مطلقہ اور بیوہ کی عدت: ایک جائزہ
……….
قرآن مجید میں طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد خواتین کو عدت پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدت کا اصل مقصد قطعی طور پر یہ معلوم کرنا ہے کہ خاتون حمل سے ہے یاا نہیں۔ طلاق کے بعد اگر وہ فوراً دوسری شادی کر لے تو بچے کا نسب مشتبہ ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ جس خاتون کو محض نکاح کے بعد طلاق دے دی جائے اور تعلق زن و شو قائم نہ ہوا ہو، اس پرشریعت نے کوئی عدت نہیں مقرر نہیں کی۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا فَمَتِّعُوْھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا)الاحزاب ۳۳: ۹۴(
”ایمان والو، (اِس لیے کہ) جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرتے ہو، پھر ہاتھ لگانے سے پہلے اُن کو طلاق دے دیتے ہو تو اُن پر تمھاری خاطر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کا تم شمار کرو گے۔ لیکن (اِس صورت میں بھی ضروری ہے کہ) اُنھیں کچھ سامان زندگی دو اور اُن کو بھلے طریقے سے رخصت کرو۔“
اسی بنا پر حاملہ عورت کی عدت وضع حمل مقرر کی گئی ہے، بچے کی ولادت اگر طلاق ملنے یا شوہر کی وفات کے دن ہی ہو جائے تو عورت پر عدت نہیں رہتی:
{وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق: 4]
اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔
شریعت نے یہ چند صورتیں ہمارے سامنے رکھ دیں ہیں جن میں امکانِ حمل جب نہیں پایا گیا تو عدت بھی مقرر نہیں کی گئی، اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مزید ایسی قطعی صورتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں جس میں حمل کا امکان نہ پایا جائے تو وہاں بھی عدت لاگو نہیں ہوگی۔ مثلا قطعی طور پر بانجھ خاتون، ایسی عمر رسیدہ کہ حمل کا امکان مفقودہو، ایسی بیوہ جس کا خاوند سے تعلق زن و شو قائم نہ رہا ہو، نیز میڈیکل رپورٹ سے بھی اگر قطعی طور پر یہ ثابت ہو جائے کہ عورت کو حمل نہیں ہے تو عدت پوری کرنے کی ضرورت لازمی طور پر نہیں ہوگی،یہ اس لیے کہ حمل کی حالت معلوم کرنے کا جو مقصد پیش نظر تھا،وہ حاصل ہو چکا ہے۔ ایسی صورت میں طلاق دینے والے مرد کو اپنی مطلقہ عورت سے رجوع کرنے کا حق بھی نہیں ہوگا،تاہم وہ اس سے نکاح ثانی کر سکتا ہے اگر یہ تیسری دفعہ کی طلاق نہ ہو۔
یہاں چند سوالات یا اعتراضات پیدا ہوتے ہیں:
پہلا یہ کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ استقرار حمل کا امکان تو ایک حیض ہی سے ختم ہو جاتا ہے،عورت کو حمل ٹھیر جاتا ہے تو حیض آنا بند ہو جاتا ہے، تو پھر شریعت میں تین حیض کی مدت کیوں مقرر کی گئی ہے؟ اگر عورت کی عدت کی حکمت صرف یہ معلوم کرنا ہو کہ سابقہ خاوند سے اس کوحمل ہے یا نہیں، تویہ مدت محض ایک حیض ہونی چاہیے تھی،لیکن شریعت نے طلاق یافتہ عورت کی عدت تین حیض،بیوہ کی چار ماہ دس دن اور غیر حائضہ کی تین ماہ مقرر کی ہے۔ اب چار ماہ دس دن اور تین ماہ تو بالکل واضح ہے کہ اس گنتی کا حمل کی حالت معلوم کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس عدت میں اصل حکمت نہیں، اللہ کا حکم ہے کہ جس پر ہر صورت اور ہر حال میں عمل ہو گا۔
دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ میڈیکل سائنس کے مطابق مرد کا سپرم عورت کے رحم میں پانچ دن سے زیادہ زندہ نہیں رہتا، تو پھر عدت کے لیے تین حیض یا چار ماہ دس دن تک انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ عدت کے دوران مرد کا حقِ رجوع اوپر ہماری بیان کردہ تعبیر کی صورت میں ختم ہو جاتا ہے جس سے شریعت کا ایک منشا فوت ہو جاتاہے۔
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ایک حیض سے ہمیشہ قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حمل ہے یا نہیں۔ طبی سائنس کے اعداد و شمار سے یہ واضح ہے کہ حمل کے پہلے تین ماہ (First Trimester) میں حیض نما خون آنا ۰۲ سے ۰۳ فی صد خواتین میں عام پایا گیا ہے، اور اس کی متعدد وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ خصوصاً اگر حیض کے قریب مباشرت سے حمل ٹھیرا ہوا تو حیض کا خون بیش تر کیسز میں آ تا ہے۔ اس لیے ایک حیض سے بغیر سائنسی ذرائع کے قطعی طور پر حمل کا نہ ہونا معلومنہیں ہوتا۔ اس لیے شریعت نے حمل کی حالت قطعی طورپر معلوم کرنے کے لیے عدت مقرر کی۔ دوسرے سوال کا جواب بھی اسی میں مضمر ہے کہ جدید سائنسی ذرائع کی عد م موجودگی میں حمل ٹھیرنے یا ٹھیرنے کے امکان کے واضح ہونے کے لیے عدت کا وقت گزارنا ضروری تھا۔
مطلقہ،بیوہ اور غیرحائضہ کی عدت کی بظاہر مختلف مدتو ں کے پیچھے دراصل ایک ہی اصول کارفرما ہے جس کی وضاحت ذیل میں کی جاتی ہے:
شریعت کا منشا یہ ہے کہ عدت کی گنتی میں کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے:
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} [الطلاق: 1]
اے نبی، تم لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دو تواُن کی عدت کے حساب سے طلاق دو، اور عدت کا زمانہ ٹھیک ٹھیک شمار کرو
اس لیے مرد کو یہ حکم ہے وہ ایک ایسے طہر میں بیوی کو طلاق دے جس میں تعلق زن و شو نہ قائم ہوا ہو۔ اس کے بعد تین حیض سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ خاتون حمل سے نہیں۔ شوہر کی وفات کی صورت میں چونکہ شوہر پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی تھی کہ وہ ایسے طہر میں فوت ہوجس میں زن و شو کا تعلق قائم نہ کیا گیا ہو، اس لیے بیوہ کی عدت بڑھا کر چار ماہ دس دن کر دی گئی تاکہ تین حیض سے قبل تعلق قائم ہوا بھی ہو تب بھی مزید ایک ماہ دس دن سے معاملہ قطعی طور پر واضح ہو جائے۔
غور کیجیے تو حمل کا حال معلوم کرنے کی یہ مدت، طلاق اور بیوگی دونوں کی عدتوں میں عملاً چار ماہ سے زائد بنائی گی ہے۔ وہ اس طرح کہ شرعی طریقہ سے طلاق دی گئی ہو تو ایسے طہر میں طلاق دی جانی چاہیے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طہر سے پہلے حیض اور اس سے پہلے طہر میں مباشرت سے اگر حمل ٹھیرا ہو تووہ طہر جس میں طلاق دی گئی اور اس سے اگلے تین حیض تک یہ مدت حمل کے لیے چار ماہ سے کچھ دن زیادہ بنتی ہے، یعنی تقریبا اتنی ہی جتنی بیوہ کی عدت ہے۔ بغیر کسی سائنسی ذریعہ کے حمل کی حالت معلوم کرنے کے لیے یہ کم سے کم قطعی مدت ہے۔ چارہ ماہ کا حمل نہ صرف نظر سے معلوم ہو جاتا ہے، بلکہ بچے کی حرکت بھی چوتھے ماہ سے شروع ہوتی ہے۔ گویا حمل کے معاملے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ اگر حمل چھپانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہو تو وہ بھی اتنی مدت میں ظاہر ہو کر رہتاہے۔ چنانچہ دیکھا جائے تو مطلقہ اور بیوہ، دونوں کے حمل کی حالت معلوم کرنے کے لیے تقریباً ایک جتنی مدت مقرر کی گئی ہے۔
غیرحائضہ کی عدت مقرر تین ماہ ہے، اب اس پر بات کرتے ہیں:
{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْن} [الطلاق: 4]
تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں، اور وہ بھی جنھیں (حیض کی عمر کو پہنچنے کے باوجود) حیض نہیں آیا، اُن کے بارے میں اگر کوئی شک ہے تو اُن کی عدت تین مہینے ہو گی۔
جس طرح حائضہ کی عدت تین حیض مقرر کرنے میں یہ بات مضمر ہے کہ عدت کی مدت میں کسی ابہام سے بچنے کے لیے اسے ایسے طھر میں طلاق دی جانی چاہیے جس میں تعلق زن و شو قائم نہ کیا گیا ہو، اسی طرح غیر حائضہ کے معاملے میں بھی مرد پر یہی پابندی لگائی جائے گی کہ ایسی خاتون کو طلاق دینے سے پہلے ایک ماہ تک تعلق زن و شو قائم نہ کیا گیا ہو۔اس کی خلاف ورزی کرنے پر وہی کارروائی کی جا سکتی ہے جو مطلقہ حائضہ کے معاملے میں کی جا سکتی ہے۔ اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو رہنمائی ہم تک پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ عدالت ایسے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر مرد کو رجوع کا حکم دے سکتی ہے اور اگر حالات کا تقاضا ہوتوایسی طلاق کو نافذ بھی کر سکتی ہے۔ تاہم اس پر نکیر کی جائے گی۔
یہاں آئسہ یعنی حیض آنے سے مایوس خاتون سے مراد وہ آئسہ ہے جس کو حمل ٹھرنے کا امکان ہواس کی وضاحت ان ارتبتم (ان کے حمل کے بارے میں تمھیں شک ہو) کے الفاظ سے ہو رہی ہے۔ اس سےمراد وہ عمر رسیدہ آئسہ نہیں ہو سکتی جس کے ہاں یہ امکان ہی مفقود ہو۔
تیسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ عدت کی مدت کے دوران مرد کے لیے رجوع کا حق اس مہلت کا ایک اضافی یا ضمنی فائدہ ہے۔ یہ ضمنی فائدہ اگراصل ہوتا یا ایسا موثر ہوتا کہ عدت کو ہر حال میں برقرار رکھ سکتا تو مطلقہ غیر مدخولہ (جسے نکاح کے بعد صحبت سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو)کے معاملے میں بھی اس کی پابندی ہونی چاہیے تھی کہ یہاں تعلق حقیقتاً شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا، اور رجوع کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ممکن ہے کہ تعلق اگر ایک بار شروع کرا دیا جاتا تو نباہ کی صورت بن جاتی، اورمرد اور خاتون اور ان کے خاندان اس قبل از وقت قطعِ تعلق کی تکلیف سے بچ پاتے۔ نیز یہی عدت مطلقہ کےوضع حمل کے بعد بھی ہونی چاہیے تھی کہ دنیا میں آنے والا بچہ باپ کی شفقت سے محروم نہ رہے، لیکن معلوم ہے کہ طلاق یافتہ خاتون طلاق ملنے کے فورا بعد بھی اگر حمل سے فراغت پا جاتی ہے تو اس پر کوئی عدت نہیں رہتی۔
ایسی صورت میں مرد و عورت اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تونکاح ثانی کا دروازہ البتہ کھلا ہوا ہے۔
ہمارے معروضی سماجی حالات میں عدت کے یہ پہلو لوگوں پر چونکہ واضح نہیں، اس لیے نزاعات سے بچنے کے لیے مجاز اتھاڑٹیزکو فریقین کی رضامندی اور اعتماد سے کوئی فیصلہ لینا چاہیے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“