10 مارچ مسلمانوں اور برصغیر پاک و ہند کا ایک عظیم مفکر , دانشور اور انقلابی لیڈر امام انقلاب حضرت مولانہ عبید اللہ سندھی رح کی پیدائش …
مولانا عبید الله سندھی ایک تعارف مولانا سندھی رح کی داستان زندگی کسی الف لیلیٰ سے کم نہیں ہے ان کے کمالات بے شمار ہیں اور ان کی شخصیت طلسماتی۔ ٢٨ مارچ ١٨٧٢ کو ایک سکھ گھرانے میں جنم لیا لیکن ہدایت آپ کے نصیب میں رب کائنات نے لکھ رکھی تھی اور ایک سکھ بچے سے دین اسلام کی ایک بڑی خدمت کا لیا جانا مقدر ہو چکا تھا..مڈل کی تعلیم کے دوران مولانا عبید الله پائلی کی کتاب " تحفتہ الہند " پڑھی اور انکے کے قلب میں ایمان کی شمع روشن ہوئی رہی سہی کثر شاہ اسمعیل شہید رح " کی تقویت الایمان " نے پوری کردی .. آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام اس کتاب کے مولف کے نام پر رکھنا مناسب سمجھا کہ جن کی کتاب پڑھ کر آپ کے دل میں ایمان نے گھر کیا تھا ….مولانا سندھی کی تحریکی زندگی کا اصل رخ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب دیوبند میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن رح کی صحبت حاصل ہوئی ..مولانا سندھی کا شمار تحریک ریشمی رومال کے مجاہدین اول میں سے ہوتا ہے آپ کے ذمے شیخ الہند رح کی جانب سے محاز افغانستان لگایا گیا تھا ١٩١٥ میں آپ شیخ الہند رح کے کہنے پر ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے امیر امان الله خان کو انگریزوں کے خلاف جہاد کیلیے تیار کرنے کا سہرا مولانا سندھی رح کے سر ہے …….افغانستان سے آپ نے روس نقل مکانی کی اور پھر وہاں سے ترکی کی جانب مسافرت اختیار کی …….. مولانا سندھی رح کی عظیم ترین خدمات میں سے ١. جہاد افغانستان کی آبیاری . ٢. جمیعت الانصار کا قیام . ٣.علوم قرآنی کی ترویج ٤. فکر ولی الہی کا احیاء شامل ہیں مولانا سندھی کے تلامذہ میں موسیٰ جار الله اور مولانا احمد علی لاہوری رح جیسی عظیم شخصیات کا نام شامل ہے ……. ٢٢ اگست ١٩٤٤ کو آپ نے دین پور میں رحلت فرمائی اور آپ کا جسد خاکی وہیں مدفون ہے.
امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی رح کے افکار;
مولانہ عبیداللہ سندھی رح مسلمانوں کے لئے فرماتے ہیں;
(1) ہم پر ( جو قرآن کریم کو ماننے والے ہیں ) قطعی طور پر لازم ہے کہ ہم تمام اقوام ِ عالم کے سامنے ثابت کردیں کہ انسانیت کے ہاتھ میں قرآن کریم سے زیادہ درست اور صحیح کوئی پروگرام نہیں ۔ پھر ہم پر یہ لازم ہے کہ جو لوگ قرآن کریم پر ایمان لا چکے ہیں ۔ ان کی جماعت کو منظم کیا جائے ۔ خواہ وہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہم ان کی کسی اور حیثیت کی طرف نہ دیکھیں، بجز قرآن کریم پر ایمان لانے کے پس ایسی جماعت ہی مخالفین پر غالب آئے گی ، لیکن ان کا غلبہ انتقامی شکل میں نہیں ہو گا ، بلکہ ہدایت اور ارشاد کے طرق پر ہو گا ۔ جیسا کہ والد اپنی اولاد پر غالب ہوتا ہے ۔ اب اس نظام کے خلاف جو بھی اٹھ کھڑا ہو گا وہ فنا کردینے کے قابل ہوگا۔ (ترجمہ از الہام الرحمٰن)
(2) ظالم بزدل ہوتے ہیں اور لڑائی میں شجاعت کے ساتھ موصوف وہی لوگ ہوتے ہیں جو عادل ہوں اور قتال فی سبیل اللہ صرف عادل ہی کر سکتا ہے(ترجمہ از الہام الرحمٰن)
(3) میرا یہ غیر متزلزل یقین اور عقیدہ ہے کہ اسلام کا مستقبل بڑا روشن اور شاندار ہے ۔ بے شک اسلام پوری قوت اور توانائی کے ساتھ ایک بار پھر ابھرے گا لیکن خارج میں اس کا ڈھانچہ وہ نہیں رہے گا جو اس وقت ہے ( ذاتی ڈائری)
(4) جو امت قرآن کریم کا پروگرام نہیں اپنائے گی ۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گی
مسلمان قرآن کی عالمی تنظیمی دعوت کا پروگرام لے کے اٹھے اور پھر وہ اپنی اس تنظیمی دعوت میں کامیاب ہوئے اور یہ صرف پچاس سال کی مدت یعنی واقعی صفین کی تحکیم تک ہوا۔ اب جب کوئی امت اپنی تنظیمی دعوت لے کر اٹھے گی تو وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہو گی جب تک قرآن کے پروگرام کو نہ اپنائے.