مولانہ رومی رح پر میری ایک مختصر سی تحریر:
جلال الدین رومیؒ ایک صوفی بزرگ اور فارسی زبان کے نامور شاعر تھے۔
٭ آپ کےصوفیانہ کلام نے تمام دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا جس کی وجہ سے آپ کو جدید دور کے شعراء میں بھی منفرد مقام حاصل ہے۔
٭ آپ نے اپنی زندگی میں سیاسی عدم استحکام اور حکومتوں کے داخلی انتشار کی وجہ سے بہت زیادہ عرصہ سفر میں گزارا۔
٭ 12155ء میں وسطی ایشیاء میں منگولوں کی دراندازی کے بعد علامہ رومیؒ کا خاندان آہستہ آہستہ مغربی ممالک میں منتقل ہو گیا۔
٭ آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ عراق کے دارالحکومت بغداد، ایران اور پھر حج کے لیے مکہ کا سفر کیا۔
٭ آخر کار آپ کا خاندان مستقل طور پر کونیا (موجودہ ترکی) میں آباد ہو گیا۔
٭ آپ کی پرورش اسلامی ماحول میں ہوئی اور آپؒ قرآنی تعلیمات سے بہت اچھی طرح آگاہ تھے۔
٭ آپ بہت بڑے دانشور تھے اور لوگ آپ کے علمی مقام کے معترف تھے۔
٭ صرف 255 سال کی عمر میں کونیا (موجودہ ترکی) کے ایک اسلامی مدرسے نے آپ کو جید عالم کے اعزاز سے نوازا۔
٭ صوفیانہ طرز زندگی کے ساتھ ساتھ آپ فقیہہ بھی تھے اور کونیا (ترکی) کی مختلف مساجد میں خطبات بھی دیا کرتے تھے۔
٭ 12144ء میں ایک صوفی بزرگ، درویش اور فقیر (شاہ شمس تبریزؒ) نے آپ کی زندگی میں روحانی انقلاب برپا کر دیا۔
٭ آپ حضرت شمس تبریزؒ کی شخصیت سے بہت ذیادہ متاثر ہوئے اور آپ نے ان کو اپنا روحانی پیشوا اور اُستاد بنا لیا۔
٭ شاہ شمس تبریزؒ کے زیر سایہ آپ نے دنیاوی تعلیمات میں دلچسپی لینا کم کر دی اور صوفیانہ طرز زندگی اختیار کر لی جس کو وہ دل کا راستہ بھی کہتے تھے۔
٭ آپ نے اپنی زندگی صوفی ازم اور روحانیت کے لیے وقف کر دی۔
٭ صرف چار سال بعد شاہ شمس تبریزؒ انتقال فرما گئے۔ ان کی وفات کا جلال الدین رومیؒ کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑا۔ اس درد کا اظہار ان کے شعری مجموعے ’’دیوان شاہ شمس تبریز‘‘ جیسی بہترین شاعری کی صورت میں ظاہر ہوا۔
٭ آپ کی شاعری آپ کی روحانیت کی عکاس ہے۔ خاص طور پر آپ نے روحانیت کے ذریعے عشق مجازی سے نکل کر عشق حقیقی کا سفر اختیار کیا۔
٭ اگرچہ آپ کی شاعری کا خاص موضوع روحانیت اور عشق حقیقی یا عشق الٰہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مذہبی رواداری، اعتقادات، اخلاق، سخاوت، اچھائی اور تربیت کے موضوعات پر بھی بہت زور دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے محبت کی اہمیت اور حقیقت کے بارے میں بھی درس دیا۔
٭ مولانا رومیؒ یقین رکھتے تھے کہ شاعری اور اسلامی ثقافت خدا تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔
٭ مولانا رومیؒ کی شاعری کا بنیادی ماخذ قرآن ہے۔ ان کی شاعری میں آپ کو روحانیت اور محبت دونوں کا عکس نظر آئے گا۔
٭ شاعری کے اس خاص انداز کی وجہ سے ان کی زندگی میں ہی دنیا کے مختلف مذاہب کے افراد ان کی شخصیت اور شاعری کے گرویدہ تھے۔
٭ آپ 17 دسمبر 1273ء کو کونیا (ترکی) میں انتقال فرما گئے۔
آپ کاایک مشہور شعر ہےجس کا مفہوم یہ ہے:
’’جب ہم دنیا سے چلے جائیں تو ہمیں ہمارے مقبروں میں مت تلاش کرو بلکہ لوگوں کے دلوں میں ڈھونڈو‘‘۔
آپ کے جنازہ کی تقریب جو کہ تقریباً ایک مہینہ تک جاری رہی، میں ترکی کے مسلمانوں کے علاوہ فارس (ایران) اور یونان کے لوگوں نے بھی شرکت کی اور تمام دنیا سے عیسائی اور یہودی اقوام نے بھی اپنے دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
مولانا رومیؒ کی میراث:
مولانا رومیؒ کی شاعری اور تعلیمات درویش اور صوفیانہ طرززندگی اختیار کرنے والوں کے لیے بہترین مشعل راہ ہے۔ مولانا رومیؒ نے اسلامی صوفی ازم کی بنیاد رکھی جس کو وہ قرآن سے مربوط قرار دیتے تھے۔ وہ اسلام کو ایک جمود اور ساکت مذہب نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے اسلام کی تفسیر بہترین انداز میں کی کہ اسلام انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اسلام ایک متحرک دین اور وقت اور حالات کے مطابق ہر مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔