تحریر : مو اسّی سلیار (برازیل)
مترجم : محمد فیصل (کراچی، پاکستان)
منظر نامہ:
1990 دنیا میں امن، صحت اور خوش حالی کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ دنیا میں امن ہو گیا۔ ہر شہری اپنی کار کا مالک ہے۔ دنیا سے حشرات معدوم ہو چکے تھے، بڑھتی آبادی پر قابو پا لیا گیا تھا، بیماریاں ختم ہو چکی تھیں۔ بیکٹیریا اور وائرس پر قابو پا لیاگیا تھا۔ پوری دنیا میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ سو برس کی خوش حال زندگی گزارنے کے بعد بنی نوع انسان کو خاص سرد خانوں میں سلا دیا گیا ۔ انھیں دس سال بعد وہاں سے نکال کر ایک گھنٹے کے لیے جگایا جاتا ہے۔ غربت بالکل ختم ہو چکی تھی۔ شکاگو کے ایک عجائب خانے میں ایک کچی آبادی کا ماڈل رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں بے حد رش رہتا ہے۔ ہزاروں افراد اسے بے یقینی سے دیکھتے تھے اور کہتے کہ انسان یہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟۔ ریو ڈی جنیرو میں ایک ایسی آبادی کا ماڈل محفوظ ہے جس میں حبشی عورتوں کو پہاڑی پر سے پانی لاتے دکھایا گیا ہے۔ اس ماڈل کے گردبھی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ادبی اصناف میں سائنس فکشن نامی صنف ختم ہو چکی ہے کیوں کہ اکثر سائنسی پیشین گوئیاں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ ناول ایک بار پھر سب سے معروف صنف بن چکی ہے۔
ایک شان دار دریافت
ریومیں ماہرِ بشریات پروفیسر آگستو نے ایک سنسنی خیز دریافت کا اعلان کیا ہے۔ انھیں آمیزن جنگل کے ایک دور درازگوشے میں انسانوں کی ایک نئی نسل مل چکی ہے۔
پریرا
بوڑھا، سوسالہ بوڑھا، منحنی، سپید بال، رنگ کسی زمانے میں سانولا مگر اب سیاہ، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، جنھیں وہ مسلسل جھپک رہا تھا۔ اس کے دانت جھڑ چکے تھے، نسیں بالکل پتھر، ایک ٹانگ پر زخم ناسور بن چکا تھا، اس کے جسم پر برسوں کا میل جمع تھا۔ ایک کھال نے بمشکل اس کی برہنگی چھپائی ہوئی تھی۔ اس کے پاس کار نہ تھی، اسے مریخ کے بارے میں علم نہ تھا، اس نے ماضی قریب میں ہونے والے انتخابات میں ووٹ بھی نہیں ڈالا تھا۔ اسے یونانی زبان نہیں آتی تھی اور پرتگیزی زبان کے بھی بہت کم لفظ یاد تھے۔ غار سے باہر نکالنےپر اس نےپروفیسر آگستو کے ایک نائب کے انگوٹھے پر کاٹ لیا تھا۔
ردعمل
پروفیسر آگستو نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہو ئے بتا یا کہ اس کے خیال میں یہ نسل پچاس برس پہلے معدوم ہو چکی ہے تاہم اب وہ پریرا کو لندن لے جائے گا تاکہ وہاں اس کا تفصیلی مشاہدہ کیا جاسکے۔ برازیلی حکومت نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ اس زمانے میں قوم پرستی عروج پر تھی۔ صدر البئرتو نے اعلان کیا کہ ہم پریرا کا مشاہدہ اپنے وسائل سے کریں گے جو کسی طور بھی کم نہیں۔ عوام نے ان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔پریرا کے حق میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد ہواجس میں ہر طرف ایک ہی نعرہ تھاــ’’ آئیں مل کر اپنے غریب کو بچائیں‘‘۔ سینیٹ نے پروفیسر آگستو کے خلاف قرارداد منظور کرلی اور پریرا کو قومی فقیر/غریب کا درجہ دے دیا گیا۔
حکومتی اقدامات
قومی فقیر /غریب کے لیے بجٹ مختص کر دیا گیا۔ شنگو دریا کے کنارے ایک وسیع علاقے کو قومی پارک کا درجہ دے دیا گیاجس کا نام ’’پریراقومی پارک ‘‘ رکھا گیا۔ اس کی حفاظت اور اس پر تحقیق کے لیے ایک خاص ادارہ تشکیل دیا گیا۔ ایک صاحب نے ایک کتاب تصنیف کی’’غربت کی کتھا‘‘۔ برازیل کی جامعہ میں اس فقیر پر تحقیق کے لیے ایک نشست مخصوص کر دی گئی۔
خواتین کونسل برائے پریرا کے اہم فیصلے
چند خواتین نے کونسل برائے پریرا کی داغ بیل ڈالی۔ انھوں نے رضاکارانہ طور پر پریرا کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اسے کھانا کھلاتیں، اس کے زخم پر مرہم لگاتیں، اسے وقت پر دوا دیتیں اور اسے سوتے وقت لوریاں بھی سناتیں۔ یہ خواتین اپنے ماضی اور حال کی ناامیدیوں سے اکتاہٹ ، زرد صحافیوں کے منفی ہتھ کنڈوں اور سائنس دانوں کا ان کے ہارمونزکو درست انداز میں نہ سمجھنے پربے حد دل برداشتہ تھیں۔ پریرا کی صورت میں انھیں عام معمولات سے ہٹ کر کچھ کرنے کا موقع ملا تھا اسی لیے وہ سردخانے میں جانے سے پہلے پریرا کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔
پریرا
اتنی خدمت کے بعد، آرام دہ بستر پر دراز پریرا یہی سوچتا رہتا کہ زندگی تو یہ ہے۔ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ۔ اس کی رنگت نکھر چکی تھی اور اس کی سیاہ آنکھوں میں چمک نمودار ہو رہی تھی۔
ایدریانا
پچاس برس کی ایک نرم دل اور سنجیدہ خاتون ایدریانا نے پریرا کی خدمت انجام دینے کا فیصلہ کیا اور اسے کونسل میں شامل کر لیا گیا۔وہ جی جان سے اس کی خدمت کر نے لگی۔
احسان فراموشی
ایک دن پریرا نے ایدریانا سے کہا کہ اس کے زخم کی پٹی تبدیل کر دے۔ ایدریانا نے دستانے پہنے اورچپ چاپ اس کی پرانی پٹی کھولی، زخم اگرچہ بہتر تھا مگر ابھی تک اس میں پیپ پڑی تھی۔ پریرا کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے ایدریاناسے کہا کہ وہ دستانے اتار کر زخم پر مرہم لگائے۔ ایدریانا نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ اگلے دن وہ اس زخم کو چھونے کی بدولت مر گئی۔ بیماریاں تو ختم ہو چکی تھیں لہٰذا انسانی جسم کا دفاعی نظام اتنا مضبوط نہیں رہا تھا۔
نقاب کشائی
برازیل میں ابھی ایدریانا کی موت کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ اچانک پروفیسر آگستو نے ایک اور اعلان کر دیا۔اس نے پریرا کی جائے پناہ پر بھرپور تحقیق کی او راسے وہاں سے انتہائی قیمتی سکے، ڈالر، روبل، یوآن، پاونڈز اور دنیا کے کئی ملکوں کے کرنسی نوٹ ملے۔ اس کی اس دریافت نے تہلکہ مچا دیا۔ آگستو نے برملا کہہ دیا
پریرا کو قومی فقیر/غریب کا خطاب نہیں دیا جا سکتا۔
عوام میں اشتعال پھیل گیا۔ پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے۔ صدر نے استعفیٰ دے دیا، پریرا کی حفاظت اور تحقیق کے ادارے کو بند کردیا گیا۔ خواتین کونسل بھی ختم کر دی گئی اورانھوں نے پریرا کو پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
مقدمہ
پریرا کے خلاف تمام ثبوت اور حقائق جمع کر کے دارالحکومت میں مشینی دماغ کو بھیج دیے گئے۔ مقدمہ بڑا مختصر ثابت ہوا۔ تمام ثبوتوں اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مشینی دماغ نے اسے موت کی سزا سنا دی۔ مشینی دماغ نے موت کا طریقہ بھی وضع کردیا۔
سزائے موت
پریرا کو پلاٹینم کی صلیب پرباندھ دیا گیا۔ سدھائے ہوئے عقابوں نے اس کی آنکھیں نوچ لیں اور سپاہیوں کے ایک دستے نے اسے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ لوگ زورشور سے ’’ایدریانا زندہ ہے ‘‘کے نعرے لگار ہے تھے۔
بھیانک غلطی
ابھی یہ تقریب جاری تھی کہ عدالت عظمیٰ کے سب سے بڑے منصف کو پروفیسر آگستو کا پیغام ملا کہ سکے اور نوٹ سب جعلی ہیں، پریرا واقعی ایک غریب ہے۔عوام پھر شدید جذباتی ہوگئے۔ سب نے کھل کر حکومت اور پروفیسر آگستو کو گالیاں دیں۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج طلب کر لی گئی۔ پورے ملک میں بلوے اور دنگےہونے لگے۔ معزول صدر کوبحال کر دیا گیا۔ پریرا کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ آگستو کو ملک بدر کردیا گیا۔
تلافی
مقدمہ دوبارہ مشینی دماغ کو بھیجا گیا۔ مشینی دماغ نے فورا پریرا کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس نے یہ حکم دیا کہ ہر سال ایک دن پریرا کی یاد میں منایا جائے گا۔ اس نے یہ تاریخ بھی مقرر کردی۔ یہ تاریخ بتیس جنوری تھی۔ یہ تاریخ پچھلی صدی میں کیلنڈر کا حصہ نہیں تھی مگر اس صدی میں اسے پریرا کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کے عیوض شامل کرلیا گیا ہے۔ پریرا آخری غریب۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
انگریزی میں عنوان : The Last Poor Man
مصنف کا تعارف:
مو اسّی سلیار (Moacyr Scliar)
مواسّی سلیار (پیدائش : 23 مارچ 1937ء – وفات : 27 فروری 2011ء) برازیل کے جنوبی صوبے ریو گرانڈے دو سوسےتعلق رکھنے والے ڈاکٹر اور ادیب تھے۔ ان کے آبا یہودی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور روس سے برازیل آن کر آباد ہوئے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور عوامی صحت کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1962 میں شائع ہوا۔ ان کی تخلیقات برازیل میں آباد یہودیوں کو درپیش مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ 1968 میں شائع ہوا۔ ان کا پہلا ناول 1973 میں جب کہ 1980 میں شائع ہونے والے ناول “گلستاں میں قنطور” سے انھیں عالمی شہرت ملی۔ مواسّی کی تخلیقات میں بیس ناول، گیارہ افسانوی مجموعے، بچوں کے لیے پچیس کتب، تاریخی واقعات کے کرانیکلز کے چھ مجموعے اور مضامین کے چار مجموعے شامل ہیں۔ مٔوّسیر نے بہت سی اصناف نثر میں اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تخلیقات دنیا کی بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور ان کی تحاریر پر کئی ٹی وی، تھیٹر اور ریڈیوڈراموںکے ساتھ ساتھ فلمیں بن چکی ہیں۔ ان کی تحریروں کا اختصاص اساطیری انداز ہے جس کی بدولت انھیں برازیل کے کئی ادبی اعزازات مل چکے ہیں۔ ان کے قد آور ادب کی بدولت انھیں کئی امریکی جامعات نے برازیلی ادبیات پرلیکچر دینے کے لیے مدعو کیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...