کوئی تیس چالیس سال پہلے خبر ہوا کرتی تھی، "مخالف فریق نے لاٹھیاں مار مار کر قتل کر دیا" اور یہ خبر بھیانک لگا کرتی تھی۔ لگا کیا کرتی تھی، ہوتی ہی بھیانک تھی۔ پھر آتشیں اسلحہ استعمال ہونے لگا اور پھر نیم خودکار ہتھیار جسے ٹی ٹی ( اسعمال کرنے والوں کی اکثریت کو ٹی ٹی کا مطلب ہی نہیں معلوم ہوگا، پہلے ٹی کا مطلب تولسکی ہے یعنی شہر تولا میں بنایا گیا اور دوسرے ٹی کا مطلب توکارییو ہے جو اس کے ڈیزائنر کا فیملی نیم ہے، ویسے یہ ماڈل 56-اے۔132 کہلاتا ہے) یا کالاشنیکوو (جو دراصل اے کے -47 ہے، اے کے ڈیزائنر کے نام کے مخفف ہیں یعنی الیکساندر کالاشنیکوو)۔ مگر ضروری نہیں کہ متشدد جرائم کرنے کی خاطر آتشیں ہتھیار ہی استعمال ہوں۔ کئی ماہ پیشتر لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں پولیس والوں کی موجودگی میں ماں بیٹوں اور ماموں نے مل کر ایک خاتون کو مرضی سے شادی کرنے کی وجہ سے سر میں اینٹیں مار مار کر مار دیا تھا۔
کل پرسوں کی ہی دو خبریں ہیں۔ لاہور میں راوی پار کی بستی شاہدرہ میں ایک تایا نے اپنے تین کمسن بھتجوں کی گردنیں کاٹ دیں، بچانے کی کوشش کرنے والی بھابی کو بھی چھری سے شدید زخمی کر دیا۔ دوسری خبر کراچی کی ہے جہاں چھبیس سال کے ایک مزدور نے اپنے ساتھی مزدور کی غیر موجودگی میں اس کے گھر میں گھس کر اس کی نو اور پندرہ سال کی بیٹیوں کو اینٹ اور ڈنڈے مار کر قتل کر دیا۔
ایسی وارداتوں کی بظاہر وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں جیسے کہ شاہدرہ والے معاملے میں قاتل کی تنہائی، ڈیپریشن، بے اولاد ہونا وغیرہ کو جرم سرزد کرنے کے اسباب بتایا گیا ہے یا کراچی والے سانحے میں قاتل کی جانب سے لڑکیوں کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرنے پر بچیوں کے باپ کا قاتل سے جھگڑا وجہ بتایا گیا ہے لیکن درحقیقت بنیادی وجہ انسانی جان کی ارزش کم پڑ جانا ہے۔
منتقم مزاجی کے پس پشت کم علمی یا جہالت پہلے بھی ہوا کرتی تھی لیکن انسان کی زندگی کا باارزش ہونا اکثر لوگوں کو معلوم تھا۔ لاٹھیاں مار کر قتل کرنے جیسے جرائم اجتماعی طور پر اور زمینوں، عورتوں یا کسی اور وجہ سے دشمنی کے باعث کیے جاتے تھے، دشمنی پالنا بذات خود جہل اور غیرمتمدن ہونے کا شاخسانہ ہوا کرتا ہے۔
آج الیکٹرونک میڈیا عام ہے۔ کوئی دیکھے نہ دیکھے شبیر تو دیکھتا ہے اور دلچسپپ بات ہے کہ ایک شبیر پر بس نہیں آج ہر شخص سب کچھ دیکھتا ہے مگر اپنی اپنی نظر سے۔ دہشت گردی کے واقعات یعنی قتل عام ہوتا دیکھتے ہیں تو منتقم مزاج ذہنوں میں انسان کی زندگی کی ارزش بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
کڑی سزائیں دے کر مجرموں کو نشان عبرت بنا دینے سے نہ کبھی جرائم کو روکا جا سکا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی روکا جا سکے گا۔ پاکستان میں پھر سے پھانسیاں دینے کا عمل شروع کیا گیا ہے لیکن جرائم ہیں کہ بڑھتے جا رہے ہیں بشمول قتل کیے جانا بھی جس کی سزا پھانسی دیا جانا ہے۔
ہم نے جن دو خبروں کا ذکر کیا ہے وہ طاہر کرتی ہیں کہ مناسب تعلیم، مناسب معیار زندگی، مناسب تربیت اور مناسب تحفظ سے ایسے جرائم کو روکا جا سکتا ہے۔ شاہدرہ میں بچوں کا قاتل تایا اگر ان پڑھ چنگڑ نہ ہوتا تو کہیں مناسب کام کر رہا ہوتا، بیوی چھوڑ جاتی تب بھی کوئی بات نہیں تھی کوئی اور مل جاتی کیوں کہ وہ باروزگار ہوتا۔ بے اولاد ہونے کی کوئی تو وجہ ہوگی اس میں یا اس کی بیوی میں کوئی نقص ہوگا اگر مناسب معیار زندگی ہوتا تو مناسب علاج کروانے کی سہولتیں بھی حاصل ہوتیں اور اسے بھائی کے ہاں بھی نہ رہنا پڑتا کیونکہ مناسب معیار زندگی کا مطلب اپنی رہائش ہونا بھی ہے۔ اگر اس میں کوئی ذہنی فتور نہیں ہے تو اسے بے اولاد ہونے کی وجہ سے تمام بچوں سے محبت ہوتی اور وہ ایسا قبیح عمل نہ کرتا۔
کراچی والے واقعے میں بھی اگر مجرم تعلیم یافتہ ہوتا تو وہ کم سن بچیوں پر اوّل تو دست درازی کرتا ہی نہ اور اگر بفرض محال کرنے کی خواہش پیدا ہو ہی جاتی تو وہ دسیوں بار ایسا کیے جانے کے عواقب پر غور کرتا اور یقینا" ایسا کرنے سے باز آ جاتا۔ اگر اس کا معیار زندگی بہتر ہوتا تو اسے 26 برس کی عمر میں کوئی شریک بدن میسّر آ ہی جاتی اور اس کے ذہن میں خیالات فاسدہ کی یلغار نہ ہوتی۔ کسی کے گھر میں گھس جانا چہ جائیکہ رفیق کار یا آشنا یا دوست کے گھر میں ہی، کوئی پڑھا لکھا مناسب سوچ رکھنے والا آسودہ حال شخص ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
یہ تمام مفروضات ہیں کیونکہ ہمارے ملک کی بیشتر آبادی کو کوئی بھی چیز چاہے رہائش ہو، روزگار ہو، حصول علم ہو، علاج کی سہولت ہو، معیار زندگی ہو، تحفظ ہو، کچھ بھی مناسب شکل میں دستیاب نہیں ہے۔شاہدرہ والا تایا پھانسی لگ جائے گا لیکن اس ماں کے وہ تین بچے تو واپس نہیں مل سکیں گے، چاہے وہ بیچاری تین اور کیوں نہ جن لے۔ کراچی والا 26 سال کا مزدور پھانسی پر جھول جائے گا لیکن نو اور پندرہ سال کی وہ بچیاں جنہوں نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا ماسوائے مزدور ماں باپ کے عذابوں کے اور باپ کے نابکار دوست کی دست درازی کے دوبارہ اس دنیا میں نہیں آئیں گی۔ ریاست کا کام لوگوں کو اچھی زندگی گذارنے کے تمام وسائل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جب پاکستان کی ریاست کو ناکام ریاست کہا جاتا ہے تو ریاست کو لشتم پشتم چلانے والوں اور ان کے حامیوں کو آگ لگ جاتی ہے کیونکہ ریاست ناکام سہی ان کی زندگیاں تو کامیاب، سپھل اور آسودہ ہیں، باقی لوگ جائیں بھاڑ میں، کچھ قتل ہوتے رہیں اور کچھ پھانسی چڑھتے رہیں، انہیں اس سے کیا غرض۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...