مے اور ہے، جام اور ہے، جم اور
سوال ہی مقصود ہے، تو ایک سوال یہ بھی ہے، کہ کسی کو کیا حق حاصل ہے، کہ وہ 'ریاست' بناے۔ خدا کی زمین ہے، جس کا جی چاہے، جہاں مرضی آے، جاے۔ لیکن کیا ہے، کہ خدا کے بندے، خدا کی بھی نہیں سنتے۔ ادھر طورخم پہ گیٹ بنانے کا جھگڑا اٹھا، تو ایک پاکستانی پختون نے کہا، ہم مذہب تو بدل سکتے ہیں، قومیت نہیں۔ ہم افغان ہیں، لہاذا تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ جب کہ سینتالیس کے بٹوارے میں، پنجابی، کشمیری، اور بنگالی کٹ کر، ادھر ادھر ہوا۔ ریاست کی حد بندی کی گئی، لیکن یہ دوسری کہانی ہے۔
وہاں یوروپ میں، جب عدالتیں فیصلہ سناتی ہیں، کہ کس کو حجاب کرنا ہے، کس کو حجاب اتارنا ہے، تو یہاں حجاب کے حامی، یوروپ کے گن گانے والوں کے لتے لیتے ہیں؛ یوروپ کے شیدائی (ایک میں بھی ہوں) وہاں کی عدالتوں کی وکالت فرماتے ہوے کہتے ہیں، کہ جیسا دیس، ویسا بھیس۔ روم میں رہنا ہے، تو وہی کرو جو رومی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمنی کے وزیر انصاف ہیکو ماس نے اعلان کیا کہ حکومت ایک سے زیادہ شادیاں، اور نابالغ بچوں کی شادیاں تسلیم نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے، ایک سے زائد شادی کا قانون مسلمانوں ہی پہ لاگو ہوگا۔ جرمنی مذہبی ریاست نہیں، لیکن کسی کے مذہب کی اجازت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ صاف لفظوں میں شہری کے مذہبی معاملے میں مداخلت کر رہی ہے۔ گویا ہر غیر مذہبی ریاست بھی سیکولر نہیں ہوتی۔
دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ریاست، قادیانی کو کافر قرار دیتی ہے، تو روم میں رہنا ہے، تو رومی بن جاو، کہنے والے پکارتے ہیں، ریاست کو حق حاصل نہیں، کہ وہ کسی کے مذہب کا فیصلہ، یا مذہبی معاملے میں مداخلت کرے۔
یوٹوپیائی اسلامی ریاست ہی کی طرح، سیکولر ریاست بھی خیالی ریاست ہے۔ کسی بھی ریاست کے شہریوں کا ایک، یا کئی ایک نظریے ہوتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، کہ وہ ایسی قانون سازی کرے، جو مختلف نظریات کے حامل شہریوں کے درمیان نزاعی کیفیت نہ پیدا ہونے دے۔ ایسے اقدامات کرے، جو شہریوں کی فلاح کا باعث ہو؛ حکومتیں ایسا کرنے میں کتنی کام یاب ہوتی ہیں، یہی فرق ہے، زوال پذیر، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے بیچ میں۔
ریاست کہتی ہے، میرا مذہب ہے۔۔۔ ریاست کہتی ہے، میرا کوئی مذہب نہیں۔۔۔ دونوں صورتوں میں کیا فرق پڑتا ہے، جب ریاست شہری ہی سے لا تعلق ہو جاے؟ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہندستان سیکولر ازم کا جھنڈا اٹھاے ہوے ہے؛ وہاں جو کچھ ہوتا ہے، کیا وہی سیکولر ازم ہے؟ میں نہیں سمجھتا ایسا ہے۔ اسلامی ریاست کہلوانے والا پاکستان کتنا اسلامی ہے، یہ آپ ہی بتایئے۔
ایسی ریاستیں جو افکار پہ پہرے لگا دیتی ہیں، یا سکڑ جاتی ہیں، یا دم توڑ دیتی ہیں۔ انسان جب بے بسی محسوس کرتا ہے، تو وہ اپنی بے بسی کے اسباب تلاش کرتا ہے؛ یوں بھوک، افلاس، چادر اور چار دیواری سے محرومی، ذلت، جبر کے شکار شہری کو، پنڈت ہو، یا نیتا؛ ہر کوئی اپنی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ نعرے سونپ دیتا ہے۔ جسے جو نعرہ پسند آے، وہ اسی کی گردان کیے چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ نعرے دشنام سے بدل لیے جاتے ہیں۔ حق یہ ہے، کہ شہری کو انصاف ملے، تحفظ کا احساس ہو، بھوک ننگ کا سامنا نہ کرنا پڑے، سوال کی آزادی دے، تو اس کے لیے وہی آئڈئیل ریاست ہے۔ ریاست کافر ہو، یا مسلمان؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔