شگفتہ کوثر میری بہت ہی پیاری دوست ہے – آج کل سندھ میں انگریزی ادب کی لیکچرار ہے – میری اور شگفتہ کی دوستی کن کن پتلی گلیوں سے گزری اور گزر رہی ہے اس کی روداد۔ پھر کبھی سہی–
شگفتہ کی زندگی کے اتنے اوراق ہیں کہ میں جیسے جیسے دیکھتا جاؤن گا لوگوں کی زندگی کی کتاب بکھرتی جائے گی –
اج میں آپکو اس کی زندگی کا ایک ورق دیکھا رہا ہوں – اس ورق میں ہم سب کی زندگی کا ایک آدھا ورق ہے
شگفتہ کا ایک خالہ زاد مامو زاد تایا زاد چچا زاد پتہ نہیں کیا تھا مگر شگفتہ اسے بنا کہتی تھی –
بنا اور شگفتہ ایک پلو کی دو گھانٹیں ہیں – گھانٹھ تو ایک ہی شگفتہ تھی بچاہ بنا تو صرف پلو تھا
بچپن سے ہی لوگوں نے یہی کہتے سنا اور انکھوںُ نے دیکھا
" بنے میرے کینچے کہاُں ہیں ۔ بنے میری گڑیا کہا ہے ۔ بنے میری بندھا کہاُں ہے — چیزوں میں فرق پڑتا جاتا ہو گا مگر شگفتہ کے سوالیہ لہجے میں کوئی فرق نہیں پڑتا
پہلے تو یہ احکامات گھر اور سکول۔ تک ہی محدود۔ تھے۔ اب بنا کو شگفتہ۔ کو شہر میں۔ بھی لے جانا۔ شامل ہو گیا – بنے مجھے جوتا لینا – بنے مجھے کتابیں۔ لینی ہیں – بنا مجھے نبی پاک۔ کا جلوس۔ دیکھنا۔ ہے- بنا مجھے امام حسین۔ کا جلوس۔ دیکھنا۔ ہے – شگفتہ۔ نہ سنیوں۔ میں نہ شعیوں میں۔ اسےتو رونق۔ چاہیے۔ تاکہ۔ گھر سے کچھ۔ دیر کے لیے باہر نکل سکے— بنا ہے کے مٹی کا مادھو۔ بنا دھوپ۔ سردی میں ہر وقت شگفتہ کے احکامات۔ بجا لانے کے لیے چوبیس۔ گھنٹے۔ تیار کبھی۔ بسوں کبھی۔ بائیسیکل پہ کبھی پیڈل سامان۔ سے بھرے تھیلے ساتھ ساتھ۔ چلا آرہا
کوئی بھی مشورہ۔ کرناہے تو صرف۔ بنا سے۔ بنے میں اس شلوار کے ساتھ یہ قمیض پہن لوں۔ بنا کون کون سے مضامین۔ لوں۔ بنا یہ کر لوں۔ بنے وہ۔ کر لوں بنا اج زردہ۔ بنا لیں۔ بنے آلو کی باجھی۔ بنا لوں۔ یہ مشورے نہیں احکامات ہوتے تھے کیونکہ۔ بنا نے صرف آگے سے اقرار میں۔ گردن ہی پلانی ہوتی۔ تھی
شگفتہ۔ کو صرف بنا سے ہی۔ بات۔ کرنے کی اجازت تھی اسی کے ساتھ۔ باہر جا سکتی ہے اس کے ساتھ کمرے میں اکیلی بیٹھ سکتی ہے۔ ورنہ کون کون سی پابندی۔ نہیں تھی اور کون کون سی روک ٹوک۔ تھی۔ جو شگفتہ۔ پہ نہیں تھی اور جب شگفتہ نے آبگریزی ادب میں ماسڑ کرلیا تھا یہ پابندیا ں اور روک ٹوک کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی – ان سے بچنے کے لیے ایک دن شگفتہ۔ نے بغیر کسی سے بات کیے بنا کو کہا بنے میں لیکچرار۔ شیپ کے لیے درخواست دے دوُں اگلے دن شگفتہ بنا کو ساتھ لیے درخواست۔ جمع کرانے جا رہی ہے – بنا جلدی سے تیار ہو جا انڑویو کی کال آئی۔ ہے – بنا میں منتخب ہو گی – ارے بنے کدھر تھا دیکھ۔ انہوں۔ نے جنرل میڈیکل۔ چیک اپ۔ کے لیے بلایا ہے- اور بنا۔ شگفتہ کو لیے لبارٹری کے برامدے میں پڑے بینچوں پہ بیٹھا – پتہ نہیں کون کون سے ٹیسٹوں سے گزرنا۔ پڑ رہا ہے – بلڈ ٹیسٹ ۔ آئی ٹیسٹ سب ٹیسٹ ہوئے مگر دماغ کا ٹیسٹ نہیں ہوا
شاید پڑھانے کے لیے دماغ کی ضرورت ہی نہیں۔ –
سب ٹسٹوں کے بعد لبارٹرری میں بیٹھی ایک عورت نے شگفتہ کے ہاتھ ایک چھوٹی سی شیشی دی اور کہا ٹویلٹ۔ میں جا کر اس میں ٹیسٹ کے لیے پیشاب لے کر۔ آئیں – شگفتہ۔ دو تین منٹ بعد لبارٹری کی طرف جانے کے بجاے بینچ پہ بیٹھے بنا کی طرف آئی اور قہقہہ مار کر کہا بنے نہیں آیا – دو منٹ بعد پھر ٹویلٹ۔ گی اور خالی شیشی لیے پھر واہس آ گئی بنے کیا کروں۔ نہیں۔ آرہا اور جب تیسری۔ بار خالی بوتل لیے آئی تو آنکھ میں آنسو بھی تھے – کیا مصیب نہیں۔ آرہا۔بنا نے شگفتہ کو بینچ۔ پہ بٹھایا۔ اور شیشی لے کے خود ٹویلٹ۔ چلا گیا اور ایک منت بعد ہی پیشاب سے لبا لب بھری شیشی لبارٹری والی کو تھما کر شگفتہ۔ کو جلدی۔ سے نکلنے کا اشارہ کرنے لگا
شگفتہ جنرل میڈیکل چیک اپ میں بھی پاس ہو گئی۔ یہ شاید دنیا کی واحد۔ لبارٹری تھی۔ جو زنانہ مردانہ پیشاب میں فرق ہی نہ کر سکی
جب سے شگفتہ لیکچرار ہوئی ہے روک ٹوک میں مزید آضافہ ہونا شروع ہو گیا – یہ کالج کی رات کی تقریبات میں جانا بند کرو اور یہ دوپٹہ سر سے گلے میں کیوں اگیا – اُدھر سے بنا ایک ہفتہ سے راولپینڈی کسی فوتگی میں گیا ہوا ہے شگفتہ کی جان سولی پہ اٹکی ہے – ایک دن گھر میں کچھ مہمان آے تو انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے شگفتہ کس ہاتھ مِانگ لیا جب اماں نے کمرے میں جا کر شگفتہ سے ہوچھا۔ تو شگفتہ جو بھری بیٹھی۔ تھی فوری ہاں کر دی تاکہ گھر کے پابندیوں اور روک ٹوک سے جان چھوٹے
شگفتہ کی زندگی میں پہلا موقعہ تھا کہ اس نے بنا سے کوئی مشورے نہیں کیا تھا بتایا تک نہیں تھا
چار دن بعد جب بنا آیا تو شگفتہ۔ نے کہا بنے دیکھ میرے ہاتھو ں پہ مہندی لگی ہے بنا چُپ رہا – دیکھ۔ بنے مییں نے انگوٹھی پہنی ہے بنا چُپ رہا بنے تو کچھ پوچھ نہیں رہا اور آگے مٹھائی کا ڈبہ کر دیا بنا نے ایک دم چار پانچ لڈو منہ میں ڈال لیے جو گلے میں پھنس گئے اور منے کی آنکھوں میں آنسو آگئے – شاید یہ آنسو بنے کے وہ پہلے الفاظ تھے جو بنے نے شگفتہ سے کہے تھے (جاری )
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154856475298390
“