(Last Updated On: )
بھارت کی آزادی کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقع پر حکومت ہند کے ذریعہ آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے۔۱۵؍ اگست ۲۰۲۲ء سے ۷۵ہفتہ قبل اس پروگرام کی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ایسے موقع پر ان ہستیوں کو یاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے جن کے خون کے قطروں سے لفظ آزادی لکھا جانا ممکن ہو سکاساتھ ان حضرات کی سعی جمیلہ پر بھی نگاہ ڈالنی ہوگی جنھوں نے آزاد ہندوستان کی ترقی کا خاکہ تیار کیا۔ ان سر بر آوردہ شخصیات میں مولانا ابو الکلام آزاد کا نام سنہری حروف میں لکھا جا نا چاہئے جنھوں نے اس وقت ایسا تعلیمی خاکہ تیار کیا جس پر آج بھی ہندوستانی تعلیم کا انحصار ہے۔
آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند نے ان کے یوم پیدائش یعنی ۱۱ /نومبر کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کا اعلان کیا جو ۲۰۰۸ء سے ملک کے تعلیمی و رفاہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں یوم تعلیم کے نام سے منایا جا رہا ہے۔ مولانا آزاد نے ۱۵ /جنوری ۱۹۴۷ ء کو وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا اور ۲/فروری ۱۹۵۸ء تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ ۱۹۴۷ء میں بابو راجندر پرساد کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا ۔اس وقت گاندھی اور نہرو نے اس خالی عہدے پرمولانا آزاد کی شکل میں ایک وزیر تعلیم مقرر کر دیا۔مولانا ملک کے حالات سے بخوبی واقف تھے جس کے پیش نظر وہ نوجوانوں کی اصلاح اور اقدار سلیم کے خواہاں تھے۔ ان کی ہمہ گیر و ہمہ جہت صلاحیت کا جس شعبے میں سب سے عمدہ مظاہرہ ہوا وہ تعلیم کا میدان ہے۔ انھوں نے تقریباً گیارہ برس تک ملک کے لئے تعلیمی خدمات انجام دیں۔وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے یہ عزم کیا کہ وہ ہندوستان میں ایک اتنے مضبوط تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالیں کہ آنے والی نسلیں اس پر عالی شان محل تعمیر کر سکیں۔
مولانا آزاد مختلف کمالات کا منبع تھے ۔ ان کی شخصیت علوم وفنون کا مصدر اور مرکز تھی۔ علم و فضل، دین و افکار، فلسفہ و حکمت، شعر و نغمہ ، تصنیف و تالیف، خطابت، صحافت اور سیاست ، غرض کون سا ایسا علم و ہنر کا میدان تھا جو ان سے اچھوتا رہا ہو۔سیاسی تدبر ایسا کہ مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو جیسے قوم کے عظیم رہنما آپ سے مشورہ کرتے اور آپ کی علمی و سیاسی بصیرت کا لوہا مانتے تھے۔وہ ایک مفکر تعلیم اور ماہر تعلیم بھی تھے۔ ملک میں تعلیم کے فروغ کے لئے بے حد فعال اور حساس تھے۔ انھوں نے وہ تعلیمی نظام اور فلسفہ ترتیب دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
مولانا کے تعلیمی فلسفہ کی اساس مشرقی افکار اور مغربی نظریات میں ہم آہنگی و توازن پر ٹکی تھی۔وہ نصاب و درس کے تعلق سے جدیدیت کے اور طریقۂ تعلیم کے لحاظ سے قدیم کے قائل تھے۔ ایک عالم دین اور مشرقی اقدار کے علمبردار ہونے کے باوجود وہ سائنس اور مغربی ٹکنا لوجی کی تعلیم کو ملک کی ترقی کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے انھوں نے فروری ۱۹۴۸ء لکھنٔو میں دارالعلوم کے سربراہوں اور مدارس و مکاتب کے ذمہ داروں کے ساتھ ایک کانفرنس کی اور ان سے جدید ٹکنالوجی کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کی بات کہی۔انھوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد روزی روٹی کی فراہمی کے ساتھ کردارسازی کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ ان کے تعلیمی نظریات کی بنیاد چار امور پر استوار ہے۔۔
۱۔ذہنی بیداری ۲۔اتحاد و ترقی ۳۔مذہبی رواداری ۴۔ عالمی اخوت
پٹنہ یونیورسٹی کے جلسۂ تقسیم اسناد میں مولانا نے فرمایا۔۔۔تعلیم پر ابھی ہمارا کوئی کنٹرول نہیں کیونکہ اس پر غیر ملکی حکومت کا قبضہ رہا ۔ انگریزوں نے اپنے طریقۂ تعلیم سے نوجوان نسل کے لئے دو خطرناک نظرئے پیدا کردئے۔ غلامی اور علاحدگی پسندی۔انگریزوں کا مقصد حکومت کے لئے ایسے کارندے تیار کرنا تھا جو ان کے کام آ سکیں۔لہٰذامولانا آزاد نے آزاد بھارت کے تعلیمی منشور میں غلامی کی جگہ آزادی اور تعصب کی جگہ مذہبی رواداری کو فروغ دیا۔جس کی بدولت ہم اپنے شاندار ماضی پر ناز کر سکیں۔ انھوں نے انگریز فرقہ وارانہ نظام تعلیم رد کر دیا اور ایک نیا نظام تعلیم قائم کیا ۔ اس کے لئے انھوں نے مختلف کمیشن قائم کئے کانفرنس اور سمینار کئے۔ اس طرح سکیولرزم اور قومی اتحاد کے مقصد کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے انفرادی تعلیم کی بجائے قومی تعلیم کا تصور پیش کیا۔ ۱۹/اپریل ۱۹۴۹ء کو یونیسکو کے نیشنل کمیشن کی افتتاحی تقریب میں آپ نے فرمایا کہ اس ادارہ کی کئی شاخیں ہندوستان میں سائنس کے میدان میں اپنے پراجکٹ چلاتی ہیں۔ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔
۱۹۵۰ ء میں آزاد نے سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے اجلاس میں تقریر کے دوران فرمایا کہ ٹیکنیکل تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے ان کا پروگرام یہ ہے کہ موجودہ درسگاہوں کی ترقی و توسیع ہو۔تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی مرمت اور توسیع ہو۔ نئی مشینیں منگوائی جائیں۔ جدید تعلیم سے آراستہ استادوں کا تقرر ہو۔ مولانا صرف کہتے نہیں تھے بلکہ اپنے قول کو عملی جامہ بھی پہنا دیتے تھے۔ انھوں نے کلکتہ کے قریب ہگلی میں حکومت بنگال سے ایک ہزار ایکڑ زمین لے کر ایسٹرن ہائر ٹیکنولاجی انسٹیٹیوٹ کا افتتاح کیا۔ اگست ۱۹۵۱ء میں وہاں فرسٹ ائیر کی پہلی کلاس چل گئی۔ ۱۸/اگست کو کھڑگ پور انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں
ٹیکنیکل تعلیم کے ذرائع اپنے ملک میں اتنے مضبوط کرنے ہیں کہ اس کے حصول کے لئے ہمیں غیر ملک نہ جا نا پڑے۔۱۹۵۱ء میں ہی شانتی نکیتن کو سینٹرل یونیورسٹی کا درجہ دلوایا۔ان کے مطابق تعلیمی نظام کوئی بھی ہو لیکن اساتذہ کی بہبود کے بغیر کسی قسم کی تعلیمی بہبود ممکن نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جو اچھا ہے وہ جہاں کہیں سے ملے لے لو اور جو برا ہے اسے وہیں چھوڑ دو۔ ان کے نزدیک سکنڈری سطح تک تعلیم کو مفت ہونا چاہئے تھا۔ تعلیم بالغان کا تصور پیش کرنے والے مولانا آزاد ہی تھے۔ وہ تعلیم نسواں کے بھی زبردست حامی تھے۔ان کا ماننا تھا کہ تعلیم صرف کتابی علم کا نام نہیں۔ ہندوستانیوں کو اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی آگہی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی پروفیشنل تعلیم ، فنون لطیفہ اور صنعت اور حرفت سے واقفیت کو بھی اہل وطن کے لئے ضروری سمجھا۔ اپنے اس نظرئے کو عملی شکل دینے کے لئے سب سے پہلے انھوں نے ملکی اور ریاستی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی ۔ لہٰذا ان کی زیر نگرانی انگنت اسکول و کالجز اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دوران تحقیق کے مختلف مراکز بھی وجود میں آئے ۔
۱۹۵۰ءمیں انڈین کائونسل فار کلچرل رلیشنس یعنی ICCRکا قیام
۱۹۵۱ء میں سیرو اکیڈمی
۲۸ دسمبر ۱۹۵۳ء کو یو جی سی کا پہلا اجلاس ہوا گو کہ اس کا قیام ۱۹۴۵ء میں عمل میں آ چکاتھا۔
۱۳ مارچ ۱۹۵۴ء کو نیشنل اکیڈمی آف لٹرز بنی جو بعد میں ساہتیہ اکیڈمی ہوئی۔
CSIRیعنی کائونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل رسرچ
ٰICSSRیعنی انڈین کائونسل فار سوشل سائنس رسرچ
Institute of International Studiesجو آج جواہر لعل نہرویونیورسٹیجانی جاتی ہے۔
سنگیت اور للت کلا اکیڈمی وغیرہ
ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لئے ۱۹۵۳ءمیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن وجود میں آیا ۔ اس کاکا م اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سہولیات فراہم کرنا تھا۔ وزیر تعلیم رہتے ہوئے مولانا آزاد نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ۱۹۵۶ء میں زیادہ وسائل عطا کئے ۔ان کے تعلیم سے متعلق پانچ پروگرام اس طرح تھے۔۔
۱۔ اسکول جانے والے بچوں کے لئے بس کی سواری کا انتظام ہو ۲۔ ناخواندہ بالغوں کو سماجی تعلیم دی جائے ۳۔ سکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند ہو ۴۔ قومی ضرورت کے لئے فنونی اور سائنسی تعلیم ہو ۵۔ فنون لطیفہ کو فروغ دیا جائے۔
مولانا آزاد کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں ذیل کے ادارے ان سے منسوب کئے گئے ؎
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد
مولانا آزاد نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالاجی، بھوپال
مولانا آزاد میڈیکل کالج، نئی دہلی
مولانا آزاد انسٹیٹیوٹ آف ڈنٹل سائنسز، نئی دہلی
مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن ،نئی دہلی
مولانا ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر، نئی دہلی
وہ مشرق اور مغرب کے نظریوں میں میل پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انھوں نے ہندی زبان میں سائنس کی اصطلاحیں بڑھانے پر زور دیا۔ ان کا ماننا تھاکہ اپنی زبان میں علوم و فنون سیکھنا زیادہ سود مند ہے ۔ اس سے ہمارے ملک کی ترقی و توسیع ہوگی جب کہ غیروں کی زبان میں سیکھا گیا علم اکثر و بیشتر غیر ملکوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی زبان میں علم و فن حاصل کر لینے کے بعد ہمارے لوگ با آسانی دوسرے ملکوں میں زندگی گذار لیتے ہیںاور خود ان کا ملک ان کی خدمات سے محروم رہ جاتا ہے۔
تعلیم بالغان کا تصور انھوں نے پیش کیا تو کہا کہ ہم زیادہ انتظارنہیں کر سکتے ۔ بچے ابتدا ئی تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ سطح تک پہنچیں گے تب تک ایک دہائی گذر چکے گی۔ اگر ہم اپنے ہنر مند لوگوں کو خواندہ بنا دیں تو اس کے مثبت نتائج فوراً بر آمد ہوں گے۔ اس کے لئے بڑی عمر کے لوگوں کو ہمیں اپنا مقصد سمجھانا ہوگا اور اس کے بعد کاغذ قلم ان کے ہاتھ میں تھما کر مشق کروانی ہوگی۔ چوںکہ وہ سمجھدار لوگ ہیں اس لئے ملکی مفاد فوراً فروغ پائے گا۔
اسی طرح عورتوں کی تعلیم پر انھوں نے اس لئے زور دیا کہ انھیں محسوس ہوا کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی صاحب عقل و ہوش ہیں ۔ گھریلو ذمہ داریوں کو انجام دینے کے بعد جو وقت بچتا ہے اس کا مصرف علم کے حصول کے لئے ہو تاکہ بچوں کی پرورش بہتر طریقے سے ہو ساتھ ہی ملکی مفاد میں عورتیں بھی اپنا تعاون دیں۔ اس سے ایک طرف اگلی نسل کی آبیاری ہوگی تو دوسری طرف ملکی ضرورتیں پوری ہوں گی۔
مدارس کے نصاب میں سائنس کو شامل کئے جانے کی بات کئی زاوئے سے فائدہ مند ثابت ہوتی۔ اول تو یہ کہ تعلیم گاہ کی تعمیر از سر نو نہیں کی جانی تھی۔ موجود وسائل میں صرف سائنس سے متعلق ذرائع کا اضافہ کر کے ملک کی ضرورت کے اعتبار سے مدارس سے ہی انجینئیر اور ڈاکٹر اور دیگر ماہرین پیدا ہو جاتے۔ آئی آئی ٹی اور دیگر ادارے بعد میں قائم ہوتے رہتے۔ اس سے آزاد ہندوستان میں ماہرین علوم فنون بہت
کم مدت میں اس خلا کو پر کر دیتے جو خارجیوں کے ہندوستان چھوڑنے پر پیدا ہو گیا تھا۔
بنیادی طور پر مولانا تعلیم میں روحانیت اور مادیت کا امتزاج دیکھنا چاہتے تھے۔وہ جدید سائنس کو اس طور پر عام کرنا چاہتے تھے کہ اخلاق دین و فلسفہ، ایک ساتھ رہیں۔ اس کے ذریعے قومیت کی جگہ بین الاقوامیت اور تعصب کی جگہ انسانیت کو فروغ ہو۔وہ تعلیم کو ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ اور اسے تمدن کے تابع دیکھنا چاہتے تھے۔
الغرض مولانا ابو الکلام آزاد اس سچائی پر یقین رکھتے تھے کہ تعلیم کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تعلیم کے ذریعے ہی اس ملک کو ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی فہرست میں لایا جا سکتا ہے۔ان کی نگاہ میں قومی نظام تعلیم ملک کے نظام کا ناگذیر حصہ ہے۔ انھوں نے وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے تعلیم کے فروغ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔
****
پروفیسر صالحہ رشید
صدر شعبہ عربی و فارسی