' مٹر ' کھانے کی تاریخ
الفرڈ ہچکاک
ترجمہ؛ قیصر نذیر خاور
یہ الفرڈ ہچکاک کا لکھا پہلا مضمون ہے ۔ اختصار اور مزاح کا یہ عمدہ نمونہ پہلی بار ' The History of Pea Eating ' کے نام سے دسمبر 1920 ء میں ' ہینلے ٹیلی گراف ' لندن ، برطانیہ میں شائع ہوا تھا ۔
جدید سائنس نے سماجی زندگی پر دُور رس اثرات تو ڈالے ہیں لیکن ایک مسئلہ ابھی باقی ہے جس نے دنیا کی مزید ترقی کو باندھ لگا رکھی ہے ۔ یہ مٹر کھانے کا معاملہ ہے ۔ شروع کے زمانوں میں انہیں کیسے کھایا جاتا تھا اسے کھوجنے کے لئے کئی طریقے برتے گئے ہوں گے لیکن ہم صرف یہ پڑھتے آ رہے ہیں کہ قبل از تاریخ کا انسان مٹروں سے بھری تھالی میں بس منہ ڈال دیتا تھا اور بنا ہاتھ ہلائے ، انہیں ہڑپ کر جاتا تھا ۔
یہ بات ماننا پڑے گی کہ یہ طریقہ بہت ہی واہیات ہے کیونکہ کسی فربہ اندام شریف آدمی کو اسے استعمال کرتے دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ وجہ سیدھی سی ہے ، اس سے پہلے کہ اس کا منہ تھالی میں پڑے اس کا موٹاپا اسے زمین پر لڑھکا دے گا ۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ قرون وسطیٰ کے اوائل میں سر’ روجر ڈی ۔ آرکی ‘ کو اس مسئلے کا حل تلاشنے میں کچھ زیادہ دقت نہ ہوئی تھی ۔ انہوں نے اپنی تلوار کے دستے کے ساتھ ربڑ کے دو لچکیلے ٹکڑے لگا کر اسے غلیل بنا ڈالا تھا اور وہ اس کے چمڑے والے حصے میں مٹر رکھ کر اپنے کھلے منہ کا نشانہ لگایا کرتے تھے لیکن یہ طریقہ اُن بہت سوں کے لئے باعث زحمت و خفت ثابت ہوا جن کا نشانہ اچھا نہ تھا ۔ ایسے لوگ اکثر یہ مقابلہ ہار جاتے ۔ سر ’پرسی‘ نے تو ایسا کرنے میں بیرن ’ ایڈگر‘ کی زوجہ پر ، جو کمرے کے دوسرے سرے پر تھیں ، مٹروں کی بارش کر دی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ایک قانون منظور کیا گیا تھا کہ کوئی شخص بِنا ’ لائسنس ‘ یہ طریقہ استعمال نہیں کرے گا اور اسے مٹروں سے شکم بھرنے کے واسطے اس کے لئے ' مہارت ' کا ایک باقاعدہ امتحان پاس کرنا پڑتا تھا ۔
ایسی پابندیوں نے مٹروں کی شہرت کو اتنا نقصان پہنچایا کہ وہ عنقا ہوتے ہوتے سبزی فروشوں کے ہاں سے غائب ہی ہو گئے ۔ کئی سالوں بعد جب یہ دوبارہ اگائے جانے لگے تو اِنہوں نے ان مقابلوں کو رواج دیا جو اب ’ مٹر کھانے کے مقابلوں‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ ان کی تفصیلات میں جائیں تو سلیقہ شعاری کے کئی نئے طریقے سامنے آتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے؛ مقابلے میں حصہ لینے والے ہر شخص کو اپنی تلوار کی نوک پر مٹر کو اس توازن سے رکھ کر کھانا ہوتا تھا کہ کوئی ایک دانہ بھی گر نہ پائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے مقابلے اس لئے زیادہ دلچسپ ہو جاتے تھے کہ مقابلے میں شریک اکثر لوگوں کے منہ اور چہرے زخمی ہو جاتے تھے ۔ عام خیال یہ بھی ہے کہ مٹر کھانے کے انہی مقابلوں نے ’ تلوار ‘ کھانے کی شعبدہ بازی کو جنم دیا تھا اور آج جو لمبے اور گہرے منہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں وہ اسی زمانے کے جیتنے والوں کی اولاد ہیں ۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ابھی بھی کئی قابل احترام ہستیاں اسی طریقے سے مٹر کھاتی ہیں گو ان کی تعداد اب بہت گھٹ گئی ہے ۔
بعد کے زمانوں میں مٹر کھانے کے کئی اور طریقوں کو برتا گیا ۔ آج کے زمانے کے مٹروں کا نشانہ لگانے والے لونڈے ان خادموں کی یاد دلاتے ہیں جو اپنے مالکوں کے منہ کا نشانہ باندھ کرانہیں مٹر کھلایا کرتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ نشانہ چوکنے پر انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑتے تھے ۔
ہمیں آج بھی مٹر کھانے کے ایک درست ، کار آمد اور تسلی بخش طریقے کی ضرورت ہے ۔ حال کے ہی ایک موجد نے ایک طریقہ وضع کیا جس میں منہ میں رکھی جانے والی ایک نالی کا استعمال تھا ، اس میں میکانکی ذریعے سے ہوا کا دباﺅ اس طرح پیدا کیا جاتا کہ مٹر سیدھے منہ میں جاتے لیکن شومئی تقدیر موجد نے تجربات کے دوران سہواً ہوا کا دباﺅ الٹی طرف پیدا کر دیا ۔ بےچارے کی زبان کھنچ کر باہر آ گئی تب سے وہ ہکلائے کتے کی طرح لمبی زبان لئے پھر رہا ہے ۔
ایک اور شخص نے یہ مشورہ دیا کہ مٹروں کو' برقی رو ' کے سہارے منہ تک پہنچایا جائے لیکن اس ذریعے کا خیال ہی اتنا خوفناک تھا کہ اس پر کسی نے عمل درآمد کرنے کا سوچا بھی نہیں ۔
اس وقت مٹر کھانے کے حوالے سے مختلف معقول طریقوں پر جو تجربات ہو رہے ہیں ان میں ایک تو شہر کا مشہور مالی کر رہا ہے جو چوکور مٹر اگانے کی کوشش میں ہے تاکہ مٹروں میں لڑھکنے کی صلاحیت سے ہی چھٹکارا پایا جا سکے ۔ امید واثق ہے کہ یہ تجربہ ضرور کامیاب ہو گا ۔
اس انتہائی اہم سائنسی بڑھوتی کے لئے اگرقارئین کے ذہن میں کوئی اچھوتا خیال ہو تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے اور اسے متعلقہ حکام تک پہنچائیں گے ۔ برائے مہربانی اپنی تجاویز ’ منیجر ، دی ہینلے ٹیلی گراف‘ کو ارسال فرمائیں ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153711302091895