بحیثیت شاعر مشاہیر کے ساتھ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کے جو نمایاں پہلو ہوتے ہیں صرف وہی معروف اور قابلِ توجہ ہوتے ہیں ۔ بلکہ صرف انہیں پہلوؤں کو درخورِ اعتناء سمجھا جاتا ہے جو معروف ہوں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عظیم شخصیات کا دائرۂ کار کسی مخصوص میدان تک محدود نہیں رہا ، بلکہ ازراہِ تفننِ طبع وہ دوسرے میدانوں میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ جن میدانوں میں شہرت نہیں ملتی، ان میں بھی عبقری شخصیات کا امتیاز رہتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی ‘ مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خاں، علامہ قاری طیب اور مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے، جن کے مختلف کمالات اور نمایاں کارناموں کی وجہ سے ان کی شخصیت کے شاعرانہ پہلو اور ان کی شاعری پر توجہ نہیں دی گئی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی شاعری کے بارے میں یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کم سِنی اور عنفوانِ شباب کے دور میں شاعری کی ہے ۔ گویا مولانا آزاد کی شاعری ، ابتدائی مشقِ سخن کی رہینِ منت ہیں ۔مولانا آزاد کا کلام ، اس عہد کے بہت سے معیاری رسائل و جرائد اور مجلات میں شائع ہوتا تھا ۔یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بچپن سے ہی میں مولانا آزاد کے ذہن میں یہ بات نقش ہوگئی تھی کہ شاعر ہونا ایک کمال ہے اور بطورِ شاعر اپنے کلام کو رسائل میں شائع کروانا ایک کارنامہ سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں خو د مولانا آزادنے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے۔
مولانا آزاد کاکلام‘ رسائل و جرائد اور گلدستوں میں شائع ہواہے ۔ انھوں نے گلدستوں کے لئے بطورِ خاص غزلیں بھی کہیں ۔ کیونکہ اس عہد میں گلدستوں میں مصرعۂ طرح دیا جاتا تھا ۔ مثال کے طور پر وہ مشہور غزل، جس کا مصرعۂ طرح تھا پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی مولانا آزاد کی دستیاب غرلیں ہر چند کہ تعداد میں بہت کم ہیں ، تاہم اہمیت کی حامل ضرور ہیں۔ اگر کوئی محقق اس عہد کے تمام رسائل و جرائد و مجلات کی فائلوں سے مولانا آزاد کا مطبوعہ کلام یکجا کرے تو بجائے خود یہ بھی ایک اہم کام ہوگا۔ مولانا آزاد کی شاعری پر کلاسیکیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے ۔ انھوں نے اپنے کلام میں روایتی طرزِ تغزّل کا بھر پور خیال رکھا ہے اور غزل کے فنّی لوازم کا التزام کیا ہے۔ مولانا آزاد کی غزلوں میں امیر مینائی داغؔ دہلوی، مومن خاں مومن ؔ اور حسرتؔ موہانی کی غزلوں کی سی جھلک ملتی ہے۔ حسرتؔ موہانی نے مولانا ابوالکلام کی مرصع نثر سے متاثر ہوکر کہا تھا
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں وہ مزا نہ رہا
اگر واقعی مولانا آزاد اپنی مشقِ سخن جاری رکھتے اور شاعری میں مضامینِ نو کے انبار لگا دیتے تو حسرتؔ جیسے شعراء کا کیا حال ہوتا؟ آفتاب آمد، دلیلِ آفتاب
شاعری کے سلسلہ میں مولانا آزاد کا رویہ یہ رہا ہے کہ آپ جمالیاتی دبستانِ شعر سے قریب نظرآتے ہیں ۔ آپ کی شاعری اور موسیقی کو ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو قرار دیتے ہیں ۔ غبارِ خاطرمیں لکھتے ہیں:
’’موسیقی اور شاعری ایک ہی حقیقت کے دو مختلف جلوے ہیں ۔ اور ٹھیک ایک ہی طریقہ پرظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہ وہی معانی ہیں جو موسیقی کی زبان میں ابھرنے لگتے ہیں ۔ اگر یہ شعر کا جامہ پہن لیتے تو کبھی حافظ کا ترانا ہوتا‘ کبھی خیام کا زمزمہ ، کبھی شیلے کی ماتم سرائیاں ہوتیں ، کبھی ورڈس ورتھ کی حقائق سرائیاں ۔ ‘‘ غبارِ خاطر
مولانا آزاد اور علامہ اقبال کی فکر میں کسی حد تک یکسانیت اور مطابقت بھی نظر آتی ہے ۔ اگر مولانا آزاد نے اقبال کی طرح اپنی شاعری کو اپنے افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہوتا تو توارد کی بہت سی مثالیں شائقینِ ادب کی تفریح کا سامان بن سکتی تھیں ۔ ایک مثال پیش ہے:
’’میں آپ کو بتلاؤں ، اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا ،کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ کبھی دھیمی نہیں پڑے گی۔ غبارِ خاطر
شعرِ اقبال:
مجھے ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے
مولانا آزاد نے شعر گوئی کامشغلہ ۱۱،۱۲سال کی عمر سے شروع کیا ۔ پہلی غزل’’ارمغانِ فرخ ۔ بمبئی‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ مشقِ سخن کے اس ابتدائی دور میں آپ فصیح الملک نواب مرزا داغ دہلوی اور امیرالشعراء حضرت امیرؔ مینائی سے اصلاح لیتے تھے۔ اسی زمانے میں مولانا آزاد نے ایک شعری مجلہ بنام ’’نیرنگِ عالم ‘‘ شائع کیا ،جو تقریباً آٹھ مہینے چھپتا رہا ۔مولانا آزاد کی دستیاب مطبوعہ پہلی غزل، چار اشعار پر مشتمل ہے:
نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گردبار تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی
ہوں نرم دل کہ دوست کی مانند رو دیا
دشمن نے بھی جو اپنی مصیبت بیان کی
آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
’’پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی‘‘
مولانا آزاد کی اس غزل سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ میں شعر گوئی کا فطری ملکہ تھا۔ یہ کسبی صلاحیت نہیں، بلکہ خداداد صلاحیت تھی ۔مولانا آزاد کی غزلوں میں غزل کے روایتی الفاظ کی کھپت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔
اسیرِ گیسوئے خم دار ہونا،
رنگِ محفل کا دگر گوں ہونا،
دیدۂ نرگس کا نور زائل ہونا،
دل کے ارمانوں کا فدائے دستِ قاتل ہونا،
قیس و مجنوں، لیلیٰ و محمل کمندِ زلف کااسیر ہونا، وغیرہ۔
مخزن، لاہور، اپریل ۱۹۰۳ کے شمارے میں یہ غزل شائع ہوئی:
کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہوگیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں، کوئی گریاں، کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دِگر گوں رنگِ محفل ہوگیا
انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہوگیا
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیٰ کا محمل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہوگیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزاد شامل ہوگیا
مولانا آزاد کی غزلوں کے اندازِ بیان، اسلوبِ کلام، طرزِ اظہار، بلکہ الفاظ و جملے اور تراکیب سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے داغؔ دہلوی کا گہرا اثر قبول کیا تھا۔ معاملہ بندی، نازک خیالی، مکالماتی انداز اور محاکاتی اسلوب کے پیشِ نظر مولانا آزاد کی غزلوں پر داغؔ کے کلام کا دھوکا ہوتا ہے۔
اس کلیہ کی دلیل او ر اس بات کی مثال، مولانا آزاد کی یہ غرل ہے ، کہتے ہیں:
اِن شوخ حسینوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
ایسوں کی اداؤں میں مزا اور ہی کچھ ہے
یہ دل ہے مگر دل میں بسا اور ہی کچھ ہے
دل آئینہ ہے جلوہ نما اور ہی کچھ ہے
ہم آپ کی محفل میں نہ آنے کو نہ آتے
کچھ اور ہی سمجھے تھے ہوا اور ہی کچھ ہے
بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
اُن مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
آزادؔ ہوں اور گیسوئے پیچاں میں گرفتار
کہہ دو مجھے کہ تم نے سنا اور ہی کچھ ہے
راقم الحروف اپنے اس مقالہ کو ختم کرنے سے پہلے مولانا آزاد کا ایک قطعہ پیش کرناچاہتا ہے:
تھا جوش و خروش اتفاقی ساقی
اب زندہ دلی کہاں سے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
مے کش، مے کش رہا نہ ساقی ساقی
اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ مولانا آزاد کی شاعری پر تحقیقی کام نہیں ہوا ہے، جس کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد کو بحیثیت شاعر پیش کر کے، آپ کے کلام کو یکجا کر کے ہم اپنے عظیم محسن کی خدمت میں ہدیۂ سپاس اور خراجِ عقیدت پیش کرسکتے ہیں ۔۔
http://imamulhind.blogspot.com.au/2015/04/blog-post_6.html?spref=fb&m=1