(Last Updated On: )
گاہے گاہے ہی سہی نام لیا کرتے ہیں
ہم ، بہر حال تمہیں یاد کیاکرتے ہیں
یاد ہے، آپ کی بے باک صحافت ہے یاد
رعبِ کردار، وہ بے لاگ سیاست ہے یاد
آپ کا غلغلہ و شورِ خطابت ہے یاد
آپ کی، آخری تقریرِ عدالت ، ہے یاد
پیکرِ صدق و صداقت تھی تمہاری ہستی
علم و عرفاں کی مورت تھی تمہاری ہستی
یہ نہ سمجھو کہ بھلا دی ہیں یہ ساری باتیں
آج بھی یاد ہیں بہتوں کو تمہاری باتیں
وہ چڑے اور وہ چڑیا کی کہانی کیا تھی
چائے کے ذکر میں بھی چرب زبانی کیا تھی
عربی ، فارسی اور فلسفہ دانی کیا تھی
قلمِ نغزِ رقم ، کی وہ روانی کیا تھی
قید میں بھی ادب و شعر کی خدمت ہے یاد
آپ کا پہلا قلمدانِ وزارت ہے یاد
یہ نہ سمجھو کہ بھلا دی ہیں یہ ساری باتیں
آج بھی یاد ہیں بہتوں کو تمہاری باتیں
کسی انگریز سے سمجھوتے پہ مائل نہ تھے آپ
مونٹ بیٹن کی طرح گر بہ شمائل نہ تھے آپ
اپنا حق مانگ رہے تھے، کوئی سائل نہ تھے آپ
ہم کو معلوم ہے "تقسیم ” کے قائل نہ تھے آپ
آپ "موتی” کے رفیق ، آپ "جواہر” کے شفیق
آپ گاندھی کے نقیب ، آپ تھے جوہرؔ کے صدیق
یہ نہ سمجھو کہ بھلا دی ہیں یہ ساری باتیں
آج بھی یاد ہیں بہتوں کو تمہاری باتیں
یوں تو "منہ دیکھے کی الفت” ہے زمانے کاشعار
بعد مرنے کے بھلا کون ہوا ہے؟ غم خوار
پھر بھی کچھ لوگ ہیں، رکھتے ہیں حقائق سے جو پیار
جن کے سینوں میں تعصب کا نہیں گرد و غبار
ذوق کو ، جذبے کو، قربانی کو ، پہچانتے ہیں
آپ کے رتبے کو ، مجبوریوں کو جانتے ہیں
یہ نہ سمجھو کہ بھلا دی ہیں یہ ساری باتیں
آج بھی یاد ہیں بہتوں کو تمہاری باتیں
نام کے "محی”خیالات کے "آزاد” تھے آپ
مسئلوں پرکبھی ڈٹ جاتے تو فولاد تھے آپ
تھے تشدد کے عدو، دشمنِ بیداد تھے آپ
حق میں انگریز کے سفّاک تھے جلّاد تھے آپ
کون کہتا ہے بھلا دی ہیں یہ ساری باتیں
آج بھی یاد ہیں بہتوں کو تمہاری باتیں
گاہے گاہے ہی سہی نام لیا کرتے ہیں
ہم بہرحال تمہیں یاد کیا کرتے ہیں
شاعر : ریاست علی تاج
ماخوذ : "نقوشِ حیات”
(یہ نظم بسلسلہ یومِ آزاد 11 نومبر 1993ء کو دوردرشن کیندر حیدرآباد سے نشر ہوئی تھی)
حضرت ریاست علی تاج کے صاحبزادے جناب رفعت صدیقی کے توسط سے….