اس کے عمیق فلسفیانہ خیالات کی دنیا بہت زیادہ بلند تھی۔ قدیم یونان و روم جن توست سے وہ ان خیالات سے واقف ہوئے تھے اس کا ثنا خواں تھا۔ لہذا انہیں امید تھی کہ اوستا عقل و دانش کا ایک عظیم مرقع ہوگی۔ مگر ترجمہ سے انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ اس میں طفلیانہ خرافات، خشک اعتقادات، تھکا دینے والے مکررات اور مضحکہ احکام کا ایک لا حاصل انبار تھا جو ان کے وہم و گمان سے بالا تھا اور اس کی سخت مخالف ہوئی اور اسے اوستا تسلیم کرنے انکار کردیا۔ سر ولیم جونز نے آکتیل پر الزام لگایا گیا کہ اس نے جعل سازی کرکے زرتشت کی شخصیت کو مجروع کیا ہے۔ مگر جب دوسرے لوگوں نے آکیل کی لغت سے قدیم ہخامنشی اور ساسانی کتبے پڑھے اور کئی لوگوں کی تصدیق کے بعد اسے درست تسلیم کرلیا گیا۔
اوستا کہ مطالعہ اور قدیم آثار کی تحقیق کے بعد اور بہت سے سوالات کھڑے ہوگئے کہ زرتشت کوئی حقیقی شخصیت تھی یا نہیں؟ اوستا کو کیا واقعی مسلمانوں نے برباد کیا ہے جیسا کہ الزام لگایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے زرتشت کی شخصیت سے انکار کیا اور اس سے بھی انکار کیا کہ اوستا کو مسلمانوں نے اوستا تلف کیا اور بلکہ خود زرتشتیوں پر اوستا کو تلف کرنے کا الزام لگایا۔ کچھ نے موجودہ اوستا کو ایک جعلی تصنیف قراد دیا گیا کہ یہ نویں صدی میں تصنیف کی گئی ہے کہ زرتشتی اپنے کو اہل کتاب کہہ سکیں ہیں۔
ہم زرتشتیت کو ثنویت مذہب جانتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے قدیم زرتشتی بہت سے خداؤں کو مانتے تھے اور اس میں ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خداؤں کی کمی نہیں تھی۔ اہرمن کا نام ہمیں اوستا میں ضرور ملتا ہے لیکن یہ ہمیں ساسانی دور تک خداؤں کی فہرست میں نظرنہیں آتا ہے۔ گاتھا میں اہرمن کا تصور بہت مبہم تھا، اس تصور میں مزید تقویت زروانیت کی ترقی سے ملی اور زروانیت کا زروان جو کہ ان دونوں (اہور و مزدا) کا باپ اور ایک بڑا خدا تھا۔ مگر مانی کے مذہب کی ترقی نے زروان پس پشت ڈالا دیا اور اہرمن کے درجات کو ترقی دی۔ گو مانی مذہب کو روکنے کے لیے زرتشتیوں پوری پوری کوشش کی اور مانی کی کھال اتاری گئی اور اس کے دو لاکھ پیروں کو قتل کرنے پر انوشیروان کو عادل کا خطاب دیا۔ مگر اس کے خیالات کو ختم نہیں کرسکے اور ثنویت کا تصور زرتشتی مذہب میں سرایت کر گیا۔ جس نے ساسانیوں کے ذوال کے بعد زرتشتی مذہب دو خداؤں (ثنویت) کی بنیاد بنا اور زرتشتی مذہب کی نئی تصویر ہمارے سامنے آئی۔
ہمارے پاس جو کچھ زرتشتی مذہب کے بارے میں معلومات ہیں وہ پارسیوں کے توست سے ہمارے پاس پہنچیں ہیں۔ لیکن علمی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ زرتشتی مذہب کے بانی زرتشت نہیں تھیں بلکہ انہوں نے قدیم مذہب کی تجدید اور اصلاحات کیں تھیں۔ لیکن اس مذہب میں ارتقاء جاری رہا۔ وہ زرتشتی مذہب جو ہمارے سامنے ہے اس میں تبدیلی کی ابتد ساسانیوں کے آخری عہد میں شروع ہوئی اور مسلمانوں کے دور میں جاری رہی اور اس کی تکمیل دسویں صدی میں ہوئی اور یہ زیر تیب کتاب اسی کی کہانی ہے۔ میں نے زرتشت مذہب نشیب و فراز اور حقیقتوں سمجھنے اور انہیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور میں اس میں کہاں تک کامیاب ہوں یہ پڑھنے والے اور خاص کر اہل علم ہی بتاسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ کام بہت بڑا تھا اور میرے علمی اسطاعت و وسائل سے بہت کم تھا۔ جب کہ میری کم علمی میں ہمیشہ ہی عدم وسائل و رہمنائی کی کمی کی وجہ سے میرا علم ناقص رہا ہے۔ لہذا اس زرتشت اور زرتشیت پر روایت سے ہٹ کر مجھ جیسے کم علم شخص کے لیے کچھ لکھنا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ مگر کسی نہ کسی کو تو پہلا پتھر پھیکنا ہوگا اور میں نے یہی کوشش کی ہے۔ اس کو لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو میں زرتشت پر اچھی یا بری کتابیں موجود نہیں ہیں۔ صرف ایک کتاب زرتشت نامہ جو سید ممتاز علی کی لکھی ہوئی میری نظر سے گزری ہے۔ یہ کتاب ۴۰۹۱ء میں شائع ہوئی تھی اور دوبارہ حال میں شائع ہوئی ہے۔ یہ اگرچہ پرانے انداز میں لکھی گئی ہے اور روایتی تصورات کے مطابق ہے۔ مگر یہ کتاب اس لحاظ سے اچھی کتاب ہے اس میں بعض سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری کتابوں میں زرتشت اور زرتشتی مذہب کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں وہ روایتی ہیں۔ مگر چوں کہ میرا نکتہ نظر دوسروں کے برعکس ہوتا ہے اور میرے حوصلہ کو مہمیز فیس بکس کے دوستوں نے دی۔ انہوں نے میرے لکھے ہوئے مضامین کو پزیرائی بخشی اور مزید معلومات کا مطالعہ کیا۔ اس لیے میں نے یہ کتاب لکھنے کی کوشش اور حوصلہ کیا ہے۔ میں اس میں کہاں تک کامیاب ہوں یہ اس کتاب کو پڑھنے والے ہیں بتاسکتے ہیں۔