افغانوں کے شجرہ نسب میں ہے بٹن بن قیس کی لڑکی جس کا نام متی تھا ، اس کی شادی شاہ حسین غوری سے ہوئی تھی اور اس سے بہت سے قبیلے وجود میں آئے ۔ شاہ حسین غوری تاریخ سے ماخذ نہیں ہے مگر نعمت اللہ ہراتی اور بعد کی کتب میں پٹھان افغان مورخین نے اپنی کتب میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ظاہر ہے یہ قبائیلی روایات ہیں جو ماضی کے دھندھلکوں میں کچھ سے کچھ ہوگئی ہیں ۔ جب کہ غور کے علاقے میں چوتھی صدی ہجری کے آخر میں اسلام آیا ہے ، لہذا یہ روایت موضوع اور سماع پر موقوف ہیں ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ متو کون ہے جسے افغانوں نے اپنے شجرے نسب میں داخل کیا ہے ۔
اب تک ہم نے جو بحث کی ہے اس سے یہ نتیجہ با آسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پٹھان یا افغان کوئی واحد نسلی یا لسانی وحدت نہیں ہیں ۔ ان میں آریا سے لے کر ترکی تک شامل ہیں ۔ گو یہ سب وسط ایشیا سے آئے ہیں ، مگر مختلف ادوار میں ان کی نقل مکانی ہوتی رہی ہے اور آنے والی قوم پہلے سے آباد لوگوں کو پیچھے دھکیلتی رہی ہیں اور باقی رہنے والوں کو حملہ آورں میں جذب ہوگئے ۔ اس طرح مختلف روایات مشترک ہوگئیں ۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس علاقہ میں ہند آریائی زبانیں بولی جاتی تھیں ۔ اس لئے غالب مکان یہی ہے کہ اس کلمہ کی ابتدائی شکل ہند آریائی کلمہ متر تھی ۔ جس کے معنی دوست ساتھی عزیز کے ہیں ۔ گویا یہ اقوام جو ان کے ساتھ رہتی تھیں اور ان کے دکھ و سکھ کی شریک تھیں اس لئے یہ متر کہلاتی تھیں ۔ جب مسلمانوں کی آمد ہوئی اور اس علاقے میں اسلام پھیلا تو یہ کلمہ امتعدد زمانہ سے متی یا متو ہوگیا اور جب شجرہ نسب کی تشکیل ہوئی تو اسے بٹن کی لڑکی فرض کرلیا گیا اور فرضی شاہ حسین غوری کو اس کا شوہر بتایا گیا ۔ ان کے علم مطابق وہ قبائیل جن سے ان کا نسلی تعلق نہیں تھا وہ اس کی اولاد بنادی گئیں ۔ افغانوں کے بہت سے قبائیل کے ناموں یہ کلمہ آتا ہے جس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...