ممبئی نگری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نگری میں شعر و سُخن اور فنِ موسیقی کا یہ مسکن رہی اور کچھ فنکاروں نے اپنے اپنے فن میں ایسی ترقّی کی کہ جن کی وجہ سے یہ نگری سدا بہار اور گُل و گلزار ثابت ہوئی ، سونے پر سہاگہ یہ کہ فلمی دنیا ان کی وجہ سے بامِ عروج پر پہنچ گئی – ان میں ایک اہم نام موسیقار نوشاد کا ہے – ان کی مقبولیت اور کامیابی کی وجہ سے یہ موسیقارِ اعظم کہلائے موسیقی کی دنیا میں ان کے نام اور کام کے استحکام سے تو سبھی واقف ہیں لیکن بحیثیت شاعر ان کے چاہنے والوں میں واقفیت کم ہے – لکھنؤ کے شعری ماحول کے پروردہ نوشاد نے اپنے بارے میں اپنے شعری مجموعہ
” آٹھواں سُر” میں ایک جگہ لکھا ہے –
” مَیں نے جس لکھنؤ میں آنکھیں کھولیں، اس کی فضاؤں میں غزل کی روشنی اور ہواؤں میں شاعری کی خوشبو رچی بسی تھی – یہ وہ زمانہ تھا کہ جب محفل محفل بیدم وارثی ، عزیز ، صفی ، ثاقب ، سراج و قدیر کے چرچے تھے – نہ ریڈیو تھا – نہ ٹیلی-ویژن ، حد یہ کہ لاؤڈ-اسپیکر بھی نہیں تھے – لیکن محفلوں اور مشاعروں میں پڑھا جانے والا اچھا شعر اپنے حسن بیان اور حسن خیال کے پر لگا کر ہونٹوں کی منڈیروں اور دلوں کے آشیانوں میں بسیرا بنا لیتے تھے ایسے ماحول میں شعر و سُخن سے صرف وہی بیگانہ رہ سکتا تھا، جسے قدرت نے کور ذوقی بطور سزا عطا کی ہو ”
( ص 364 کتاب ہذا )
اس اقتباس سے ظاہر ہُوا کہ نوشاد کو اردو تہذیب کی رنگارنگی اور شعری شعور کی بنیادی تربیت لکھنؤ کے ماحول سے حاصل ہوئی اور ان کی رگ و پے میں بس گئی – اسی تہذیب کو لے کر جب وہ ممبئی آئے تو انہیں اپنی شخصیت کو اُبھارنے میں دیر نہیں لگی کیوں کہ اس زمانے میں ممبئی کے معاشرے میں اور فلمی دنیا میں اُردو کا بول بالا تھا – نوشاد کو چونکہ موسیقار بننے کی دُھن سوار تھی، جدوجہد میں لگے رہے – کہیں سازندے کے طور پر تو کہیں موسیقار کے اسسٹنٹ کے طور پر کام ملتا رہا اور یہ کام کرتے رہے – شخصیت اور کام میں ایمانداری اور محنت نے ان کا ساتھ دیا تو قسمت نے انہیں گلے لگایا اور وہ موسیقی کی دنیا میں کامیاب ترین موسیقار ثابت ہوئے – یہ تو ہُوا لیکن ان کی شاعری جو جواں عمری سے ان کی ہمسفر ہے پیچھے رہ گئی مگر نوشاد نے اسے دلار سے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا – وقتاً فوقتاً شعر کہنے اور نجی محفلوں میں سنانے کا سلسلہ جاری رہا – سنا ہے انہوں نے بہت ہی کم مشاعروں یا شعری نشستوں میں شرکت کی – ان کے بنگلے ” آشیانہ” میں جب کچھ اہلِ ذوق اور شعراء جمع ہو جاتے تو ان کی فرمائش پر نوشاد اپنا تازہ کلام سناتے – اسی سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں –
” جگر مراد آبادی کے توسط سے اُردو ادب کے بیش قیمت نگینے میرے ہاتھ آ گئے – تینوں قدر و قیمت کے اعتبار سے نایاب اور یکتائے روزگار مجروح، شکیل اور خمار کے بغیر نہ اُردو کی شعری تاریخ مکمّل ہو سکتی ہے اور نہ فلمی نغمہ نگاری کا حسن – یہ سب میرے گھر ہی مقیم ہوئے یہ بھی قسمت کی بات ہے جو ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتی یعنی اب میرا خاندان شاعروں کا خاندان تھا – مَیں نے تینوں سے جی بھر کے فائدہ اٹھایا اب شعر کہتا تو اس شعر کے حسن و صحت کے تین تین ضامن بلکہ نگہبان موجود تھے – اس طرح شعر گوئی کی دبی ہوئی چنگاری وقتاً فوقتاً شعلوں کا روپ دھارتی رہی بعد میں حسن کمال صاحب کا بھی اضافہ ہُوا – شکیل اور خمار کلاسکیت کے شیدا تھے – مجروح ترقّی پسندی کے مردِ میدان اور حسن کمال آج کی غزل کے نشہ میں چور… میں نے ان میکدوں سے جتنے بھی گھونٹ میسر آئے پی لیے جتنی بھی تشنگی بجھا سکتا تھا بجھالی – ان تمام باتوں کے باوجود نہ تو کبھی خیال آیا نہ ہمّت پڑی کہ جگر لخت لخت کو جمع کروں اور ترتیب دے کر مجموعہ کی شکل دوں، کیوں کہ خود کو مکمّل شاعر مانتے تو کیا کہتے ہوئے بھی ہمیشہ ڈر لگا، شاید اللہ کو یہ کام بزمِ فکر و فن بمبئی اور خصوصاً اس کے سرگرم کارکن جناب قتیل راجستھانی سے کرانا تھا – میرے گریز کے باوجود ان کا اصرار جیت گیا اور یہ مجموعہ آپ کے ہاتھوں تک پہنچ گیا جسے میں اب بھی کسی لائق نہیں سمجھتا ”
( ص365- 366 ، کتاب ہذا )
” بزمِ فکر و فن ” بمبئی کی طرف سے” آٹھواں سُر ” کے نام سے کتاب شایع ہوئی – ہاتھوں ہاتھ لی گئی ، ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوئی، یہ بہت پہلے کی بات ہے – ناچیز کو اس کتاب کی تلاش تھی، کوشش کے باوجود حاصل نہ ہو سکی – ایک نایاب کتاب موسیقارِ اعظم ( مُرتّب ) فاروق ارگلی ایک لائبریری میں نظر آئی جس کا مَیں نے Xerox کرکے اپنی گھریلو لائبریری میں محفوظ کر لیا – کیوں کہ یہ کتاب نوشاد کی آپ بیتی ہے کہ اس میں ان کی جدوجہد کی تقریباً ہر اہم باتیں اس میں درج ہیں اسی میں فاروق ارگلی نے مکمّل مجموعئہ کلام ” آٹھواں سُر” کو بھی شامل کر دیا – اس طرح سے یہ کتاب نوشاد کی شخصیت اور فن پر ایک مستند کتاب ہے – مَیں نے اسی میں ” آٹھواں سُر ” کا کلام پڑا – حیرت آمیز مسرت سے بہت دن تک مسرور رہا – اس کتاب میں نوشاد شناسوں کے اعتراف نامے بھی چھپے ہیں – لکھنے والے عمر انصاری ، مجروح سلطان پوری ، دلیپ کمار ، خمار بارہ بنکوی ، حسن کمال ، سیّد کریم فضلی اور قتیل راجستھانی جیسے سُخن کے پارکھ ہیں – ان کی تحریروں سے نوشاد علی نوشاد کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے –
ویسے تو سارے اعتراف نامے اہم اور معیاری ہیں – بطور مثال ناچیز عظیم اداکار یوسف خان دلیپ کمار کے مضمون کا ایک اقتباس دینا اس لیے ضروری سمجھتا ہے کہ ایک عظیم فنکار نے ایک عظیم موسیقار و شاعر کا اعتراف فراخدلی سے کیا ہے مُنفرد انداز میں کیا ہے – ملاحظہ فرمائیں-
” آٹھواں سُر” جو نوشاد صاحب کا شعری اظہار ہے سچ مچ آٹھواں سُر ہے کیوں کہ یہ ایک بندھے ہوئے ” سپتک” سے باہر ہے جب سُر آٹھواں ہوتا ہے تو وہ پلٹ کر پھر ” سا ” پر آ جاتا ہے پھر وہ ” حرفِ اوّل ” ہو جاتا ہے نوشاد صاحب کا یہ فنّی کمال ہے کہ انہوں نے اس کو بھی اپنے اظہار کے دائرے میں باندھ دیا ہے مَیں اس کی قدر کرتا ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ یہ کارنامہ صرف نوشاد صاحب ہی انجام دے سکتے تھے اصل میں نوشاد صاحب کے باطنی حسن کو الفاظ کے دائرے میں محیط کرنا اوروں کے لیے تو کیا خود نوشاد صاحب کے بس میں نہیں ہے – یہ مجموعہ بھی ان کے باطنی حسن کا محض ایک عکس ہے مکمّل اندرونی کیفیت کا ترجمان نہیں ہے، ان کے باطنی حسن کی بات ہی کچھ اور ہے – جس طرح نوشاد صاحب کی موسیقی نے دلوں کو فتح کر لیا ہے اسی طرح ان کی شاعری بھی معراج کی انہیں منزلوں تک پرواز کرے گی ”
( ص 351 _352 کتاب ہذا دلیپ کمار )
کتاب ” آٹھواں سُر ” نعتِ رسول اکرم سے شروع ہوتی ہے – اس کے بعد” یومِ جمہوریہ ” کے عنوان سے ایک طویل نظم ہے جس میں امن شانتی اور بھائی چارہ کا پیغام ہے – یہ نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے –
صلح کے گیت سناؤ کہ جشن کا دن ہے
مناؤ جشن مناؤ کہ جشن کا دن ہے
بابِ غزل کی پہلی غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیں –
آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گذروگے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا
غزلیں چھوٹی بڑی بحروں میں ہیں جو غزل کے تقاضوں کو پورا کرتی نظر آتی ہیں – یہ بحریں ایسی ہیں جن میں موسیقیت ہے شاعر نے الفاظ کا انتخاب ایسا کیا ہے کہ لفظوں میں سُر اور سُر میں لفظ گھُل مل گئے ہیں اور شاعر کے خیال اور اس کے جذبے کو ظاہر کرتے ہیں زبان ایسی رواں ہے کہ پڑھتے وقت اپنی معنویت کے ساتھ الفاظ میں نغمگی سی محسوس ہوتی ہے – بحر طویل ہو کہ مختصر ہو یا اوسط قاری اپنی کیفیت سے گذرتا ہے – مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں –
پہلو میں کہاں دل جو سنبھالے کوئی نوشاد
اک داغ کی صورت میں نشاں چھوڑ گیا ہے
ناگن ہی جانئے اسے دنیا ہے جس کا نام
لاکھ آستیں میں پالیے ڈستی ضرور ہے
مُنصفِ وقت آخرش تجھ کو بھی چپ سی لگ گئی
میرا سوال پوچھ کے ان کا جواب جان کے
یہ کیا کہ میکدے میں رہوں اور تشنہ لب
کچھ تو ادھر بھی چشمِ عنایات کیجئے
ہم نہ عیسٰی نہ سرمد و منصور
لوگ کیوں سوئے دار لے کے چلے
مَحبّت پر اداسی چھا رہی ہے
ہے کیا انجام اور کیا ابتدا تھی
ہم پہ ہنستے ہیں جو کچھ لوگ انہیں ہنسنے دو
زندہ رہنے کا ہمارے انہیں ڈھب کیا معلوم
عشق میں اور قرار کیا معنی
زندگی تک حرام ہوتی ہے
راہ دشوار ہے بے سایہ شجر ہیں سارے
دھوپ ہے سر پہ قدم تیز بڑھاتے چلئے
کتنے دل برباد کروگے
ہائے لگی تو یاد کروگے
تم نہ سمجھوگے یہ راز کی بات ہے، یہ ملاقات بھی کیا ملاقات ہے
پیاس آنکھوں کی بس تم بجھاتے رہو، آگ دل کی بجھانا ضروری نہیں
امر تیرے غم کو بنانے کی خاطر ، زمانے کو رستہ دکھانے کی خاطر
بجھا پائیں جن کو نہ پھر آندھیاں بھی، وہ شمعیں جلانے کی کوشش کروں گا
” آٹھواں سُر” کی غزلیں معیاری انتخاب کی گواہ ہیں – اس منتخب کلام میں سے ناچیز نے اپنی سمجھ بوجھ اور اپنی بساط کے مطابق مندرجہ بالا اشعار کا انتخاب کیا ہے جو مُجھے پسند ہیں اور ان میں کچھ اشعار تو مجھے یاد بھی ہو گئے – یہ شاعر کی سحر کاری نہیں تو پھر اور کیا ہے –
غزلوں کے علاوہ اس کتاب میں لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کی گائیکی پر اعترافیہ نظمیں بھی ہیں ” ماڈرن میوزک” نام کی طویل نظم ہے جو طنزیہ ہے مگر آخری شعر دیکھئے دعائیہ ہے –
نوشاد دعا کرتا ہے بس ہاتھ اٹھائے
سنگیت کی کشتی کو خدا پار لگائے
حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد جب نوشاد صاحب کو دل کی تکلیف زیادہ بڑھی تو آپریشن کے لیے امریکہ تشریف لے گئے اس موقع پر کی گئی ان کی شعر گوئی متاثر کن ہے – یہ نظم اپنے طرز کی پہلی نظم ہے جو آپریشن کے مختلف مراحل میں کہی گئی ہے – یہ طویل کلام لاجواب و منفرد ہے – اس نظم کے آخری اشعار” ہوش آنے کے بعد” – ملاحظہ فرمائیں –
جب کھلی آنکھ تو بس ایک کسک باقی تھی
جلوہ روپوش تھا جلوے کی دمک باقی تھی
میرے اطراف کھڑے لختِ جگر تھے میرے
قرۃالعین مرے نور نظر تھے میرے
چارہ گر میرے مسیحا مرے ہمراز مرے
دردِ پہنانی کے سب مونس و دمساز مرے
ذہن میں بس تھا یہی کچھ بھی نہیں الاللہ
کچھ نہیں ہے یہ زباں اور یہ زمیں الاللہ
(ص 450)
لکھنؤ کی سرزمین پر شیعہ سُنّی فسادات کوئی نئی بات نہیں لیکن ہے تو دکھ کی بات کہ اس سے دونوں فرقوں کے افراد کا نقصان ہوتا ہے اور قوم کی بدنامی سے کوفت الگ ہوتی ہے – یہ اس وقت نہیں ہُوا کرتا تھا جب نوشاد لکھنؤ میں تھے – اختلافات ہوتے بھی تھے تو رفع دفع ہو جاتے تھے – پتہ نہیں وہ کونسا شیعہ سُنّی فساد کب ہُوا کہ نوشاد کا درد مند دل تڑپ اٹھا اور دل کی صدا نظم کی صورت اختیار کر گئی اس کتاب میں ایک طویل نظم بعنوان
” لکھنؤ کے شیعہ سُنّی فساد سے متاثر ہو کر ” انہوں نے کہی – یہ نظم بے حد متاثر کرنے والی نظم ہے جو ان دو مصرعوں سے شروع ہوتی ہے –
کوئی مُجھے بتا دے وہ لکھنؤ کہاں ہے
تہذیب اور ادب کی وہ آبرو کہاں ہے
اسی طرح نوشاد کی ایک نظم 1984.ء میں بھیونڈی کے المناک فساد پر اسی عنوان کے تحت کہی گئی ہے – یہ نظم ان دو مصرعوں سے شروع ہوتی ہے –
سب کچھ دھواں دھواں سا تھا سب کچھ جلا ہُوا
منظر بتا رہا تھا یہاں کیا تھا کیا ہُوا!
یہ نظم بھی نوشاد کی درد مندی، انسانیت پسندی کی ایک مثال پیش کرتی ہے – نوشاد نے اپنے ساتھی کلا کارواں کے بچھڑنے پر بھی کچھ نظمیں کہی ہیں جسے کندن لال سہگل، استاد بڑے غلام علی خان، استاد امیر خاں ، موسیقار مدن موہن ، محمد رفیع ، مکیش پر منظوم خراجِ عقیدت یاد رکھی جائے گی –
ایس ڈی برمن کو سنگیت ناٹک اکیڈمی کے ایوارڈ کے موقع پر اور شنکر جئے کشن کو پدم شری ایوارڈ ملنے پر نوشاد نے اعترافی قطعات کہے –
ان نظموں کے علاوہ اس کتاب میں نوشاد کے کچھ گیت شامل کیے گئے ہیں جن کے مکھڑے ہیں –
مَیں پریم نگر کا جوگی + مَیں جنم جنم کا روگی
ساون کے پھر بادل چھائے + پریم سندیسہ لے کر آئے
دنیا سے پایا تونے بتا کیا + سب کچھ لُٹا کے تجھ کو ملا کیا
بعنوان ” معرفت”
کئے جا سب کا بھلا
آج سب کچھ ہے ترا
کل کا ہے کس کو پتہ!
” آٹھواں سُر ” کے مطامعے سے یہ ثابت ہُوا کہ نوشاد جتنے بڑے موسیقار تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے – وہ اپنی شاعری پر مزید توجہ دیتے تو ان کا مقام اور بلند ہوتا – ناچیز کی رائے کی تائید مجروح سلطان پوری کی اس رائے سے بھی ہوتی ہے جو کہ سند کا درجہ رکھتی ہے ملاحظہ فرمائیں –
” مختصر یہ کہ نوشاد صاحب کے اشعار کو پڑھتے اور سنتے وقت یہ تسلیم کر کے چلنا پڑے گا کہ وہ ایک فطری موزوں طبع سُخن گو ہیں – نوشاد صاحب کے مجموعئہ کلام” آٹھواں سُر ” پر یہ تمہید ضروری تھی کہ علم کتاب کچھ اور ہے علم شعر کچھ اور جب کہ مَیں ان کے باہمی ربط سے انکار نہیں کرتا بالخصوص ہماری غزل میں جنوں کو خرد پر فوقیت اس لیے ہے کہ وجدان کے ذریعے جب ہم کسی نکتہ تک پہنچتے ہیں تو خرد ہمارے راستے ہی میں رہ جاتی ہے – چنانچہ نوشاد صاحب بھی اگر اچھّے شعر کہیں حیرت سے ان کا منھ تکنے کے بجائے بے ساختہ اس کی داد دیجئے ”
( ص 348-349 کتاب ہذا مجروح سلطان پوری )
نوشاد علی نوشاد کے اس شعر پر ناچیز اپنی گفتگو ختم کرنا مناسب سمجھتا ہے –
یہ دنیا جب تلک قائم ہے نوشاد
ہمارے گیت دہراتی رہے گی