(قسط نمبر نو)
مکہ سے سات سو میل مشرق میں خلیجِ فارس کے ساحل پر القطیف، سیھات اور صفویٰ کے شہر آباد ہیں۔ سعودی عرب میں رہنے والے ساڑھے تین لاکھ شیعہ یہاں پر رہتے ہیں۔ سعودی عرب کا مشرقی صوبہ شیعہ آبادی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی تیل کی پروڈکشن کا بھی گڑھ ہے۔ آرامکو کے چالیس فیصد ملازمین بھی یہی پر رہتے تھے۔ تیل سے مالامال ہونے کے باوجود یہ سعودی عرب کا سب سے پسماندہ علاقہ تھا۔
مسجد الحرام پر قبضہ یکم محرم کو کیا گیا تھا۔ عاشورہ کے دن قریب تھے۔ نامساعد حالات کے باوجود ڈٹ جانے کی روایت کو یاد کئے جانے کا وقت تھا۔ جھیمان کے قبضے کے خبر مشرقی صوبے تک پہنچ گئی تھی۔ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ معاملہ کیا ہ ہے اور یہ تو بالکل ہی معلوم نہیں تھا کہ جھیمان کا گروپ شیعہ آبادی کے حقوق سرے سے ہی ختم کرنا چاہتا ہے لیکن یہ معلوم ہو گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ نوجوان جذباتی لڑکے اس کو انقلابِ ایران جیسی تحریک کا آغاز سمجھنے لگے تھے۔ بغاوت اس پسماندہ علاقے کے لئے پرکشش تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی حکومت مشکلات کا شکار تھی۔ ان کے پڑوس، ایران میں بادشاہت کا تختہ الٹا تھا اور معاشرہ پلٹا دیا گیا تھا۔ ۔ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت آ گئی تھی۔ سعودی تیل کی تنصیبات کا افغانستانن سے فاصلہ، ان تنصیبات کے جدہ سے فاصلے سے کم تھا۔ اپنے اندرونی معاملات کی وجہ سے امریکہ بھی مدد سے ہاتھ کھینچتا نظر آتا تھا۔ اب ان کے اپنے ملک میں مذیبی جنونی ایک بڑی کارروائی کر چکے تھے۔ مذہبی راہنما بھی انہی کے خاموش حامی نظر آ رہے تھے۔ مسجدالحرام کے محاصرے سے نپنٹنے میں ان کی فوج مشکلات کا سامنا تھا۔ عرب دنیا میں سعودی حکومت کی اہلیت پر چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ مصر کے مفتی اعظم نے سعودی علماء پر بھی اور حکومت پر بھی واضح اور کڑی تنقید کی تھی کہ وہ اس قابل نہیں لگتے کہ مقاماتِ مقدسہ کی نگہبانی کر سکیں۔ ہتک آمیز بات یہ تھی کہ شاہ ححسین، جن کے خاندان سے یہ مقامات چھینے گئے تھے، وہ اپنے کمانڈو بھیجنے کی پیش کش کر چکے تھے۔
اور اب انہیں اندرونی عوامی شورش کا سامنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی معیشت کا بڑا حصہ آرامکو تھا اور آرامکو کو چلانے میں امریکیوں کا کلیدی کردار تھا۔ مشرقی صوبے میں شروع ہونے والے مظاہرے آرامکو کی پالیسیوں کے خلاف شروع ہوئے۔ تیل کی تنصیبات پر کام کرنے والوں کو شیعہ انقلابیوں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔ سی آئی اے نے شاہ فہد کو ایک رپورٹ بھیجی تھی۔ سی آئی اے نے ولی عہد کو ایک رپورٹ بھیجی۔ “خدشہ ہے کہ انقلابی ایک ریفائنری کو نشانہ بنا سکتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیعہ بغاوت کی قیادت حسن السفر کر رہے تھے۔ انہوں نے روایتی شیعہ علماء پر کڑی تنقید کی کہ وہ کیوں سعودی حکومت کے خلاف نہیں آواز اٹھاتے اور پھر کہا، “خطرے کا انتظار کرنا خطرے سے زیادہ برا ہے۔ جراتمند لوگ آگے بڑھ کر خود خطرے سے لڑتے ہیں”۔ جھیمان کی بغاوت نے ان کو ایک نیا حوصلہ دے دیا۔
حسن کی ایک جذباتی تقریر کے بعد روایتی عرب لباس پہنے نوجوانوں نے انقلابی نعرے لگاتے ہوئے القطیف شہر کے مرکز میں پہنچے۔ پولیس نے لاوٗڈسپیکر پر اعلان کیا کہ ہر قسم کے مظاہرے غیرقانونی ہیں اور احتجاج کرنے والے واپس چلے جائیں۔ مظاہرین سے پہلے بات چیت ہوئی۔ پھر پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا اور پھر آنسو گیس استعمال ہونے لگی۔ اتنی زیادہ کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اس روز کے لئے مظاہرہ ہ ختم ہو گیا۔
اس نئے محاذ کا کھل جانا سعودی حکومت کے لئے ایک اور سردرد تھا۔ فوجی نفری بھی اس وقت کم تھی کیونکہ فوجی مکہ کی صورتحال سے نمٹنے گئے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے کچھ ہی گھنٹوں بعد مغرب کی نماز کے بعد سیھات کے شہر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ڈنڈے اور پتھر لئے نوجوانوں کو آنسو گیس سے روکا گیا۔ ان میں سے ایک لڑکا حسن القلاف گولی لگنے کے سبب مارا گیا۔ اس کی لاش مظاہرین نے چھین لی اور سیھات کی گلیوں میں گھمائی گئی کہ یہ خون السعود کے سر ہے۔
سعودی حکومت نے مکہ سے فوجی اس علاقے میں واپس بلا لئے۔ اس بغاوت کو قابو سے باہر نہ ہونے دینا حکومت کی ترجیح تھی۔ 28 نومبر 1979 کی صبح القطیف کے مظاہرین سیحات میں ہونے والی موت کے انتقام کے جذبے سے نکلے۔ اس سے پچھلی رات کو ان کے کئی لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، کچھ روپوش ہو گئے تھے۔
اب یہ بغاوت صرف شیعہ آبادی تک محدود نہیں رہی تھی۔ علاقے میں ملازمتوں کا نہ ہونا، حکومتی کرپشن، تیل نکالنے کی وجہ سے پانی کے مسائل اور حکومتی جبر بھی اب اس میں شامل ہو چکے تھے۔ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں بلکہ ایک پسماندہ علاقے کی مرکز کے خلاف بغاوت بن گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظاہرین نے پہلے مقامی حکومتی عمارتوں پر پتھراوٗ کیا۔ ان کا نعرہ “لا سنی، لا شیعہ، وحدہ وحدہ اسلامیہ” تھا۔ (ہم میں سے کوئی سنی نہیں، کوئی شیعہ نہیں، ہم اسلام کے نام پر متحد ہیں)۔ جب یہ نعرہ لگاتے ہوئے ان کا سامنا سعودی گارڈ سے ہوا تو اس بار آنسو گیس یا لاٹھی استعمال نہیں کی گئی۔ مشین گن سے ڈائریکٹ فائر مظاہرین کے سینے پر آیا۔ یہ مظاہرین کے لئے غیرمتوقع تھا۔ مجمع چھٹ گیا۔ کوئی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگا تو کوئی زخمیوں کو اٹھانے کے لئے۔ حکومتی ہسپتالوں نے ان زخمیوں کے علاج سے بھی انکار کر دیا۔ مظاہرین میں جو ڈاکٹر اور نرس تھے، انہوں نے ہی ان کی مرہم پٹی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشیدگی کم ہونے کے بجائے زیادہ ہو گئی۔ قانون نافذ کرنے والوں کو ہدایت ملی تھی کہ گشت کریں اور کوئی بھی مشکوک نظر آئے، اسے اٹھا لیا جائے۔ کچھ گارڈ گشت میں دور نکل گئے۔ چاقو اور ڈنڈے تھامے مظاہرین کے ہتھے چڑھ گئے اور مارے گئے۔ ان کے ہتھیار مظاہرین کے ہاتھ لگ گئے۔
القطیف کی ساری فون لائنیں کاٹ دی گئیں۔ سڑکیں بند کر دی گئیں۔ اس خبر کا مکمل بلیک آوؐٹ کر دیا گیا۔
سعودی عرب نے ایرانی انقلاب کی شدید مخالفت کی تھی لیکن اب فورا شاہ خالدلد نے امام خمینی کو پیغام بھیجا، “مسجداللحرام میں ہونے والے واقعے کے اس سخت وقت کے دوران آپ جس طریقے سے ہمارے ساتھ یک جہتی سے کھڑے ہیں، ہم اس کے لئے آپ کے شکرگزار ہیں”۔ سعودی عرب اس نازک صورتحال میں بیرونی مداخلت کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی سٹیٹ سیکرٹری کی طرف سے سعودی عرب میں امریکی سفیر ویسٹ کو 29 نومبر کو پیغام موصول ہوا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرنے والے چالیس ہزار امریکیوں کو نکالنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اس کا انتظام کر لیں۔ ویسٹ نے واپس مراسلہ بھجوایا کہ اگر ایسا کیا گیا تو سعودی فوج، تیل کی پروڈکشن، ٹرانسپورٹ وغیرہ ختم ہو جائیں گے۔ سعودی حکومت گر سکتی ہے۔ ملک انارکی کا شکار ہو سکتا ہے۔ کیا وہ اس کے لئے تیار ہیں؟”
ویسٹ نے شہزادہ بندر سے بات کی۔ شہزادہ بندر نے انہیں یقین دلایا کہ مشرقی صوبے کی بغاوت کا جلد ہی قلع قمع کر دیا جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کے لیکچر اپنے پاس رکھے۔ امریکہ ایران سے سبق حاصل کر چکا تھا۔ اس بار اس نے خاموشی اختیار کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات کے دن 29 نومبر 1979 کو عاشورہ کی شام کو القطیف میں آخری لڑائی لڑی گئی۔ نیشل گارڈ شہر کے مرکز کو چھوڑ کر باہر آ گئی تھی۔ راتوں رات کئی فوجی گاڑیوں کو آگ لگائی تھی تھی۔ دن کا آغاز نوجوانوں کی تدفین سے ہوا جو پپچھلے دن مارے گئے تھے۔ جنازے میں واعظین کی پرجوش تقاریر سن کر مظاہرین ڈنڈے اور پتھر لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے نعروں میں “سعود مردہ باد”، “انقلاب، انقلاب”، “ہمارے خون سے اسلام زندہ ہو گا” کا اضافہ ہو چکا تھا۔ نشانہ سعودی ریاست اور اس کے مغربی اتحادی تھے۔
ریاض بینک اور سعودی برٹش بینک پہلے نشانہ بنے۔ پولیس گارڈ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے بعد عرب بینک کو لوٹا گیا۔ شہر کے امیوزمنٹ پارک کو آگ لگا دی گئی۔ اگلی باری سعودی ائیرلائن اور مقامی عدالت کی عمارت کی تھی۔
نیشل گارڈ کے تازہ دم دستے بارہ بجے تک پہنچ گئے۔ مشین گنوں نے موت اگلنا شروع کر دی۔ مظاہرین پیچھے ہٹنے لگے۔ گارڈز نے قبضہ واپس حاصل کرنا شروع کر دیا۔ کچھ انقلابیوں نے القطیف میں پانی کے ٹاور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تا کہ بلند جگہ سے سعودی گارڈز کو نشانہ بنایا جا سکے۔ لیکن یہ تربیت یافتہ نہیں تھے۔ جلد ہی ہٹا دئے گئے۔ دوپہر کے بعد فوجی ہیلی کوپٹر آسمان پر نمودار ہوئے۔ سڑکوں پر حرکت کرتا کوئی بھی شخص ان کا نشانہ تھا۔ فون کے رابطے تو پہلے ہی خ ختم کئے جا چکے تھے۔ بجلی اور پانی بھی کاٹ دی گئی۔ بھاری توپیں شہر کے مرکز میں آ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریبی شہر صفویٰ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ صبح جنازے کے بعد جذباتی نوجوان پولیس سٹیشن جانا چاہتے تھے۔ بزرگ روکنے کی کوشش کر رہے تھے، “ہمیں پوچھنے دیں کہ ہمارے ساتھیوں کو کس گناہ میں قتل کیا گیا” اور “اگر تم گئے تو تم بھی مارے جاوٗ گے” کی بحث میں جوش جیت گیا۔ مظاہرین نے کوسٹل ہائی وے بلاک کر دی۔ طریقِ علی بن ابی طالب پر پولیس سٹیشن واقع تھا۔ مظاہرین اس کے قریب پہنچے ہی تھے کہ گولیاں برسنے لگیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے واپس دوڑ لگائی۔ پھر فضا میں ہیلی کوپٹر گن شِپ اور زمین پر بکتر بند گاڑیوں کی باری تھی۔ کسی بھی حرکت کرتے شخص کو شوٹ کر دینے کا آرڈر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعے تک یہ شورش کچل دی گئی۔ معاملات کو معمول پر لانے نائب وزیرِ داخلہ شہ شہزادہ احمد کو مذاکرات کرنے بھیجا گیا۔ ش شہزادہ احمد نے پولیس سے چھینے گئے ہتھیاروں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ شہر کے معززین میں سے ایک بزنس مین عبداللہ مترود نے ملازمتوں کے مواقع، علاقے کی غربت اور ترقیاتی کام نہ کئے جانے کی طرف توجہ دلوائی۔ پرنس احمد نے یقین دلوایا کہ نہ صرف یہ ہو گا بلکہ آزادی اظہار کے معاملے میں بھی نرمی برتی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پرنس احمد بات چیت کے اختتام پر کھڑے ہو کر علاقے کے معززین سے مصافحہ کر رہے تھے تو یہ معاملہ طے ہو چکا تھا۔ سعودی حکومت کے لئے اس بحران والے دنوں میں یہ اہم کامیابی تھی۔
دوسری طرف، مسجدالحرام میں لڑائی ابھی جاری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔