ہم گروہوں کی صورت میں آئے۔
ہم گروہوں کی شکل میں مشہد سے آئے۔ نیشاپور سے آئے۔ بخارا اور ترمذ سے آئے۔ شہرِ سبز سے آئے۔ گردیز اور بلخ سے آئے غور اور غزنی سے آئے۔ گیلان اور تبریز سے آئے۔
ہم جہاں سے بھی آئے۔ ہمارے لیے پشاور نے اپنے دروازے کھولے۔ ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹا۔ ہمیں کھانے کو نان اور سونے کو بستر دیا۔ پھر ہم وہاں سے چلے۔ ہم میں سے کچھ لاہور بس گئے۔ کچھ دہلی، کچھ جونپور، کچھ پٹنہ، کچھ لکھنؤ، کچھ دکن۔ ہم نے اٹھارہ گھڑ سواروں کے ساتھ ڈھاکہ فتح کیا۔ ہم آسام گئے، اور آباد ہوئے۔ یہ سارے احسانات پشاور کے تھے۔
پشاور دروازہ ہے جو اب بھی ہمارا تعلق ان سرزمینوں کے ساتھ جوڑتا ہے جو ہم نے چھوڑیں۔ پشاور کھڑکی ہے جس سے ہمیں اب بھی ترمذ، بخارا، گیلان، مشہد اور تبریز کی ہوا آتی ہے۔ جس سے وسط ایشیا کے میدانوں کی دھوپ در آتی ہے۔ جس سے افغانستان کے چھوڑے ہوئے تاکستانوں اور ایران کے چھوڑے ہوئے زعفران زاروں کی خوشبو آتی ہے اور ہم سے اور ہم اس سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔
مگر آہ! پشاور کے ان احسانات کا بدلہ ہم نے کیا دیا؟ خون اور آگ۔ لوہے کی بارش، بارود کے انبار، اسلحہ کی یورش، گولیوں کی بوچھاڑ، مہاجرین کے ہجوم!
کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے جس نے اپنے شہر کو اور صوبے کو یوں چھوڑا کہ پچھواڑے کی دیوار ہی نہیں ہے۔ کیا کوئی ذی ہوش شخص اپنے مکان کو یوں رکھتا ہے کہ عقب کھلا ہو اور جو چاہے، اندر آ کر مکینوں کو قتل کرتا پھرے ؎
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لیے
یہاں دیوار کیا گرتی، دیوار تو تھی ہی نہیں!
بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزا رتک غیر ملکی روزانہ خیبرپختونخوا میں داخل ہوتے ہیں جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں ہوتیں۔ پاسپورٹ کے بجائے کلاشنکوف ہوتی ہے۔ ویزے کی جگہ بارود ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے جس کا سوا دو ہزار کلومیٹر بارڈر دنیا بھر کے مجرموں، دہشت گردوں، ڈاکوئوں، لٹیروں، جاسوسوں کے لیے کھلا ہو؟ مشیرِ خارجہ نے کچھ عرصہ پہلے حسرت کا اظہار کیا کہ درمیان میں دیوار ہوتی! تو پھر دیوار آپ کیوں نہیں بناتے؟ سترسال میں ایک ایک اینٹ بھی لگائی جاتی تو اب تک دیوار چین بن چکی ہوتی۔ بارڈر سے اِس طرف تو آپ کا اپنا ملک تھا۔ آپ جو چاہتے کر سکتے تھے۔ پہریداروں کے لیے برج بنوا سکتے تھے۔ باڑ
(Fence)
لگوا سکتے تھے۔ حکمرانوں کے دوروں عیاشیوں، محلات، پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ ہوتے رہے، کھلے بارڈر کی کسی نے فکر نہ کی۔ اب یہ بارڈر دہشت گردوں کے لیے شاہراہِ عام ہے۔ اب ایک نہیں کئی فضل اللہ دن میں کئی بار آتے اور جاتے ہیں۔
جو ملک اپنے بارڈر مستحکم نہیں کر سکتا۔ اس کے بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بچوں کے ساتھ ہوا۔ ستر سال ہم نے وزیرستان اور فاٹا میں وہی پالیسی اپنائے رکھی جو گوری چمڑی والے آقائوں نے بنائی تھی۔ ہم نے اِن علاقوں کو راشی افسروں کے سپرد کیے رکھا۔ کروڑوں اربوں روپے پولیٹیکل ایجنٹوں کی صوابدید پر رکھے۔ جو انہوں نے اپنی مرضی سے سمگلروں، خانوں اور ملکوں کو دیئے اور کچھ ادھر ادھر کیے۔ عام قبائلی بیچارہ بنیادی سہولتوں کو ترستا رہا۔ ایک سیاست دان کا لختِ جگر وہاں تعینات کیا گیا جہاں ٹِمبر(عمارتی لکڑی) مافیا سے ہر روز تین لاکھ روپے وصول ہوتے تھے اور یہ سالہا سال پہلے کی بات ہے اور یہ صرف ایک مثال ہے۔ کوئی ہے جو اِس بے زبان قابلِ رحم قوم کو حساب دے کہ اڑسٹھ برسوں میں کتنے روپے پولیٹیکل ایجنٹوں کو دیئے گئے اور کتنے بانٹے گئے؟ اور کس کس کو بانٹے گئے؟ یہ رقوم آڈٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھی گئیں! کیوں؟ کیا یہ ملک جنگل ہے؟ کیا باجوڑ، مہمند،خیبر کے رہنے والے، کیا شنواری اور آفریدی، وزیر اور محسود اس ملک کے باشندے نہیں؟ مانا وہ اتنے ’’عظیم‘‘ اور ’’سپیریئر‘‘ نہیں جتنے تمہارے لاہور اور کراچی کے باشندے ہیں لیکن اللہ کے بندو! وہ بھی پاکستانی ہیں، وہ بھی مسلمان ہیں، وہ بھی
اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ تم نے ظلم یہ کیا کہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیں اور قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں دیں۔ تم نے اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ دیئے اور قبائلی بچوں کو بندوقیں تھمائیں۔ تم نے اپنے بچوں کو پڑھنے امریکہ بھیجا اور قبائلی بچوں کو بہادر کہہ کر میدانِ جنگ میں جھونک دیا۔ تم نے اپنے بچوں کو بزنس مین بنایا اور قبائلی بچوں کو شہادت کے فضائل سنائے۔ تم نے جہادیوں کی وہ فصل بوئی جو آج آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بچے کاٹ رہے ہیں۔ تمہیں چیچنیا سے لے کر عراق تک اور فلسطین سے لے کر افغانستان تک، ہر ایک کا غم کھاتا رہا مگر تم نے نہ کیا تو اپنے بچوں کا غم نہ کیا۔ تم نے دیوارِ برلن کے ٹکڑے اپنے قیمتی ڈرائنگ روموں میں سجا لیے مگر آہ! تم کوئی ایسی دیوار نہ بنا سکے جو تمہارے اپنے بچوں کے لیے اوٹ کا کام دیتی۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس پر قربان ہونے والے عساکر کو شہید ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔ انکار کرنے والے اسی سرزمین کی چاندنی، ہوا اور پانی سے حظ اٹھاتے ہیں۔ اس ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قاتلوں کے پھانسی چڑھنے پر واویلا مچتا ہے کہ ’’اسلام پسندوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ پھر واویلا مچانے والے مگرمچھ کے آنسو بہاتے پھرتے ہیں۔ آہ! نفاق! ہائے نفاق! یہ کیسے لوگ ہیں جو اِس طرف ہیں نہ اُس طرف!
مُذَبْدَبِیْنَ بَیْنَ ذٰالِکَ، لَا اِلٰی ھٰٓؤُلائِ وَلَا اِلٰی ھٰٓؤُلائِ
بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔ نہ اِن کی طرف نہ اُن کی طرف۔ مذمت کے لیے کہا گیا تو جواب دیا، یہ فتنوں کا زمانہ ہے۔ مذمت کی بھی تو ساتھ اگر مگر لگا کر۔ دودھ دیا بھی تو مینگنیاں ڈال کر۔ اسی ملک میں، جی ہاں اسی ملک میں ایسے رسائل بھی چھپتے رہے جن میں آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد جو حفاظتی اقدامات کیے گئے اور جو ایکشن لیا گیا اُس پر طنز کیے گئے، حملہ آوروں کا بین السطور دفاع کیا گیا، جی ہاں! اسی ریاست میں کئی ریاستیں بستی ہیں، کئی قانون ہیں۔ اسی ملک میں ایسے لوگ ہیں جو شہیدوں کو ہلاک اور قاتلوں کو مجاہد کہتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں ہیں اور ان ریاستوں کے سربراہ بھی ہیں!!
ماتم کرو! نوحہ خوانی کرو! بال کھول لو! سیاہ لباس پہن لو! سروں پر دو پتھر مارو! سینہ کوبی کرو۔ جو چاہے کر لو، مگر تمہارے بارڈر کھلے رہیں گے۔ غیر ملکی تمہارے شہروں، قصبوں، قریوں، بستیوں میں مسلح ہو کر دندناتے رہیں گے۔ تمہارے رشوت خور بے حیا اہلکار چند سکوں کی خاطر غیرملکیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیتے رہیں گے۔ مادرِ وطن کے دودھ سے غداری کرتے رہیں گے۔ تمہارے اندر وہ لوگ پنپتے اور مسکراتے رہیں گے جو تمہیں کافر سمجھتے ہیں اور تمہارے بچوں کو قتل کرنا اپنا مذہبی فریضہ گردانتے ہیں۔
جس ملک کے بارڈر کھلے ہوں اور جس ملک میں ’’اگر مگر‘‘ کرنے والے لوگ لاتعداد ہوں، اور وفاداریاں بکھری ہوئی ہوں اور تعلیمی نصاب بے شمار ہوں اور باشندے ’’نیکو کاروں‘‘ اور ’’گنہگاروں‘‘ میں بٹے ہوئے ہوں اور حکمران بے نیاز ہوں اور پالیسی سازوں کا وژن ناپید ہو اور سرداروں نے اپنے اپنے قبیلے کو رعایا اور جاگیرداروں نے ہاریوں کی عورتوں کو رکھیل بنایا ہوا ہو، اور لوگ بے سمت بھیڑوں کی طرح الگ الگ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہوں، اُس ملک میں یہی کچھ ہو گا اور یہی کچھ ہوتا رہے گا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔