مستیِ رنگِ قُدرت کا رقص۔
یہ تین تال پر مبنی ہے ۔ کیا زبردست رقص ہے ۔ نہ شروعات ہے نہ خاتمہ ۔ موجِ دریا کی طرح بہتا جاتا ہے ۔ ہم نادان لوگ نہ صرف اس میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں بلکہ اجتماعی تباہی و بربادی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے یہ سب کچ دیکھ کر کیونکہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس میں پوری کائنات کی Consciousness ڈالی گئ اور اس نے کیا کیا ، اس دماغ سے ایک دوسرے کو ہی مارنا شروع کر دیا ، پوری دنیا میں تباہی مچا دی ۔ کمال کی حماقت اور بیوقوفی ۔
اس رقص کے تین پہلو ہیں ، پہلا ہے ‘تضاد ‘۔ آپ کو بڑا واضح تضاد رات دن ، روشنی اندھیرا ، اونچا نیچا ، خوشی غمی ۔ بیماری تندرستی ، وغیرہ وغیرہ کی صورت میں نظر آئے گا ۔ اس تضاد کو enjoy کرنا ہے نہ کہ اگر غمی ہے تو مر جانا ہے ۔ یہ ایک continuity ہے ۔ زندگی کی ہر چیز تضاد کے بغیر مکمل ہی نہیں ۔ Protons electrons , positive negative , کے بغیر چارج ہی نہیں پیدا ہو گا ۔ یہ سارے opposite یا تضادات مکمل congruity یا موافقت میں ہے ۔ اس کے بغیر عمل ہی پورا نہیں جیسے نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر بچہ ممکن نہیں ۔ لہٰزا اندھیروں کا بھی مزہ لیں اور روشنیوں کا بھی ۔ شاعروں کا تو سارا کلام اداسیوں اور محرومیوں پر ہے ۔ بہر کیف میں اس پیرائے میں تو enjoyment کا نہیں کہ رہا ہوں ۔ صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دراصل یہ ایک ہی چیز ہے ۔ اصل میں کوئ تضاد نہیں ایک جُڑاو ہے opposite poles کا جیسے North Pole اور South Pole اسی ایک دنیا کا حصہ ہیں ۔
اکثر لوگوں کو آپ نے کہتا سنا ہو گا کہ کوئ نہیں اچھا وقت بھی آئے گا ۔ جس کی امید آج کل ہم سارے پاکستانی بھی لگائے بیٹھے ہیں ۔
اس رقص کی دوسری اہم چال ہے آپ کی presence یا موجودگی موجودہ لمحہ میں ۔ ‘یہی لمحہ سب کچھ ہے’ پوری کائنات اس میں سموئی ہوئ ہے ۔ مستقبل ۔ ماضی ۔ حال سب کچھ ایک ہی لمحہ میں صرف آپ present ہو جائیں ۔ ہم میں سے کوئ اس میں موجود ہی نہیں ، present ہی نہیں ۔ ہم تو نماز میں present نہیں ہوتے ۔ اپنی دوکانوں کا حساب کر رہے ہوتے ہیں ۔
میں ایک انگریز عورت کے گھر کھانے پر مدعو تھا اس کا ایک بچہ کھاتے وقت بلکل نہیں بولا ۔ کوئ حرکات و سکنات نہیں کی ۔ میں نے سمجھا کہیں معزور نہ ہو ۔ کھانا ختم ہوتے ہی اس نے مجھ سے بات چھیڑی اور کہنے لگا کہ دراصل میں جو بھی کام کرتا ہوں دل اور دماغ اسی میں پھنسا دیتا ہوں آپ مجھے معاف کر دینا ۔ میں نے کہا بیٹا میں آپ کا مشکور ہوں میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ تم عظیم انسان بنو گے ۔
ہم تو ہر کام کرتے وقت سو کام اور کر رہے ہوتے ہیں ۔ زرا اس گاڑی کو برائے مہربانی روک کر دیکھیں ۔ دنیا بہت وسیع ہے ۔ وہ بھی آپ کی توجہ کی طلبگار ہے ۔ اس کے پاس آپ کے مسئلوں کے حل ہیں سیٹھ کے پاس نہیں ۔ present ہو جائیں اس دنیا میں ، ساری کائنات آپ کی ہو گی ۔ ستارے آپ کی مرضی سے نکلنا شروع ہو جائیں گے ۔
میں روز سوچتا ہوں کوئ چھوٹا موٹا کام جیب خرچ کے لیے شروع کر دوں پھر خیال آتا ہے رُوزویلٹ پارک کے ہرن ، درخت ، چرند پرند مجھے مس کریں گے ۔ بیگم صاحبہ کو کام کرنے دیتے ہیں کیونکہ اس کی تو ان سے کوئ خاص دوستی نہیں ۔ کل ہی نیویارک سے دوست نے ایک ٹی وی چینل پر آنے کی آفر کی ملک کی خاطر ، آنے والی نسلوں کی خاطر قبول تو کر لی ، مگر دیکھو کر بھی پاؤں گا کہ نہیں ۔ میں نے تو ساری نوکریاں اور پروفیشن اس لیے چھوڑے تھے کہ وہ توجہ کا ماحول نہیں تھا جو میں کسی بھی کام کو دیتا ہوں۔ جیسے میں بلاگ لکھنے کو دیتا ہوں ۔ آج صبح ایک میسیج نے مایوس بھی کیا اور خوش بھی ۔ پھر سوچا منا بھائ لگے رہو ۔ میرا تو شوق ہے ۔
“میں آپ کے مضامین شام میں جاب سے واپس آکر باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ آپ بالکل صحیح تشخیص کر رہے ہیں پاکستان کے مسائل کی۔ لیکن ہم جیسے لوگوں کو پاکستان میں کوئی اہمیت نہیں دیتا نہ ہی سنتا اور سمجھتا ہے۔ بہت لوگ آپ کی باتوں پر واہ واہ ضرور کریں گے لیکن عمل ندارد۔۔۔ میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا نہ ہی خود مایوس ہوں لیکن کوئی حل بھی سجھائی نہیں دیتا۔ خدا آپ کی تحریر کو اور نکھارے اور لوگوں کو سمجھ دے۔ لکھتے رہیں میرے جیسوں کا حوصلہ رہے گا۔”
رقص کی تیسری چال وقت سے چھٹکارا ہے ۔ ‘ہے وقت کی قید میں زندگی مگر’
سرکار اس قید سے نکلیں ۔ وقت شقت نامی کوئ چیز نہیں ہے ۔ یہ اپنی گھڑی ہے صرف صبح اٹھانے کے لیے ۔ آپ کو ہر وقت پریشان رکھنے کے لیے ۔ وقت تو کائنات کے معاملات میں کہیں بھی فٹ نہیں ہو رہا جناب ۔ یہ تو ایک بہت جعل سازی اور فراڈ ہے ، دلوں کے ساتھ جزبوں کے ساتھ ۔ موجودہ لمحہ میں رہیں اس کو محسوس کریں ۔ لطف اندوز ہوں ۔ میں جب یہ بلاگ لکھ رہا ہوں میری توجہ بار بار ایک خوبصورت پرندہ نزدیکی باڑ پر اٹھ بیٹھ کر ہٹاتا ہے اور ایک ننھا منا بچہ میرے میز پر آ کر میری چیزوں کو چھیڑنا شروع کر دیتا ہے ۔ والدہ اسے روکتی بھی ہے ۔ ہر لمحہ اپنے اندر جادو سموئے ہوئے ہے ۔ دیر کس بات کی ہے ۔ آؤ مل کر اس رقص کا حصہ بنتے ہیں ۔ اپنا آئیڈیل نواز شریف کو نہ بنائیں بلکہ میرے جیسے فقیر شخص کو ، دیکھیں پوری کائنات آپ کے ساتھ رقص نہ کرے تو میرا نام بدل دینا ۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی فئی ہے۔