یکم اپریل کو جدید دور میں فُول ڈے بھی کہا جاتا ہے۔کیونکہ اس دن لوگ جان بوجھ کر ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں،مذاق ،کہاوتیں،اور چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتے ہیں۔اور بعض اوقات تو مذاق کی حد ہی ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ یکم اپریل کو پیدا ہوتے ہیں وہ دوستوں میں بھی مزاق کا محور بن جاتے ہیں اور یہ کہے کر تنگ کیا جاتا ہے کہ آپکا تو اس دنیا میں پیدا ہونا ہی بخود ایک مزاق ہے اور یہ مذاق میری دوست تسمیہ کے ساتھ بھی ہوا۔ جوکہ یکم اپریل کو پیدا ہوئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ پوری دنیا یہ دن منانے پر مجبور ہوگئی ۔اس کے پس منظر میں ایسا کیا ہوا اور اس تہوار کی اصل تاریخ کیا ہے۔اس کا وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جاتا لیکن جو زیادہ بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ 1582ء میں "فرانس جولین کیلنڈر" سے "گرکورین کیلنڈر" کی طرف آۓ کہ نیا سال اپریل کی بجاۓ اب یکم جنوری سے شروع ہوگا اوراس وقت میڈیا یا خبر اتنا جلدی پھیلانے کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا۔ جس کی بدولت کیلنڈر میں تبدیلی کی خبر کچھ لوگوں تک پہنچی اور کچھ بے خبر رہے اور اسی بے خبری میں مارچ کے آخری ہفتے میں نیا سال منانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ کیونکہ وہ تو بے خبر تھے کہ نئے سال کا اب اپریل نہیں بلکہ جنوری سے آغاز ہوگا تو اس طرح کافی لوگوں نے یکم اپریل کو نیو ائیر منایا اور اس طرح نیا سال منانے پر وہ دوسروں کے لیےمزاق بن کر رہ گئے۔ اب ان لوگوں پر طرح طرح کے لطیفے بنے ۔تب سے لے کر اب تک یکم اپریل اب فُول ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے یہ دن میڈیا مثلاً اخبارات،ٹی وی،خبریں،اور سوشل میڈیا سب بہت جوش و خرگوش سے مناتے ہیں۔ اب چھوٹے مزاق تو اتنا برا اثر نہیں ڈالتے۔ لیکن بڑے مذاق کسی کی جان لینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ جیسے فیکٹری مالک کو اچانک کال آئے کہ فیکٹری میں آگ لگی ہے۔ سب جل کر تباہ ہوگیا ہے۔ یہ خبر مالک کی جان لے سکتا ہے ۔اسی طرح ایک اور بڑا مزاق کسی ماں کو جھوٹی خبر دی جاۓ کہ جوان بیٹا ایکسیڈنٹ سے فوت ہو گیا تو ماں کا کیا حال ہوسکتا ہے. بالکل ایک اور مزاق ایک دوست لڑکی کی آواز میں اپنے دوست کو کال پر تنگ کرتا ہے۔ اسکی بیوی سنتی ہے اور بات شک سے علیحدگی تک جا پہنچتی ہے۔
اسی طرح دنیا کے کافی ممالک یہ دن مناتے ہیں اس پر پروگرامز مرتب کئے جاتے ہیں۔ لیکن کوئی خاص چھٹی کا دن نہیں رکھا جاتا ۔کیا اپریل فُول یا فُول ڈے اسلام میں منانا جائز ہے تو اسلام خوشیاں منانے،دوسروں کے چہرے پر مسکان لانے ،خوش رہنے کی ضرور اجازت دیتا ہے۔ لیکن جھوٹ بولنے کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسروں کا مزاق اڑانے کی بھی سخت مخالفت کی گئی ہے۔
دنیا کوئی باشعور معاشرہ ایسے مزاق کی قطعی اجازت نہیں دیتا جس سے کسی کی "عزت نفس" اذیت کا شکار ہو۔ بحیثیت مسلمان ہم یہ یاد رکھیں کہ حضور کریمﷺ اور اہل بیت کے پاک گھرانے کی زندگی ہمارے لیے عملی نمونہ ہے۔ یعنی ان کے مطابق ہمیں زندگی بسر کرنی ہے۔ ہنسی مزاح کی اجازت ہے مگر ادبی دائرہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے اور اپنے بڑوں کا احترام بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔ دور حاضر میں گفتگو میں پڑھے لکھے افراد گالی گلوچ بطور مزاق استعمال کرتے ہیں۔ جس سے اسلام منع کرتا ہے۔ اب یکم اپریل کے علاوہ بھی ہمیں 12 ماہ یہ یاد رکھنا ہے کہ اسلام کی خلاف ورزی نہ کریں اور بےادبی مزاق سے گریز کریں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...