ماسٹر ضمیر حسین
۔
صدر بازار کے فیڈرل گورنمنٹ اسکول نمبر 2 میں پانچویں جماعت میں نے ماسٹر ضمیر حسین صاحب سے پڑھی۔ ہمارے کلاس ٹیچر تھے او ر ریاضی پڑھاتے تھے۔ بورڈ پر ہر سوال تفصیل سے سمجھاتے اور پھر اگلے روز کام چیک کرتے وقت معافی کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔
میں نیا نیا اس اسکول میں گیا تھا، ایک روز جن بچوں نے کام نہیں کیا تھا انکی پٹائی ہو رہی تھی، میں پیچھے بیٹھا خواہ مخواہ انکو پٹتے دیکھ کر رو رہا تھا۔ کسی لڑکے نے ماسٹر صاحب کو بتا دیا کہ محمود رو رہا ہے۔ مجھے آگے بلایا اور ایک تھپڑ رسید کیا کہ تمہیں تو مار نہیں پڑی تم کیوں رو رہے ہو؟ حیرت کی بات کہ اس دن کے بعد رونا نہیں آیا۔
انتہائی تنک مزاج تھے۔ منحنی جسم، اکثر بدہضمی کے لیے چورن کھاتے رہتے تھے۔ کمزور جسم کو غصہ بھی زیادہ "چڑھتا" ہے۔ ایک دفعہ ساری کلاس باہر سے اندر آئی تو ماسٹر صاحب کی کرسی لانا بھول گئے۔ جیسے ہی سب اپنے اپنے ڈیسکوں پر بیٹھ گئے، ماسٹر صاحب کی آواز گونجی، نالائق خبیثو! کسی نے میری کرسی باہر سے اندر لا کر نہیں رکھی۔ اب سب ڈیسکوں پر چڑھ کر مرغے بن جاؤ، جب تک میری کرسی واپس کمرے میں نہ آ جائے۔ کم بختو! استاد کھڑا اور شاگردوں کو اسکی عزت کی پرواہ ہی نہیں۔
حساب کے ایک ٹیسٹ میں میں نے سارا سوال ٹھیک کیا، بس جواب لکھتے وقت سیاہی پھیل گئی۔ اس پر انہوں نے جو مارا تو ایک چوٹ میرے ہاتھ کے انگوٹھے پر لگ گئی اور ہاتھ سوج گیا۔ شائد انگوٹھے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ گھر آ کر بہانہ کیا کہ کھیلتے ہوئے گر گیا تھا۔ دادا جی اپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھک میں حقہ پی رہے تھے۔ پیار سے پچکار کر پوچھا تو ساری بات بتا دی۔ دادا جی کا دوست اللہ رکھا، جو مکانوں کی تعمیر کے ٹھیکے لیتا تھا، اگلے دن منہ اندھیرے ماسٹر صاحب کے ساتھ پتہ نہیں کیا کیا بول کر آ گیا۔ دادا جی کو پتہ چلا تو بجائے شاباشی کے صرف اتنا کہا کہ کوئی بات نہیں استاد ہے ہمارے بچے کا۔
ماسٹر ضمیر حسین، میری نظر میں ایک ظالم شخص کا نام تھا جسکی وجہ سے میں اس اسکول میں اگلی کلاس نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔ بلکہ ایک بار تو میں نے اسکول سے بھاگ جانے کی کوشش بھی کی، مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ صبح سے ایک بجے دوپہر تک اسکول، اور پھر اسکول ہی میں ماسٹر صاحب زبردستی کی ٹیوشن بھی چار بجے تک پڑھایا کرتے تھے۔ اسکے بعد گھر آ کر اسکول کا کام کرتے رات کا ایک بج جاتا تھا۔
اسکول کے کام میں ماسٹر ضمیر حسین کی ایک شرط تھی کہ کوئی لفظ کٹا ہوا ، مٹا ہوا، یا دوبارہ لکھا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔ اب اگر پورا صفحہ لکھ کر آخری لائن میں غلطی ہو جاتی تو وہ پورا ورق احتیاط سے نکال کر دوبارہ نئے سرے سے لکھا جاتا۔
بالاخر پانچویں کے اسکول کے سالانہ امتحان اور بورڈ کے پیپرز دیکر میں نے والدین کو منا لیا کہ میں نے ماسٹر ضمیر حسین کے پاس دوبارہ نہیں پڑھنا۔ اسی سال یہ اسکول پرائمری سے مڈل اسکول بن چکا تھا، اور اسکول والے پانچویں کے بچوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ بہت سفارشوں کے بعد اسکول سرٹیفیکیٹ مل گیا اور میں دوسرے اسکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہو گیا۔
اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں کہ پانچویں کے بورڈ کے امتحان کا نتیجہ آیا اور اپنے اسکول سے میں نے بورڈ سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ اسکالرشپ لیا تھا۔ اس روز ماسٹر ضمیر حسین خود سائکل پر 15 کلو میٹر دور میرے گھر آئے۔ انکا چہرہ جو پورا سال غصے میں لال دیکھا تھا، اس دن خؤشی سے چمک رہا تھا۔
وہ میرے دادا جی کو میرا رزلٹ یوں ہمک ہمک کر بتا رہے تھے جیسے میں نہیں وہ پاس ہو گئے ہوں۔ مجھے گلے لگا کر پیار کیا اور اپنی جیب سے مجھے 50 روپے نکال کر دیے۔
-ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“