متاعِ زیست
گڈی کی شادی کا ہنگامہ تھا اسکے کمرے میں سبھی رشتہ دار اور سہیلیاں جمع تھیں شام قریب تھی رخصتی کا وقت بھی قریب تھا اور وہ تصویر کا سینے سے لگائے سوچ رہی تھی آج تو ہر چیز اسکے پا ستھی زندگی کا ہر سکھ اسکے دامن میں تھا اور ان خوشیوں کا بدل کسی صورت واپس نہیں آسکتا تھا یہ سارے سکھ عیش وعشرت والی زندگی اس ایک چیز کا مداوا نہیں کرسکتے تھے اور وہ ایک کمی ہر خوشی کو ادھورا کر رہی تھی کاش کہ وہ قیامت جیسے لمحے ہماری زندگی میں آئے ہی نہ ہوتے۔
دولت کبھی محبت کا بدل ہو بھی نہیں سکتی جو ہماری اصل دولت تھی وہ لٹ چکی تھی ۔۔بھائی۔۔۔گڈی کے آنسو روانی سے بہنے لگے ۔۔۔بھائی۔۔۔کہاں ہے تو ۔۔۔تیرے بنا کیسے اس بے چین دل کو قرار آئے گا۔
گڈی ۔۔۔کے آنسو اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے اور وہ آنکھیں بند کئے اسوقت کا یاد کرنے لگی ۔۔گڈی ۔۔بھائی اٹھ جاؤ۔۔وہ بار بار آواز دے رہی تھی ساتھ ساتھ کام بھی نپٹا رہی تھی ۔۔
رحمت ابھی گہری نیند میں تھا کہ برتنوں کی اٹھا پٹھک سے کان جھنجنا اٹھے اور وہ بوجھل آنکھیں لئے اٹھ بیٹھا جیسے ہی آنکھیں کھلیں ذہن بیدار ہوا اور پھر سے وہی سوچ حاوی ہونے لگی کہ کتنے آفسوں کے دھکے کھانا ہے اور نہ جانے آج بھی کہاں کہاں جانا پڑے اور ویسے بھی رحمت کے پاس ان آفسوں کے دھکے کھا نا ہے اور نہ جانے آج بھی کہاں کہاں جانا پڑے اور ویسے بھی رحمت کے پاس ان آفسوں کے دھکے کھانے کے کوئی اور کام بھی نہیں تھا تبھی رحمت کی ماں نے آواز دی۔
بیٹا اٹھ جاؤ!آج لڑکے والے گڈی کو دیکھنے آنے والے ہیں پہلے منہ ہاتھ دھو کے بازار سے مہمانوں کے لئے کچھ لیتا آ۔یہ رشتہ ہوجائے تو میرے سر سے ایک بوجھ ہٹے ۔بیٹی تو رحمت ہے مگر آج بوجھ ہوگئی ہے ایک تو غریبی اوپر سے بے روزگاری پھر لڑکے والوں کی مانگ ۔۔۔ایسا لگتا ہے بیٹی زحمت ہے۔رحمت کی ماں بیٹی کے رشتے کے لئے بہت پریشان ہے۔
امجد کہتا ہے۔۔۔۔بھائی آج میری بھی فیس بھرنی ہے ورنہ مجھے کالج سے نکال دیا جائے گا بھائی آخر کب تک ہم یوں ہی مجبوری کی زندگی گزاریں گے کب تمہاری نوکری لگے گی کب ساری پریشانیاں ختم ہونگیں ۔۔مجھے لگتا ہے تمہیں تو نوکری ملنے سے رہی ۔۔۔ہماری پھوٹی قسمت نہ جانے کب جاگے گی۔
رحمت کی ماں ۔۔کہتی ہے بیٹا چپ ہوجا اسکے پاس دیر ہے اندھیر نہیں ۔ہمارا بھی اندھیرا بھی دور ہوگا ہمارا رحمت اللہ کی رحمت سے سب اندھیروں کا اجالوں میں بدل دے گا ۔۔بھروسہ رکھو۔
رحمت۔۔بھائی کی باتوں سے مغموم ہوجاتا ہے منہ دھوتے ہوئے کہتا ہے ۔۔میں کیا کروں اماں !کیسے سمجھاؤں امجد کو یہ برا وقت تھوڑے دن کا مہمان ہے ۔دیر سویر گذر جائے گا ہمارے بھی اچھے دن آئیں گے حالات بدلیں گے۔۔
میں ہر روز سڑکوں کی خاک چھانتا پھر رہا ہوں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تو نوکری لگ ہی جائے گی ۔ماں آجکل رشوت کا زمانہ ہے نہ میرے پاس ہے پیسے ہیں نہ سفارش ماں ۔۔۔تو نہیں جانتی آج ان دونوں کی بہت ضرورت ہے ۔قابلیت اور صلاحیت کچھ ہونا بہت مشکل ہے۔
گڈی۔۔۔ماں اور رحمت کی باتیں بڑے دھیان سے سنتی ہیں اور کہتی ھیکہ بھائی کو کیا خاک نوکری ملے گی آج پیسہ ہی سب کچھ ہے ماں تیرا ماں بیٹا بہت ہی لائق ہے قابل ہے مگر آج کل لوگ اس قابلیت کا اچار ڈالتے ہیں اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے لوگوں میں نہ ایم،انداری باقی ہے نہ مروت وخلوص ۔۔۔سچ پوچھو نہ ماں تو آج کی دنیا میں یہ پیار محبت ،ہمدردی سب کتابی باتیں ہیں اور انکے بغیر تم دونوں یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو۔
ماں ۔۔۔۔کہتی ہے ایسا نہیں کہتے بیٹا گڈی تو چپ ہوجا۔۔۔
رحمت ۔۔کو بہت غصہ آتا ہے اور وہ اس بے کاری سے خود کو بے بس و لاچار محسوس کرنے لگتا ہے ۔۔اور کہتا ہے یہ دھوکہ دہی ، رشوت خوری اور بے ایمانی سے مجھے نوکری نہیں چاہیئے۔مجھے اپنی تعلیمی قابلیت اور اپنی صلاحیت سے نوکری حاصل کرنی ہے ورنہ اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ؟میں نے بہت محنت و مشقت سے یہ پی جی تک تعلیم حاصل کی ہے تاکہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکوں تم سب کو ایک اچھی زندگی دے سکوں ۔۔یہ چاپلوسی اور رشوت خوری کے لئے نہیں ۔۔۔مگر گڈی میں کیا کروں نہ قسمت ساتھ دے رہی ہے اور نہ ہی قابلیت۔۔
گڈی ۔۔میری پیاری بہنا ۔۔میری نوکری لگتے ہی تیرا بیاہ ایک اچھے گھرمیں کردونگا امجد کو خوب پڑھاؤں گا اور ایک انجنئیر بناؤں گا۔ ماں کو ایک اچھی زندگی دوں گا ۔۔ماں نے آج تک زندگی کا کوئی سکھ نہے دیکھا ہے۔۔میں سب کچھ کرونگا۔۔
ماں تو جانتی ہے نا میں ہر روز ایک نئی کوشش کرتا ہوں اور ناکام ہوجاتا ہوں ۔۔میں کیا کروں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔۔پر ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے ۔
ماں۔۔تو آخر ماں ہوتی ہے جو موم سے نازک جذبات رکھتی ہے زرا سی بات سے پگھل جاتی ہے اور رحمت کی ماں بھی بیٹے کو تسلی اور دلاسے دیتی ہے صبر کر بیٹا ۔۔بہن بھائی کی بات کو دل ے مت لگا برا وقت ہے گزر جائے گا یہ بھی ہمارے صبر کا امتحان لیتا ہے تو ہمت مت ہارنا میرے بچے۔
رحمت ۔۔۔ماں کے ہاتھ چومتے ہوئے کہتا ہے میں بھی تو یہی سوچتا ہوں اور روز ایک نئے عزم کے ساتھ گھر نکلتا ہوں کہ آج مجھے میری منزل ملے گی اور ناکام گھر لوٹتا ہوں۔۔
ماں۔۔میری ماں مگر تیری یہ باتیں میری ہمت اور بڑھاتی ہیں اور میںپر سکون ہوجاتا ہوں ۔۔رحمت ۔۔بہت کچھ دل میں چاہ لئے ماں سے کہتا ہے ماں میں چلتا ہوں دعا کرنا آج میری کوئی نوکری لگ جائے میں خوشخبری کے ساتھ ہی گھر آؤ ں گا۔۔
ماں ۔۔۔کہتی ہے پر بیٹا آج گڈی کو دیکھنے لڑکے والے آرہے ہیں ایسے وقت بھی اگر تو گھر نہ رہے تو اچھا نہیں لگتا۔
ماں ۔۔تو امجد سے مہمانوں کے لئے کچھ منگوا لینا میں شام کو نوکری کی خوشی کے ساتھ لئے ہی گھر آؤں گا اتنے میں گڈی ۔۔دوڑتے ہوئے آتی ہے اور کہتی ہے بھائی کھانا کھا کے جانا غصہ سے پیٹ نہیں بھرتا چل پہلے کچھ کھا لے پھر چلے جانا۔۔
رحمت۔۔۔مجھے اسوقت بھوک نہیں ہے اگر لگی تو باہر کھا لوں گا تو پریشان مت ہونا ماں کے ساتھ کھانا کھا لینا۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔
رحمت۔۔بہت پریشانی اور مایوسی کی حالت میں گھر سے نکلتا ہے راستے میں آصف سے ملتا ہے جو اسکے بچپن کا واحد دوست ہے جو اسکی گھریلو پریشانیوں اور مالی حالت سے بخوبی واقف ہے ۔
کیا ہوا؟۔۔۔رحمت بڑا پریشان لگ رہا ہے کوئی پریشانی ہے یا طبعیت ٹھیک نہین ہے ۔۔نہیں یار ۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔
ُ پھر کیا ہوا ۔۔۔
کچھ نہیں یار۔۔۔
تیری صورت سے تو لگ رہا ہے تو بہت پریشان ہے ۔۔۔
ہاں یار ۔۔تو تو سب کچھ جانتا ہے میں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا روز خود کو تسلی دیتے دیتے تھک چکا ہواں ۔۔میری ماں روز نئے سپنے دیکھتی ہے ایک امید لگا تی ہے اور ہر شام وہ امید دم توڑ دیتی ہے ۔۔
گڈی کی آنکھوں میں شادی کے خواب ہر صبح روشن ہوتے ہیں کہ اسکا بھائی اسکی شادی ایک اچھے گھر میں کرے گا اور ہر شام وہ خواب ٹوٹ جاتا ہے ۔
امجد ۔۔کو تو توجانتا ہے بہت ہی ذہین اور محنتی ہے اگر میں نے اسکی فیس نہے بھری تو امتحان بھی نہیں دے سکے گا اور اسکے آگے کی تعلیم کا کیا ہوگا۔
تو جانتا ہے آصف یہ تمام مسئلے میری نوکری سے ختم ہوسکتے ہیں یا پھر میری سانس کے ختم ہونے سے ۔۔رحمت کی باتوں سے آصف بہت پریشان ہوجاتا ہے ۔۔یار تو یہ کیسی ناامیدی کی باتیں کرنے لگا ہے ہمت سے کام لے تو ہی ان سب کا سہارا ہے اگر تو ہی ایسی باتیں کرنے لگا تو باقی کو سہارا کون دے گا ۔۔دیکھنا اک دن تیری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی بس میرے دوست تجھے امید نہیں چھوڑنی ہے۔۔۔
ہاں ۔۔یار تو کہہ تو ٹھیک رہا ہے مگر اب میری ہمت ٹوٹنے لگی ہے سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں کیسے اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا ملے۔
اچھا یار ۔۔۔،میں چلتا ہوں ایک جگہ نوکری کے لئے بلایا ہے آج زاید میری ہر پریشانی ختم ہوجائے گی۔۔ رحمت ۔۔۔آصف سے ملنے کے بعد سیدھے سڑک کے کنارے اپنی ہو سوچ میں گم چلنے لگتا ہے اور چلتے چلتے بیچ سڑک پر آجاتا ہے وہ اطراف واکناف سے بیگانہ اپنی دھن میں چلتا ہے اور دیکھتا ہے کہ دوسری طرف سے بہت ہی تیز رفتاری سے ایک ٹرک آرہا ہے اور وہ سڑک پر چل رہے ایک آدمی کو اڑا سکتا ہے وہ اسکو بچانے کے لئے جاتا ہے اسکو روڈ کی دوسری طرف دھکا دیتا مگر اس سے پہلے کہ وہ خود کو بچانا وہ ٹرک کے نیچے آجاتا ہے اور اسے بس لوگوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیإ اور پھر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ اور ہر فکر سے آزاد ہو جاتا ہے۔۔
لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے۔۔اور رحمت کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے اور اسکے گھر بھی اطلاع دے دی جاتی ہے۔۔
امجد۔۔۔کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے وہ گڈی سے کہتا ہے بھائی ہسپتال میں ہے اسکو accidentہوگیا ہے گڈی چیخ مارتی ہے اور زور زور سے رونے لگتی ہے اسکے رونے کی آواز سے ماں بھی پریشاں ہوکر آجاتی ہے اور گڈی سے پوچھتی ہے۔
گڈی۔۔کیا ہوا ہے تو کیوں ایسے رو روہی ہے جیسے کوئی مرگیا ہے۔
ماں ۔۔ وہ ماں سے لپٹ کر زار وقطار رونے لگتی ہے ۔
ماں۔۔ زار وقطار رونے لگتی ہے مگر اسکے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلتی ہے صرف آنکھوں سے آنسو نکلنے لگتے ہیں ۔
تینوں جیسے ہی ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں وہاں لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے رحمت کے داست ، آس پڑوس اور جان پہچان کے تمام لوگ وہاں جمع ہوجاتے ہیں اور کوئی کہتا ہے بیچارہ کی عمر میں ہی کیا تھی یہ کیا ہوگیا۔۔۔اور وہ تینوں چپ چاپ چلتے ہوئے رحمت کے کمرے میںآتے ہیں اور ایسے چلتے ہیں گویا انکے جسم میں کائی جان باقی نہ ہو جیسے ہی قریب آتے ہیں ماں کی آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں بہن کی زبان گنگ ہوجاتی ہے اور امجد دھاڑیں مار مار کے رونے لگتا ہے ۔۔۔
ماں۔۔ کہتی ہے بیٹا رحمت اٹھ جاؤ میں نے تیرے لئے صبح سے کچھ نہیں کھایا یا تیرا انتظار کرتی رہی ۔۔اب تو اٹھ جا میرے بچے۔۔
رحمت۔۔۔رحمت ۔۔میرے بچے ۔۔آنکھیں کھول۔۔
دیکھ تیری ماں تیرا انتظار کر رہی ہے ۔
اور روتے روتے وہ بے ہوش ہو جاتی ہے ۔۔
ہوش میں آنے کے بعد وہ خود کو گھر میں پاتی ہے آصف پاس بیٹھا ہوا ہے کہتا ہے خالہ کچھ تو کھا لو پانی تو پی لو ہمیں رحمت کو اسکی آخری منزل تک پہنچانا ہے۔
اتنا سنتے ہی رحمت کی ماں پھر سے رونے لگتی ہے اور بے ہوش ہو جاتی ہے جب ہوش میں آتی ہے پھر آنسو بہنے لگتے ہے اور ایک سایہ دکھائی دیتا ہے وہ دیوانہ وار بھاگتی ہوئی اس سائیے تک پہنچتی ہے اور آواز دینے لگتی ہے رحمت۔۔۔رحمت میرے بچے تو آگیا۔۔
اور وہ سایہ اس کی ماں کے پیروں میں بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے مجھے معاف کردینا میری جان بچانے کے لئے اس نے اپنی جان دی ہے میں آپکے بیٹے کو تو واپس نہیں لاسکتا ۔۔ہاں آج سے اس گھر کی تمام ذمہ داریاں میری ہیں ۔۔ماں مجھے اپنا رحمت ہی سمجھنا ۔۔میرے پاس دولت کی کمی نہیں ہے بس محبت کا مارا ہوں ۔۔گڈی اور امجد اب میری ذمہ داری ہیں میں انکی پڑھائی لکھائی اور شادی کرونگا ۔۔یہ سب میرے ذمہ ہے۔۔
رحمت ۔۔میرا بچہ ۔۔چل بیٹا کھا لے۔۔میرے بچے تو نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔۔یہی الفاظ دہراتی جاتی ہے تب گڈی کہتی ہے۔۔ماں ہوش میں آ۔۔۔ماں بھائی نہیں رہا ماں ۔۔۔اور وہ ماں سے لپٹ کر رونے لگتی ہے ۔
ماں کہتی ہے میرا بچہ کہاں چلا گیا تو آج کہہ کے گیا تھا ساری پریشانیاں ختم کردوں گا آج تو نے ساری پریشانیاں ختم کردیں ۔۔۔بس نہ ختم ہونے والا غم دے گیا۔۔ہمارے جینے کا سب سامان دے گیا اور اپنی سانس کے ساتھ ہر پریشانی بھی ختم کرگیا ۔۔۔
گڈی بیٹا تیار ہونہ تم ۔۔ماں کی آواز سنتے ہی گڈی حال میں لوٹ آتی ہے اور آنسو صاف کرنے لگتی ہے۔ ماں۔۔۔جیسے کمرے میں داخل ہوتی ہے گڈی کو دلہن کے روپ میں روتے دیکھ کر اسکے قریب آتی ہے اور آنسو پونچھتی ہے ۔
گڈی ۔۔ماں ۔۔بھائی کے بنا یہ سب ادھورا ہے ماں ۔۔۔
اور دونوں مل کر رونے لگتے ہیں ۔
اور ماں گڈی سے کہتی ہے دیکھ اللہ نے میرے رحمت کو مجھ سے چھین لیا مگر اپنی رحمت سے سب کچھ ٹھیک کردیا۔
٭٭٭٭٭