مظاہر فطرت اور انسانی مقصدیت
۔
ہم ﺳﻮﻧﺎ Gold ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ہی رہتے ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻧﺎ ﺩﯾﮕﺮ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﻋﻨﺎﺻﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ دراصل ﺳﭙﺮﻧﻮﻭﺍٶﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻮﭨﺮﺍﻥ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﮯ۔
ﺍﺏ ﺍﮔﺮ اس دنیا کا ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻨﭽﻼ ﻋﺎﺷﻖ ﯾﮧ ﺩﻋﻮﺍ پیش کر بیٹھے ﮐﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺤﺒﻮﺑﮧ ﮐﯽ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﮐﻨﮕﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻤﮑﮯ ﺑﻨﺎﻧﮯ کے مقصد ﮐﮯﻟﯿﮯ آج سے ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ کوئی ﺳﭙﺮﻧﻮﻭﺍ ﭘﮭﭩﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ کیا آپ اس منچلے عاشق کے دعوے پر یقین کرلیں گے؟
۔
۔
ﺩﺭﯾﺎ ﮔﻨﮕﺎ کوہ ﮨﻤﺎﻟﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ہندوستان میں وارد ہوتا ہے ﭘﮭﺮ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮﺯ کا ﻓﺎﺻﻠﮧ ﻃﮯ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﻭﺭ سمندر ﻣﯿﮟ ﻣﺪﻏﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﺏ ﮐﭩﺮ ﮨﻨﺪﻭ ﯾﮧ ﺩﻋﻮﺍ ﭘﯿﺶ ﮐﺮیں ﮐﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﭖ ﺩﮬونے ﮐﮯ مقصد کےلیے ہی ﺁﺝ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﺎﻝ پہلے ہمالیہ نے مقدس گنگا دریا کو جنم دیا تھا تو کیا آپ انکے اس دعوے پر یقین کرلیں گے؟
۔
۔
ہم انسان اس زمین پر رہتے ہیں اور آج یہ زمین زندگی کےلیے موزوں ہے لیکن اگر ﮐﻮﺋﯽ مذہبی ذہن کا بندہ یہ ﺩﻋﻮﺍ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ دراصل ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺎﺭﯼ کے مقصد ﮐﮯﻟﯿﮯ ہی ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ زمین کو موجودہ مدار اور فاصلے پر مقید کیا گیا تھا ﺗﻮ کیا آپ اس کے دعوے پر یقین کرلیں گے؟
۔
۔
یاد رہے۔۔۔۔
۔
ﺳﭙﺮﻧﻮﻭﺍ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﭩﺘﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﻮﺑﺎٶﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﮕﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻤﮑﮯ ﺑﻨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﺍﻟﮓ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ہی ﻣﺤﺒﻮﺑﺎٶﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﮕﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻤﮑﮯ ﺑﻦ ﺑﮭﯽ ﮔﺌﮯ تو کیا منچلے عاشق کا دعوا صداقت پر مبنی تصور کرلیں؟
۔
ﺩﺭﯾﺎ ﮔﻨﮕﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﮩﺎ ﮐﺮ ﮨﻨﺪﻭ مذہب کے پیروکار ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭖ ﺩﮬو لیں ﺍﻭﺭ پاک ﭘﻮﺗﺮ ﺑﻨﯿﮟ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ہندو بڑی عقیدت سے اس دریا میں ڈبکیاں لگاتے ہیں اور گنگا جل سے اشنان کرکے پاک پوتر (کم از کم وہ تو یہی عقیدہ رکھتے ہیں) بن بھی جاتے ہیں تو کیا کٹر ہندوٶں کے اس دعوے کو صداقت پر مبنی تصور کرلیں؟
۔
ﺯمین ﮐﺎ ﻗﯿﺎﻡ، اسکا مدار اور اسکا سورج سے مناسب فاصلہ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ طے نہیں ہوا تھا ﮐﮧ ﺍﺱ سے ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﻨﭙﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ۔ اب یہ ﺍﻟﮓ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ بعد میں اس پر ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﻨﭗ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ بھی ﺁگئے تو کیا اس مذہبی ذہن کے بندے کے دعوے کو صداقت پر مبنی تصور کرلیں؟
۔
۔
ﺳﭙﺮﻧﻮﻭﺍٶﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﺷﺪﮦ ﺳﻮﻧﺎ ﮐﻮ ﮨﻢ انسان ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور ان سے محبوباٶں کے کنگن اور جھمکے بناتے ہیں۔
ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ۔
۔
ﺩﺭﯾﺎ ﮔﻨﮕﺎ ﺳﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ اس میں اشنان کرکے اپنے پاپ دھلتے ہیں۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﭻ ﮨﮯ۔
۔
ﺍﻭﺭ ہم ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺯﻣﯿﻦ سے بے شمار فوائد اٹھا رہے ہیں۔ اسی کی وجہ سے آج ہم زندہ ہیں اور سانس لیکر ﺟﯽ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ۔
۔
۔
ﺑﻈﺎﮨﺮ مذکورہ بالا ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺩﻋﻮٶﮞ ﻣﯿﮟ سو فیصد زمینی ﺳﭽﺎﺋﯽ ﺩﮐﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ مگر کیا واقعی یہ تینوں دعوے صداقت پر مبنی ہیں؟
اپنے عقائد، اپنے جذبات اور اپنے ترجیحات ایک طرف رکھ کر دوبارہ سے ان دعوٶں کا جائزہ لیں۔
۔
۔
ﺑﻘﻮﻝ ﺍﺳﭩﯿﻔﻦ ﮨﺎﮐﻨﮓ، مقصد یا مقصدیت دراصل انسانوں کی اپنی اختراح ہے۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻔﺎﺩ، ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ اور ترجیحات ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻣﻈﺎﮨﺮ ﻓﻄﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﻃﮯ ﮐﺮتے پھرتے ہیں ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﻣﻘﺎﺻﺪ کو مدنظر رکھ کر ﺍﻥ ﻣﻈﺎﮨﺮ ﻓﻄﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﭩﺮﻧﺰ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮتے ہیں ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﻄﺮﺕ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﮯ ﺷﺪﮦ ﻣﻘﺼﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔
۔
سچ تو یہ ہے مظاہر فطرت کے وجود میں آنے سے پہلے انکے مقاصد اصولا طے ہو ہی نہیں سکتے۔ جب کوئی مظہر پنپ جائے تو پھر اسکے مقاصد طے ہوسکتے ہیں اور یہ مقاصد پھر ہم انسان اپنے نفع نقصان کی بنیاد پر طے کرتے رہتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“