رات کو کسی پہر شاید ہلکی بھوک میں چپس کا ایک پیکٹ اٹھایا ہو۔ اسے کھول کر چپس کو منہ میں ڈالنے سے پہلے ایک نظر ذرا اپنے ارد گرد کہ آپ کو کیا نظر آتا ہے اور ذرا کچھ غور سے دیکھئے۔
کنکریٹ، شیشہ، فولاد، چمڑا، کپڑا، کاغذ، فولاد، لکڑی۔ یہ دنیا قسم قسم کے میٹیریل سے بنی ہے۔ یہ ہمارے بنائے ہوئے میٹیریل ہیں جو ہماری تہذیب بناتے ہیں۔ ان کو ہم سے چھین لیں تو ہم جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔ ہمارا لباس، ہمارے گھر، ہماری اشیاء انہی کی مرہونِ منت ہیں اور یہ ہماری اپنی روایتوں اور زبان کو مزین کرتے ہیں۔ یہ صرف ٹیکنالوجی اور کلچر نہیں، خود ہمارا اپنا حصہ ہیں۔ ہم نے ان کو ایجاد کیا، ہم نے ان کو بنایا اور یہ پھرانہوں نے ہمیں بنایا ہے۔
میٹیریل کی ہماری لئے اس قدر زیادہ اہمیت رہی ہے کہ ہم انسانی تاریخ کے ادوار کو ان پر نام دیتے ہیں۔ پتھر کا دور، کانسی کا دور، لوہے کا دور۔۔۔ تاریخ کا ہر اگلا بڑا قدم کسی نئے میٹیریل نے ممکن کیا۔ وکٹورین دور فولاد کا دور تھا جس میں انجینیروں نے پل، سٹیم انجن، ریلوے اور آمد و رفت کا انقلاب اس کی مدد سے برپا کیا۔ عظیم انجنیر برونل نے اس کی مدد سے لینڈ سکیپ بدل دیا اور ماڈرن ازم کے بیج بو دئے۔ بیسویں صدی کو سلیکون کا عہد کہا جاتا ہے جس میں اس کی مدد سے سیلیکون چِپ بنے اور انفارمیشن کا انقلاب آیا۔ لیکن کئی اور میٹیریل بھی جدید طرزِ زندگی کے لئے اہم تھے۔ شیشے کی بڑی شیٹ اور سٹرکچرل سٹیل کی مدد سے بلندوبالا عمارات جنہوں نے جدید شہر کو ممکن کیا۔ پراڈکٹ اور فیشن ڈیزائنروں نے پلاسٹک کو اپنایا اور ہمارے لباس اور گھر بدل ڈالے۔ پولیمر کے استعمال سے سیلولائیڈ بنا اور ہزار سال بعد بصری انقلاب سینیما کی صورت میں آیا۔ ایلومینیم کے مرکب اور نِکل کے سپر مرکبات نے جیٹ انجن اور سستا فضائی سفر ممکن بنا کر دنیا سکیڑ کر تہذیبوں کو ملا دیا۔ میڈیکل اور ڈینٹل سرامکس جن سے مصنوعی اعضاء بنے۔ دانتوں اور کولہوں سمیت خود ہماری اپنی مرمت ممکن ہو گئی۔
یہ خود پس منظر میں رہتے ہیں اور ہم عام طور پر ان کا فرق اور خاصیتوں کو جانے بغیر اپنی روزانہ زندگی ان کے سہارے گزارتے ہیں۔ زیادہ تر دھاتیں چمکدار اور گرے رنگ کی ہیں۔ کتنے لوگ ایلومینیم اور سٹیل کا فرق بتا پائیں گے؟ لکڑی بہت طرح کی ہے۔ کتنے لوگ یہ بتا سکیں گے کہ کیوں؟ پلاسٹک تو پھر ایک الگ ہی داستان ہے۔ کون جانے کہ پولیتھین اور پولی پروپلین میں کیا فرق ہے۔ ان کو باریک بینی سے دیکھ کر ہم ان کے فرق کا پتا لگا سکتے ہیں۔
یہ مائیکروسکوپک سکیل ہمیں بتاتا ہے کہ کچھ سے مہک کیوں آتی ہے جبکہ کچھ بغیر بُو کے ہوتے ہیں۔ کچھ ہزار سال تک رہ جاتے ہیں، کچھ دھوپ میں زرد پڑ جاتے ہیں۔ شیشہ بلٹ پروف بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی شیشہ ہے جس کا گلاس میز سے گر کر ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی سائنس ہماری خوراک، لباس، آلات، زیورات اور خود ہماری اپنی سائنس ہے۔
ایک چھوٹا سا دھاگہ جو بال جتنا باریک ہے، انسان کا بنایا ہوا سٹرکچر ہے جس سے رسی، کمبل، قالین اور لباس سب ہی بن جاتے ہیں۔ ٹیکسٹائل انسان کے بنائے ہوئے قدیم میٹیریلز میں سے ہے۔ ایک پہنی ہوئی قمیض ایک بُنا ہوا سٹرکچر ہے جس کا ڈیزائن موہنجوداڑو سے پرانا ہے۔ انہوں نے ہمیں گرم رکھا ہے، ہماری حفاظت کی ہے اور ہمیں جاذبِ نظر رکھا ہے۔ بیسویں صدی میں اسی کو آگے بڑھا کر خلائی سوٹ بھی بنے اور سنتھیٹک مضبوط ریشہ کیولار بھی، جو گولی کو بھی روک دیتا ہے۔ پھر بائیومیٹیریلز کی نئی دنیا جو بائیونکس کی دنیا میں ہمیں لے جا رہی ہے۔ ہماری گوشت اور خون کے ساتھ مل کر یہ ہمارے معاشرے کا اور ہمارا اپنے آپ سے تعلق تبدیل کر سکتی ہے۔
ہر چیز ایٹم سے بنی ہے۔ ہم میٹیریل کو جاننے کے لئے ان کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ انہی ایٹموں کے اصول ان کو خاصیتیں دیتے ہیں اور ان کو ہم کوانٹم مکینکس میں پڑھتے ہیں۔ ویو فکنشن اور الیکٹران سٹیٹ کی یہ انوکھی لگنے والی دنیا سے ہم ان کو سمجھ سکتے ہیں اور اب ان میٹیریلز کی بڑھتی تعداد اسی سکیل کی فزکس کو سمجھ کر ہی ڈیزائن کیا جا رہا ہے اور وہ کام کئے جا رہے ہیں جو ناممکن لگتے تھے۔ سلیکون کی چپ جس کو کوانٹم مکینکس سے ڈئزائن کیا گیا، پہلے ہی دنیا میں انقلاب لا چکی ہے۔ شمسی سیل جو اسی طرح ڈیزائن کئے جا رہے ہیں، شاید ہماری توانائی کی ضروریات کا حل ہوں لیکن ابھی ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکے اور پھر ایک بڑی امید۔ گرافین۔
نظر نہ آنے والے انتہائی چھوٹے سکیل پر معمولی فرق ہیں جو انسانی سکیل پر اپنی خاصیتیں بڑے ہی مختلف انداز میں دکھاتے ہیں۔ ہمارے آباء نے بغیر مائیکروسکوپ اور ان ایٹموں کو جانے، ان میں سے بہت کو اپنے کام کے لئے بنا ڈالا تھا اور یہ کام تجربے اور غلطیوں کی مدد سے کیا تھا۔ ان کے علم کا آہستہ آہستہ بڑھتا ذخیرہ ہمیں پتھر کے دور سے بیسویں صدی تک لے آیا جب ہم ان کو پہلی بار سمجھنے کے قابل ہوئے کہ یہ ایسے کیوں ہیں۔
ان کے ہماری حسیات کے ساتھ اور ذاتی تعلق کی اپنی ایک الگ کہانی ہے۔ کئی چیزوں کو ہم ان کی کمزوریوں کے باوجود پسند کرتے ہیں۔ سرامک کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ ہماری پلیٹیں، مگ اور پیالے اس کے بنے ہوتے ہیں۔ کوئی گھر یا ریسٹورنٹ ان کے بغیر مکمل نہیں۔ جب زراعت ایجاد ہوئی، ہم اس کو تب سے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ٹوٹ جاتا ہے، چٹخ جاتا ہے، دراڑ پڑ جاتی ہے۔ ہم ابھی تک اسے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ اس قسم کے سوالوں پر اکیڈمکس میں بڑی سٹڈی ہو چکی ہے۔ نہ صرف اینتھروپولوجسٹ اور آرکیولوجسٹ بلکہ ڈیزائنر اور آرٹسٹ بھی۔ بلکہ سائنس کا ایک الگ شعبہ ہے جو ہمارا ان میٹیریلز کے ساتھ تعلق کا بتاتا ہے۔ یہ سائیکوفزکس ہے۔
سائیکوفزکس میں ہم کئی بڑی دلچسپ دریافتیں کر چکے ہیں۔ مثلا، کسی خستہ چیز سے آنے والی آواز ہماری اس چیز کو کھانے کے مزے میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اس وجہ سے کئی شیف ہیں جنہوں نے ایسی ڈشیں ایجاد کیں جن میں اس بات کا خیال رکھا جائے۔
اب واپس ایک نظر اپنے چپس کے پیکٹ پر۔ جب آپ نے اس کو کھولا تو اس کی پیکنگ بڑا شور کرتی ہے۔ جب آپ نے چپس کو منہ میں ڈالا تو اس میں سے آنے والی آواز بلند تھی۔ یہ کرسپی چپس کے میٹیریل کا ڈیزائن آپ کا ان کو کھانے میں مزے کا اضافہ کرنے کے لئے تھا اور یہ آسان کام نہیں تھا۔ اس پر بڑی محنت اور وقت لگا ہے۔ چاکلیٹ سے لے کر دوسرے میٹیریلز تک یہ سب بھی ہماری دریافت کے سفر کا حصہ رہا ہے۔
تو پھر آپ جہاں پر بھی ہیں، کوئی ناقابلِ ذکر کام کرتے وقت بھی ان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ تاریخ اور ٹیکنالوجی نے انسانوں کو کس طریقے سے تبدیل کر دیا ہے؟ اس کو جاننے کے لئے میوزیم جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ ہر وقت کنکریٹ سے لے کر آئینے تک کی تاریخ اور ٹیکنالوجی کو ہی سراہنے میں وقت نہیں گزار سکتے لیکن کبھی کبھار۔ کیونکہ ہمارے گرد کی ہر چیز گہرے معنی اور تاریخ رکھتی ہے۔