سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو کرپشن کے الزام میں پکڑا جاتا ہے مگر کنٹونمنٹ بورڈ کو کوئی نہیں پوچھتا۔
یہ تھا نکتہ جو فاضل صحافی نے ٹی وی پر بیان کیا۔ الفاظ ہو بہو یہ نہیں تھے مگر لبِ لباب یہی تھا!
اس کا سیدھا سادا جاٹواں جواب تو یہ تھا کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ میں ’’تھوڑا سا‘‘ فرق ہے! کسی نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے ۔ جواب دیا عبدالرئووووووف! پھر جواب دینے والے نے پوچھا۔’’اور تمہارا نام‘‘؟ اس نے کہا نام تو میرا بھی عبدالرئوف ہے مگر اس قدر لمبا نہیں ہے! ہیں تو کنٹونمنٹ بورڈ بھی سرکاری ادارے مگر اتنے’’لمبے‘‘ نہیں جتنے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے’’فیض رساں‘‘ ادارے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ میں دو افراد اہم ہوتے ہیں ۔ ایک سٹیشن کمانڈر اور دوسرا کنٹونمنٹ ایگزیکٹو افسر۔ پہلا وردی پوش ہوتا ہے اور دوسرا سی ایس ایس کا بیورو کریٹ۔ شاید ہی کوئی ایسا کنٹونمنٹ بورڈ ہو جہاں یہ دونوں افسر تین سال کے بعد تبدیل نہ ہوجاتے ہوں۔ پھر یہ بھی ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ ماہانہ نذرانہ کسی بڑے گھر نہیں بھیجتے‘ نہ ہی ساڑھے بارہ سو پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کر کے ساڑھے چار ارب روپے کا ’’معاملہ‘‘ کرتے ہیں! نہ ہی کنٹونمنٹ بورڈ کے کسی افسر نے آج تک جنوبی افریقہ میں دس ایکڑ پر مشتمل سفاری چڑیا گھر اور کینیڈا میں جائیداد خریدی ہے۔
مگر مسئلہ کسی سیدھے سادے جاٹویں جواب سے حل ہوتا نظر نہیں آتا! مسئلہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا ہے۔ اگر اجازت دیں تو ذہنیت کا لفظ استعمال کیا جائے! یہ مائنڈ سیٹ‘ یہ ذہنیت یہ ہے کہ کرپشن کی کھلے عام اجازت ہونی چاہیے۔ ذرا کسی نے کرپشن کے خلاف بات کی‘ ذرا کسی نے کوئی اقدام کیا تو فوراً جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ یاد آ گیا۔ یہ اس ملک کے عوام کے ساتھ عجیب و غریب مذاق ہے۔ کھل کر کرپشن کرو۔ اقربا پروری ‘ دوست نوازی‘ سفارش کو رائج الوقت سکہ بنا لو۔ بھرتی ہو رہی ہو تو درازوں میں پڑی لسٹوں میں سے ہو۔ تعیناتیاں ہوں تو صرف سفارش کی بنیاد پر۔ وزرائے اعظم‘ کشتوں کے پشتے لگاتے رہیں۔ محکمے خود بتائیں کہ اتنی رقم ہر مہینے فلاں ہائوس میں پہنچائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اس کمائی کے ثبوت ہوں۔ اپنے ملک کے شہری انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ سیاسی جماعتیں‘ جن کا جمہوریت سے صرف اور صرف خاندانی تعلق ہے ‘ ایک دوسرے کو بچاتی پھریں۔ اس صورتحال میں فوج آگے بڑھے اور کرپشن کے پر زور سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرے تو جمہوریت کی قمیض بانس کے اونچے سرے پر باندھ کر گلی گلی فریاد کرنا شروع کردیں!
پندرہ ستمبر کو یوم جمہوریت تھا! اس دن بطور خاص جمہوریت کی دہائی دی گئی اور دکھ کا اظہار کیا گیا کہ جمہوریت کا جہاز ہچکولے کھا رہا ہے! ایسے بیانات جاری کرنے والے طبقہ اشرافیہ کے ارکان‘ گئے زمانوں میں رہ رہے ہیں! کاش انہیں کوئی جگاتا! کوئی احمد ندیم قاسمی پھر سے پوچھتا ؎
حضور! آپ کیوں بوکھلانے لگے ہیں
مکافات پر جب مدار جہاں ہے
حضور! آپ روپوش ہو جائیں لیکن
حضور! آپ کے سر کی کلغی کہاں ہے
اب وہ زمانہ نہیں جب لوگ بی بی سی سننے کے لیے رات کو محلے کے حلوائی کی دکان کے گرد اکٹھے ہوتے تھے! ریڈیو ‘ اخبار‘ ٹی وی سب حکومت کی گرفت میں تھے۔ میڈیا اب چھتوں‘ منڈیروں‘ کھمبوں اور ممٹیوں سے ایک ایک راز اچھال رہا ہے۔ آپ جب دہائی دیتے ہیں تو خدا کی قسم! لوگ ہنستے ہیں اور ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر پوچھتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ سے لے کر لندن اور دبئی تک ۔ حج سکینڈل سے لے کر ٹڈاپ سکینڈل تک۔ اور نہ جانے کہاں کہاں سے لے کر‘ کہاں کہاں تک‘ جمہوریت کے دریا بہہ رہے ہیں‘ پھر جمہوریت کی کشتی کو خطرہ کہاں سے لاحق ہو رہا ہے۔ ویسے مغلوں کے آخری زمانے کے مشہور طنزیہ شاعر جعفر زٹلّی نے کسی ایسی ہی کشتی کے بارے میں شعر کہا تھا جو گھر گھر مشہور ہوا ؎
کشتیٔ جعفر زٹلّی در بھنور افتادہ است
ڈُبکوں ڈُبکوں می کند‘ با یک دو دِھکاّ پار کُن
یوم جمہوریت پر تمام معروف روزناموں نے اداریے لکھے ہیں اور چیئرمین سینیٹ کے اس بیان کا ذکر کیا ہے‘ مگر ایک نکتہ جو تمام اداریوں میں مشترک ہے ‘ سول حکومت اور
سیاسی جماعتوں کے اپنے کردار کے بارے میں اٹھایا گیا سوال ہے۔ قدیم ترین اور موقر ترین انگریزی روزنامے نے لکھا ہے: ’’پی پی پی کو زیب نہیں دیتا کہ صرف اس وجہ سے کہ اس کی مبینہ کرپشن کے خلاف سندھ میں فوج ایکشن لے رہی ہے‘ وہ قومی سطح پر فوجی مداخلت کے متعلق واویلا مچاتی پھرے‘‘۔ اخبار نے نشان دہی کی ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ کی اپنی کمزوری ہے کہ ادارے مضبوط ہو رہے ہیں نہ جمہوری تسلسل کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے ایجنڈے پر سول سروس اصلاحات ہیں‘ نہ عدالتی اور پولیس نظام کی تبدیلی اور نہ ہی مالیاتی اداروں کو خود مختاری دی جا رہی ہے کہ وہ معاشی ترقی کے لیے کام کریں۔ ایسی معاشی ترقی جس میں روزگار کے مواقع ہوں!!
انگریزی کے ایک اور معروف معاصر نے اس سے بھی زیادہ
نوکدار نکتہ اٹھایا:
Rabbani did not explain precisely what the ppp Govt had done during its five years in power to make democracy more stable, more viable and more permanent in the country.
یعنی جناب ربانی صاحب یہ نہیں بتاتے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں جمہوریت کو ملک میں زیادہ مستحکم ‘ زیادہ ممکن العمل اور مستقل بنانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ یہ معاصر بھی یہی تجویز کرتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ ان کا رویہ کیا ہے اور وہ ماضی میں کیا کچھ کرتی رہی ہیں؟
اس سے رمق بھر بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ عسکری مداخلت کسی بھی سطح پر سول کے کسی بھی دائرۂ کار میں نہیں ہونی چاہیے۔ اختلاف ہے نہ ہونا چاہیے مگر اللہ کے بندو! یہ بھی تو دیکھو کہ مداخلت کے مواقع کون پیدا کرتا ہے؟ اگر سول حکومتیں قانون کے مطابق چلتی رہیں‘ اقربا پروری بلکہ یوں کہیے کہ خواہر پروری اوربرادر پروری سے پرہیز کر کے میرٹ پر کاروبار مملکت چلائیں تو راحیل شریف تو انسان ہیں‘ فوج فرشتوں کے پر بھی لگا کر آ جائے‘ کوئی خوش آمدید نہیں کہے گا۔ مگر حد درجہ باشعور عوام سے اگر آپ یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ سندھ کے بلڈنگ کنٹرول اور ماہی گیری سے لے کر پنجاب کے نندی پور اور ماڈل ٹائون کی ہلاکتوں تک سب کچھ دیکھ کر بھی جمہوریت کے ہار آپ کے گلے میں پہناتے رہیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے! کیا ہی اچھا ہو اگر سیاسی جماعتیں دوسروں پر پتھر مارنے کے بجائے اپنے اپنے قرطاس ابیض شائع کریں اور قوم سے وعدہ کریں کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ کیا اپنا محاسبہ کرنے سے یوم جمہوریت کا مزا کرکرا ہو جاتا ہے؟
مگر ٹھہریے! یہ سائیں ظہور کی آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ سنیے!
مائے نی مائے! میں اک شِکرا یار بنایا
چُوری کُٹّاں تے اوہ کھاندا نئیں
نی میں تن دا ماس کھوایا
ہم نے جمہوریت کی خاطر سیاسی جماعتوں کو یار بنایا لیکن ہمارے ساتھ کیا ہوا؟شکروں نے ہمارے تن کا ماس نوچ کھایا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“