مذاہب کا مسئلہ :
اسلام میں مختلف مکتبہ ہائے فکر اور فرقہ جات ہیں اور تمام دنیا میں فقہ و مسالک بھی ہر ایک کے اپنے اپنے ہیں جنہیں اب 1400 سال پیچھے واپس موڑنا ناممکنات میں سے ہے.
اس دنیا میں جو انسان جس مذہب میں پیدا ہوا یا جس کا دل جہاں پر لگا ہے وہ اسی پر اکتفا کئے ہوئے ہے. آپ کسی کے آگے اپنا نکتہ نظر دلیل کے ذریعے تو پیش کر سکتے ہیں لیکن اس کا گریبان پکڑ کر اپنے مؤقف کو نہیں منوا سکتے کیونکہ جب دل ہی نہ مانے تو تمام عقلی دلائل بے سود ہو جاتے ہیں.
میں سمجھتا ہوں کہ انسانوں میں مختلف مذاہب اور فرقے بننا ایک فطری عمل ہے کیونکہ ماحولیاتی تغیرات اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی تہذیب، رہن سہن اور سوچ میں نسل در نسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو انسانی معاشرے کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہیں جس میں یقیناً مذہب بھی شامل ہے. یہ عام مشاہدہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ایک جیسے ماحول میں رہنے والے دو بھائیوں کی ذہنی سطح بھی ہوبہو ایک جیسی نہیں ہوتی، ذرا غور کیجیے کہ ایک جیسے ماحول میں رہنے والے دو افراد کی سوچ بھی مختلف ہوتی ہے تو مختلف علاقوں اور ماحول میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی سوچ سو فیصد کیسے ایک جیسی ہو سکتی ہے. نیز قرونِ اولی اور قرونِ آخر کی تو بالکل بھی نہیں ہو سکتی.
تاہم ہر انسان اپنے پسندیدہ مذہب، عقیدے یا نظریے پر چلنے میں کلی طور پر آزاد ہے. اپنی زندگی کی ترجیحات کو اپنے نظریات کے مطابق ترتیب دینے کا حق رکھتا ہے۔ جب وہ اپنے نظریات کے تحت کسی دوسرے کو غلط جانتے ہوۓ تنقید کرنا اپنا حق سمجھتا ہے تو پھر اسے مقابل کا یہی حق تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے. بسا اوقات طرفین کی جانب سے اپنے اپنے حق کا غلط استعمال بد مزگی بھی پیدا کر دیتا ہے. آپ کسی کے آگے اپنا نکتہ نظر دلیل کے ذریعے تو پیش کر سکتے ہیں لیکن اپنا مؤقف زبردستی اس کے دماغ میں ٹھونس نہیں سکتے کیونکہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جب دل ہی نہ مانے تو تمام عقلی دلائل بے سود ہو جاتے ہیں. درحقیقت یہ عقل و دانش کا نہیں دل کا معاملہ ہے. اور ویسے بھی مذہب کے اندر عقیدے، عقیدتیں اور نظریات چلتے ہیں لاجک نہیں چلتی.
یہ بھی یاد رکھیے کہ گزرتے وقت کے ساتھ انسان کے نظریات بھی بدلتے رہتے ہیں. آج اگر آپ کوئی مخصوص نظریہ رکھتے ہیں تو ممکن ہے کہ دس سال بعد آپ اس نظریے سے 180 ڈگری زاویے پر مڑ چکے ہوں چنانچہ آج اگر کوئی کٹر مذہبی ہے تو ممکن ہے کل وہ لبرل ہو چکا ہو، آج اگر کوئی کمیونسٹ ہے تو کل وہ جمہوریت کا دلدادہ ہو سکتا ہے، آج اگر کوئی شیعہ ہے تو کل وہ سنی بن سکتا ہے اور آج کا سنی مستقبل میں شیعہ بن سکتا ہے. الغرض کوئی شخص کسی بھی نطریے یا عقیدے کا ہو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تیزی سے بدلتی اس دنیا میں کچھ بھی مستقل نہیں لہذا غصہ اور نفرت پال کر نہ ہی اپنے دماغ کو کشٹ دیجیے اور نہ زبان گندی کیجیے کیونکہ اس سے آپکے مخالف کا کچھ بگڑے یا نہیں لیکن آپ کا اپنا نقصان ضرور ہو سکتا ہے کیونکہ شدت پسندی وہ بلا ہے جو سب سے پہلے اپنے پھیلانے والے کو کھاتی ہے.
ہمارے ہاں اکثریت کسی نہ کسی خاص مذہب، فرقے یا کمیونٹی مثلاً شیعہ، اہلسنت، اہلحدیث، دیوبند، اسماعیلی، بوہری ،احمدی وغیرہ کا حصہ ہوتی ہے یا حصہ بن جاتی ہے. عام لوگوں میں ان کمیونٹیز کے معتقدین ہوتے ہیں یا مستفیدین اور یا پھر ان کمیونٹیز کو چلانے والے وارثین۔ لیکن ہم میں سے زیرک اور مضبوط اعصاب کا حامل شخص ان سب کمیونٹیز کو ایک ہی نظر سے دیکھتا، سمجھتا اور پرکھتا ہے. وہ غیر اہم مباحث میں اپنا اور دوسروں کا وقت برباد نہیں کرتا اور نہ ہی کسی مخصوص فرقے یا نظریے کے ساتھ جونک کی طرح چمٹتا ہے. بلکہ ہر نیا دن اس کے لیے ایک نئی جہت لاتا ہے اور اسے ایک نئی سیکھ ملتی ہے. وہ چیزوں کو محض سامنے سے نہیں دیکھتا بلکہ اسکی نظر کینوس کے پیچھے بھی ہوتی ہے۔ دانشمند شخص کی سوچ گروہی تعصبات اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوتی ہے. وہ کسی فرد کے متعلق راۓ قائم کرتے وقت اس کے ذاتی اوصاف دیکھتا ہے نہ کہ اسکے مذہبی و سیاسی افکار۔ وہ کسی مخصوص قبیلے یا مذہبی جتھے کے ترتیب شدہ عنوان پہ زندگی نہیں گزارتا بلکہ گرد و نواح کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اپنی ترجیحات طے کرتا ہے۔ اور خصوصاً اپنا ملکی مفاد اور بقا کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے.
“