ہندوستان میں پچھلے پچاس سال میں مزہبی معاملات میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے چار بڑے فیصلہ سنائے جن کا ہندو اور مسلم مزاہب والوں پر بہت گہرا اثر پڑا ۔ اور وہ سارے فیصلہ سخت تنقید کا نشانہ بنے ۔ سب سے پہلا فیصلہ ایک مسلمان خاتون شاہ بانو کی مینٹیننس کا تھا اور سپریم کورٹ نے اس وقت کے مروجہ مسلم فیملی لاء کو اس فیصلہ میں انسانی قدروں کے خلاف گردانا اور شاہ بانو کو مینٹیننس کا حق دیا گیا ۔ اس کے بعد بابری مسجد کا فیصلہ تھا جہاں جھگڑا یہ تھا کہ ہندو کہتے ہیں یہاں پہلے مندر تھا اور ہندو چاہتے تھے کہ پھر مندر تعمیر کیا جائے سپریم کورٹ کے ۲۰۱۸کے فیصلہ میں ہندوؤں کو دیور کیا گیا جب مسلمانوں کی لارجر بینچ کی درخواست مسترد کی گئ ۔ سپریم کورٹ مزید اس بحث میں یہ کہتا ہے کے مسلمان کسی بھی جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں اور ریاست کسی بھی عبادت گاہ کی زمین acquire کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں چونکہ رام کا مندر تھا اس کو کہیں اور لیجانا مشکل ۔ اس میں دونوں دھڑوں کی طرف سے شدید کشیدگی ابھی بھی جاری ہے ۔
تیسرا فیصلہ ممبئ میں واقعہ حاجی علی درگاہ کا تھا جس میں مسلمان خواتین کو درگاہ میں جانے کی پابندی تھی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دے کر ختم کیا ۔ پچھلے سال ہی ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مزہبی امور پر ایک چوتھا بڑا فیصلہ سنایا جس سے مودی سرکار ابھی تک سکتہ میں ہے ۔ یہ فیصلہ بھارت کی ریاست کیرالہ میں وقع سبریمالا مندر کا تھا ۔ جہاں کئ ہا سال سے دس سال سے پچاس سال کی عورتوں کا داخلہ حیض کی پلیتی کی وجہ سے ممنوع تھا ۔ چونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کے پچاس سال کے بعد عورت ماہواری سے پاک ہو جاتی ہے تو مندر میں جانے کی اجازت تھی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود ابھی تک پچاس سال سے کم عمر کی صرف دو عورتوں نے مندر میں جانے کی جرات کی جن کو ٹائم میگزین نے اپنے اس ہفتہ کے ایشو میں بڑی نمایاں حیثیت دی اور ہیرو کا درجہ دیا ۔ کشیدگی اس معاملہ میں اتنی بڑھ گئ ہے کہ اسی مہینے کے آخر میں ہندوستانی سپریم کورٹ کو اس پر ریویو پیٹیشن سُننی پڑ رہی ہے ۔
پاکستان میں بھی مزاروں اور مندروں پر اس طرح کی پابندیاں ہیں ۔ صرف اسی مزہب کے لوگ جا سکتے ہیں اور اکثر مزاروں میں خواتین کے جانے پر پابندی ہے ۔
یہ سارا معاملہ اصل میں ہے کیا ؟ کیا یہ مزہبی عقیدت پسندی کا معاملہ ہے یا صرف اور صرف تھانیداری اور دوکانداری کا ؟
مسلمان صوفی سلطان باہو فرماتے ہیں؛
“جے رب نہاتیاں دھوتیاں ملدا
ملدا ڈڈواں مچھیاں ہو
رب اوناں نُوں ملدا باہو
نیتاں جنہاں اچھیاں ہوں “
اسی کو علامہ اقبال نے کچھ یوں فرمایا ؛
“مسجد تو بنا دی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا “
اور بلھے شاہ نے کہا ؛
“بلھیا کھا کباب پی شراب ہیٹھ بال ہڈاں دی اگ
بلھیا بھن گھر رب دا، ایس ٹھگاں دے ٹھگ نُوں ٹھگ “
کل مجھے فیس بک پر ایک دوست نے پوچھا کے کیا اللہ انسان میں ہے یا انسان ہی اللہ ہے ؟ میرا جواب تھا انسان ہی اللہ ہے ۔ اور کل ہی نیوجرسی میں میرے ایک پاکستانی مسلمان دوست نے یہ پوچھا کہ مسجد کو اللہ کا گھر کیوں کہا جاتا ہے ، کیا اللہ صرف وہیں رہتا ہے ۔ جس پر میں نے اسے ہندوستانی سپریم کورٹ میں بابری مسجد والے کیس میں بحث سنائ ۔ ہندوستانی سپریم کورٹ کے نزدیک اللہ تو ہر جگہ موجود ہے اور نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے ، یہ مُورتیاں صرف مندروں میں ہی رکھی جا سکتی ہیں کیونکہ ساکن ہیں ۔
یہ مزاہب کی contradictions یا تضاد مولوی ، پنڈت ، ربی اور پادری کی دوکانداری کے معاملات کے سوا کچھ نہیں ۔ گنگا جمنا کے گندے پانیوں میں جو اشنان ہوتا ہے وہ کیا پاک غسل ہے ؟ وہ تو ماہواری کے دنوں کے علاوہ والی عورت سے بھی زیادہ پلیتی والا معاملہ ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو ایک دوسرے کو نگلنے کے بہانے چاہیے ۔ مادہ پرستی ، مولویوں اور پنڈتوں کے مزاہب ، سیاسی جانبداریاں ، یہ سارے دنیاوی سرکس ہیں پیسہ ، طاقت اور دھوکہ کے ۔ انسان کو انسان سے لڑانے کے لیے ۔ میں جب کہتا ہوں کہ انسان ہی اللہ ہے تو پھر بہ بزید بسطامی ، منصور حلاج اور صوفی سرمد کی طرح اپنا انجام بھی اسی طرح کا دیکھتا ہوں ۔ نجانے ہم کب سمجھیں گے کہ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف پیار اور محبت ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کے علاوہ اگر کوہ مقصد ہوتا تو چنگیز خاں ، اسکندر اعظم اور تیمور پیغمبر ہوتے ۔ فرعون ہمارا بادشاہ ہوتا اور امر ہو جاتا ۔ ایسا نہیں ہے ۔ ہم غلطی پر ہیں ۔
عبادات اصل میں روحوں کو منور رکھنے کا واحد اور افضل طریقہ ہے ۔ خاص طور پر ہم مسلمانوں کی نماز ۔ سارا عمل ہی جزبہ شکرگزاری اور محبت کا محور ہے ۔ یہ ایک oneness ہے جس میں ہم سب پروئے ہوئے ہیں اور یہ فیلڈ ہی اللہ تعالی ہے جس میں ہم سب ایک ہیں اور اس روشنی کا الاؤ محبت کے لہو سے بڑھتا ہے ۔ اس الاؤ کو اپنے خون کی حرارت اور دل کی دھڑکن سے بڑھائ رکھیں ، کبھی اندھیرے نہیں ہوں گے ۔ یہ اُجالوں کا سفر ہے ۔ اور بلھے شاہ پر ہی ختم کرنا چاہوں گا ؛
اک نقطہ وِچ گَل مُک دی اے ۔
بہت خوش رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...