زمانہ قدیم کا کیسپیریا، کیسپاتائیروس، کشیر، کھچل، کشروٹ آج کاکشمیرتاریخ اورجغرافیے کےمنظرنامےپرصدیوں سے موجودھے۔اپنےبےپناہ حسن کی وجہ سےیہ صدیوں سےبدترین غلامی سےدوچارھے۔یہ خطہ ناگانسل،کھش، ڈار، بھٹہ، ڈوگر،پشاد، تانترے قبائل اور گونندہ، سندیمان، سنیادت،راجہ گودھر،راجہ بلدیو،
سندرسین، بھگونت، اشوک، کنشک حکمرانوں سے ھوتاھوا 1336 میں پہلےمسلم حکمران شاہ میرتک پہنچا۔یہ خاندان 200سال حکمران رھا۔شاہ ایران حمدان کےیہاں آنےسےولیوں کاسلسلہ شروع ھوا۔مغل آئےتو 1751میں کشمیر افغان درانیوں کو تھماکرچلےگئےجنہوں نےبربریت کی انتہا کردی۔ بقول ہیروڈوٹس اور پلوٹارک 'افغانیوں کیلیے کشمیری کاسرکاٹناایسےتھاجیسےشاخ سے پھول توڑنا'
1819میں جاٹ سکھ رنجیت سنگھ نے ظالم افغان بھگائےتوکسراس نے بھی نہیں چھوڑی۔ وہ بھی انہی کے نقش قدم پر چلتا اپنے ہی دوست گلاب سنگھ ڈوگر کی سازشوں کا شکار ھو کر 1839میں اپنے انجام کو پہنچا۔
ڈوگروں نےنہ صرف کشمیریوں کوعصرجدید کی روح سےآشناہی نہ ھونےدیابلکہ برسرپیکارمجاہدین کی زندہ کھالیں کھچوائیں۔
1847میں انگریز یہاں آئےتوگلاب سنگھ نےیہ وادی فارسی میں تحریرکردہ 'معاہدہ امرتسر' کر کےان سے 75لاکھ میں خرید لی۔
1847سے1947تک یہ وادی ڈوگرہ خاندان کی ملکیت چلی آرھی ھے۔
کبھی ہندو، کبھی مسلمان اور کبھی سکھوں کے ظلم و استبداد سہتی بکتی چلی آرھی ھے۔
کشمیر کی مائیں اپنے بچے غلامی کیلیے جنتی ھیں۔
حیرت کی بات دیکھیں یہ وادی شروع دن سے ہی الگ ریاست ھے۔ چین، پاکستان، افغانستان یا انڈیا کا حصہ کبھی نہیں رھی مگر آج تینوں اس کیلیے لڑ لڑ کر مر رھے ھیں۔
آج تک اس مظلوم، محکوم اور غلام قوم کا مقدمہ کسی نے لڑا ہی نہیں صرف اس پرحق جتایاھے۔ کشمیر صرف اقتدار کی رسہ کشی ھے۔
کل تک اس وادی کیلیے سانس اور ھوا کی گنجائش تھی افسوس آج انکو یہ بھی میسر نہیں۔
“