روسی ادب میں میکسم گورکی کا نام بلند ترین مرتبہ رکھتا ہے۔ صرف گور کی ہی ایسا ادیب ہے جو ٹالسٹائی کی طرح اکناف عالم میں مشہور ہے، اس کی شہرت چیخوف کی مقبولیت نہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کے صرف علمی طبقوں تک محدود ہے۔ گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں جنم لینے کے با وصف وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔
طبقہ اسفل کا شاعر، بیسویں صدی کا بائرن، میکسم گورکی، زندگی کی تاریک ترین گہرائیوں کے بطن سے جو جرائم، مصائب اور بدیوں کا مسکن ہے، پیدا ہوتا ہے، اس نے فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلا کر روٹی کے ٹکڑے کے لئے التجا نہ کی، اور نہ جواہری کی طرح اپنے بیش قیمت جواہرات کی نمائش سے لوگوں کی آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنا چاہی۔ نہیں ، ترہنی نو گورود کا یہ معمولی باشندہ اپنے حریت پسند افکار سے روسی ادب کی اندھی شمع کو تابانی بخشنے کا آرزو مند تھا مردہ، زرد اور بے جان ڈھانچوں میں حیات نو کی تڑپ پیدا کرنا چاہتا تھا۔
وہ منشی گری چھوڑ کر روس کی سرحدوں میں آوارہ پھرے، قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ مستقبل قریب کا شاندار ادیب اتنے عرصے تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔
خانہ بدوشی کی اس سیاحت کے زمانے میں گورکی نے اپنا قلم اٹھایا 1892ء میں جبکہ وہ طفلس کے ایک ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا، اس کا پہلا افسانہMakar Cudra جو ایک نہایت دلچسپ رومانی داستان ہے، مقامی روزنامہ اخبار’’ کوکاز‘‘ میں شائع ہوا، اس افسانے میں اس نے خود کو اپنے قلمی نام گورکی سے متعارف کرایا جواب ہر فرد بشر کی زبان پر ہے (گورکی کے لفظی معنے کڑوا یا ملول ہے)
کچھ عرصے تک گور کی اپنے صوبے کے اخباروں میں مضامین چھپوانے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اپنی تحریروں سے روپیہ پیدا کر سکے، مگر وہ در حقیقت اس وقت اعلیٰ ادب، کے ایوان میں داخل ہوا جب اس نے دوبارہ نزہنی میں اقامت اختیار کی۔ کار لنکو ان دنوں نزہنی میں تھا۔ اس نے گورکی کا افسانہ ’’چلکاش‘‘ اپنے اثر و رسوخ کے ایک موقر ماہانہ رسالے (Ruskoe Begatrtre) میں شائع کرایا، گو میکسم گورکی نے پراونشل پریس کی قلمی اعانت جاری رکھی، مگر اب پیٹرز برگ کے رسائل بھی اس کے مضامین کو شکریے کے ساتھ شائع کرنے لگے۔
1898ء میں اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان افسانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی، فی الحقیقت ایک روسی انشا پرداز کے لئے اس قسم کی شاندار کامیابی غیر مسبوق تھی، کہ کتاب کے تعارف کے ساتھ ہی گور کی غیر معروف جرنلسٹ سے ملک کا مشہور ترین ادیب بن گیا، اس کی شہرت’’ پہلے انقلاب‘‘ تک قابل رشک تھی، ملک کے تمام اخبار اس کی تصاویر اور اس کے ذکر سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے سراپا کو ایک نظر دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا بین الملکی شہرت بھی فوراً نوجوان مصنف کے قدم چومنے لگی۔ جرمنی بالخصوص، اس پر لٹو ہو گیا۔1903ء اور 1904ء کے درمیانی عرصے میں گورکی کی شاہکار تمثیل (NADNEبرلن کے ایک تھیٹر میں متواتر پانچ سو راتوں تک سٹیج ہوتی رہی۔
پیٹرز برگ میں گور کی کا وقت بیشتر’’ مارکسیوں ‘‘ کی صحبت میں گزرا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود مارکسی،بن گیا اور اس نے اپنی دو تصا نیف jhoc of thea اور (FOMA) مارکسی مجلہ (zhizn) کے سپرد کر دیں۔ یہ دونوں کتابیں اس رسالے میں بالاقساط شائع ہوئیں۔ گورکی کی ایک نظم (Song of petrel) کی اشاعت کی وجہ سے یہ رسالہ حکومت نے ضبط کر لیا (petrel) کے معنے ’’ طوفان کا پیغام لانے والا‘‘ ہیں یہ گیت آنے والے انقلاب کی ایک بے نقاب تمثیل تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔