مصنف : ژاک ستَرنبیرگ
مترجم : شاہ زماں حق
اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا ۔ صبح کے چھے بج رہے تھے۔
وہ حیران ہوا ۔ وہ بعض اوقات ہی صبح چار بجے نیند سے بیدار ہوتا تھا لیکن چھے بجے اُس کی آنکھ کبھی نہیں کھُلی۔ مگر اُس کے دوبارہ سونے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی اور اُسے یہ بات سمجھ میں آئی کہ لفٹ کی متواتر آواز نے اُس کو جگا رکھا تھا۔ لفٹ گھڑگھڑاہٹ کے سبب اوپر چڑھنے میں اٹک رہی تھی اور یہ تمام چیزیں اُسے تیس سال قبل ماضی کے دریچے میں لے گئیں۔ سنہ ۱۹۴۱کے عروجِ جنگ میں علی الصبح گرفتاریوں کے خدشات لگاتاررہنے کی وجہ سے گھبراہٹ میں نیند کی بیداری اور لفٹ کا اُس کی منزل پر آکر برابر رُکنا ایک معمول بن گیا تھا ۔ اُس نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ یہ تمام واقعات تو ماضی میں در پیش آئے تھے لیکن موجودہ حال میں اِن باتوں کا خوف اُس پر کافی حاوی تھا ۔
آواز تھَم گئی ۔ جالی دار دروازہ کھلا، قدموں کی چاپ سے راہ داری گونج اُٹھی ۔ ایک گھنٹی کی آواز پر وہ اپنے بستر سے کود پڑا، یہ سفّاکانہ آواز ویسے ہی تھی جب پو پھٹتے کسی انکم ٹیکس افسر کا گھر میں چھاپہ پڑتا ہے۔ اُس نے دروازہ کھولا۔
’’گیسٹاپو‘‘ ، دو پولیس افسروں میں سے ایک نے کہا ۔
یہ شخص پوچھنے ہی والا تھا کہ وہ افسر خود کا کیوں مذاق اُڑا رہا ہے لیکن گیسٹاپو کی خفیہ پولیس کی مانند اُس کا حلیہ و مُتکبِّرانہ انداز دیکھ کر، اُسے پوچھنے کی ہمّت نہیں ہوئی ۔ جب دوسرا افسر فلیٹ میں داخل ہوا تب یہ شخص اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’کپڑے پہن لو اور ہمارے ساتھ چلو‘‘، دوسرے افسر نے کہا ۔
وہ اُن کے ساتھ چلنے لگا ۔
انہوں نے اُسے ایک گاڑی میں دھکا دیا جس پر پولیس (پولیزی) درج تھا ۔ گاڑی مشرقی ریلوے اسٹیشن پر جاکر رُکی ۔ گیسٹاپو کے دونوں خفیہ افسران کے ہمراہ وہ پلیٹ فارم نمبر چھے پر پہنچا جہاں اُسے ایک ایس ایس فوجی نے نہایت بے رحمی سے اپنے حراست میں لیتے ہوئے اُسے مشین گَن کی نوک سے آگے بڑھنے کا اِشارہ کیا ۔
پلیٹ فارم نمبر سات پر مسافر ایک ٹرین پر اطمینان سے سوار ہو رہے تھے جو ہامبُورگ جانے والی تھی ۔ پلیٹ فارم نمبر پانچ کے مسافر البتّہ پیرِس ستراسبُورگ والی ٹرین پر ٹوُٹ پڑ رہے تھے ۔ اُن کی ٹکٹ پر ایک مُہر لگی تھی ’۲۵ جون ۸۶‘ ۔
لیکن ایک مال گاڑی جس کے ڈبّوں پر ’یہودی‘ کُندہ تھا، وہ پلیٹ فارم نمبر چھے پر جامِد تھی۔ عورتیں، بچّے اور مرد جو گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے، ایس ایس کے فوجی اُن کو ڈبّوں میں ٹھونسےجا رہے تھے ۔ جاسوسی کُتّوں اور مشین گنوں سے گشت لگایا جا رہا تھا۔ انہوں نے اُس شخص کو اِس جُھنڈ میں جھونک دیا۔
پلیٹ فارم نمبر ۵ یا ۷ پر موجود لوگوں میں سے کسی نے بھی اُن کی طرف ایک نظر نہیں ڈالی ۔ اُن کی چیخوں پر کسی نے کان نہیں دھرا، اُن کی ہیبت خوردہ حالت توجّہ سے محروم رہیں ۔
اُس شخص نے خود کو سُپُرد کر دیا۔ اُسے ایک بات سمجھ میں آئی ۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ تھا جو ایک مخصوص راہ آہن کی فولادی پٹریوں پر تھے جہاں پر اُنکی بساط چوہوں کے طرح تھی۔
گرمی کی ایک خوشگوارصبح جس میں یا تو مسافروں میں غیر معمولی ہلچل و خوف تھا یا وہ جوبے جان پڑے تھے، اس عام بے حِسی کے ماحول میں ٹرین میں جنبش پیدا ہوئی ۔
منزل کہاں تھی ؟ اوشوِز ؟ دَشاؤ ؟ بُوشینوالد ؟ بیلسین ؟
کیا فرق پڑتا ہے ؟
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...