مذاہب عالم کو سائنس کی طرف دیئے گئے پانچ بڑے جھٹکے
_____________________________________________
مذاہب نے انسان اور زمین کی بَرتر حیثیت کے حوالے سے جو خوش رنگ تصویر پیش کی ھے اس کی جدید عُلوم سے تائید نہیں ہورہی۔ مذہبی تصورِ انسان کو نیچے دیئے گئے چند بڑے دھچکوں میں سے پانچ کا ذکر پیش خدمت ھے، جو عِلمی و فِکری انقلابات سےکم نہیں ھیں۔
پہلا دَھچکا اور سب سے زور دار دھچکا
جب ڈارون نے کہا کہ انسان ازل سے بنا بنایا اشرف المخلوقات نہیں بلکہ ایک ارتقا پذیر جانور ہے جو زمین کی پَستی سے دوسرے حیوانوں کی طرح ارتقا کرتا ہوا آج انسان کی شکل و صورت اختیار کر گیا ہے جس کی تصدیق fossil records اور DNA سے ہوئی ہے. ارتقا ہنوز جاری ہے اور انجامِ ارتقا کیا ہوگا، کس سمت میں ہوگا یہ حَتمی طور پر اِس لئے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ایک جاندار اپنے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ کر اپنی نَسل بڑھائے. آج سے لاکھوں بَرس بعد کیسے حالات ہونگے، جاندار بشمول انسان کیسے ان حالات میں خود کو ڈھالیں گے یا اثر انداز ہونگے، کون سی انواع نیست و نابُود ہونگی اور کون سی زندہ اور کس ہیّت میں ہونگی یہ تو وقت ہی بتائے گا.
دوسرا دَھچکا
جب کیپلر اور گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین کائنات کا مرکز و مَحور نہیں اور نہ ہی سورج اس کے گرد گھومتا ہے بلکہ اس وسیع و عریض کائنات میں زمین کی کوئی حیثیت نہیں یہ سمندر میں ایک چھوٹی سی کَنکری کی مانند ہے اور خود زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں. اس کے علاوہ جدید تحقیق کے مطابق ہمارا سورج خود ہماری کہکشاں کا ایک ادنیٰ ستارہ ہے اور کائنات میں کروڑوں کی تعداد میں کہکشائیں ہیں جو ہماری کہکشاں سے بھی بڑی ہیں. جب اتنی وسیع کائنات میں ہمارے سورج کی ہی کوئی حیثیت نہیں تو ہماری زمین کی کیا ہوگی.
تیسرا دَھچکا
جب کارل مارکس نے کہا کہ انسانی سماج ارتقا کرکے آگے بڑھا ہے اور اس کے پیچھے مُحرکات مادی ہیں. یہ سارا مادی وسائل پہ دسترس اور قبضے کی بات ہے جو ہاتھ بدلتے رہتے ہیں. تقدیر محض ایک قِصّہ ہے جو اوپر والے / حُکمران طبقے نے لوگوں کو اپنے حالات پہ خوش رہنے کے لئے گَھڑا ہے تاکہ وہ بغاوت نہ کر سکیں اور اپنے موجودہ حالات پہ خوش رہ سکیں یا یوں کہیں کہ لوگ خود ہی اپنی تقدیر بناتے ہیں محنت سے، بغاوت سے اور ذرائع پیداوار پہ قابض ہوکے.
چوتھا دَھچکا
جب سگمنڈ فرائڈ نے کہا کہ انسان جسے عقل و شعور کی وجہ سے اَشرف المخلوقات مانا جاتا ہے دراصل اس کے شعور پہ جِبلی خصلتیں حاوی ہیں. روز مرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات زیادہ تر انسان کی جبلی و نفسانی خواہشات کا مظہر ہیں اور عقل تو جیسے ان خواہشات کی لونڈی ہے جو ان کی تسکین و تسلی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے. انسانی ذہن ان جِبلی قوتوں، جن کا منبع سیکس ہے، کی آماجگاہ ہے جو فرد کے اندر سے معاشرے میں اپنی رونمائی چاہتی ہیں. ان کے بِلا روک ٹوک باہر آنے سے تہذیب کو خطرہ ہے اور ان کو بے جا دَبانے سے انسانی شخصیت / ذہن کو خطرہ ہے. اس لئے عقل وقتاً فَوقتاً کوئی نہ کوئی راہ نکالتی رہتی ہے جس سے ان جِبلی خواہشات کی تسکین ہوتی رہتی ہے.
پانچواں دھچکا
جب Evol: psychology