بچوں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ بڑے نہیں ہوتے اور سب سے بری بات یہ کہ وہ بچے نہیں رہتے ۔اور اس سے بھی زیادہ بری بات یہ کہ وہ بڑی تیزی سے بڑے ہو جاتے ہیں۔جس میں سب سے بڑا ہاتھ ہم بڑو ں کا ہوتا ہے ۔کچھ بچوں کا بچپن غربت نگل لیتی توکچھ کا بڑوں کی جلد بازی ۔ چار پانچ سال کے ہو جائیں تو انہیں بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اب وہ بچے نہیں رہے ”کچھ تو عقل سے کام لو،اب تم بچے نہیں رہے۔بڑے ہو گئے ہو ” ۔ایسے سخت جملے سنتے ہیں تو دل شکستہ سے ہو کرباہر سے بڑے لیکن اندرسے گھٹ کربونے ہوجاتے ہیں ۔پھرتمام عمر جب جب انکا سابقہ اس چیز سے پڑتا ہے جس کے ساتھ بڑے کا سابقہ جڑا ہو اہو انہیں ”بونی”ہی دکھتی ہے ۔ان کے اندر چھپے بونے سے بھی کہیں زیادہ بے قیمت ۔یہ ضروری نہیں کہ آپ لوگ میرے اس نظریے سے اتفاق کریں۔لیکن میں نے جو محسوس کیا ہے وہ بے کم و کاست آپکے حضور پیش کر دیا ہے۔ اور میرا دعوی ہے کہ اگر جرائم پیشہ عناصر کی نفسیاتی تحلیل کی جائے تو اکثر کیسز میں بچپن کی کوئی نہ کوئی محرومی ،حق تلفی یا تربیت میں کوئی کجی ،انکے مجرم بننے اور گناہ کی اس تاریک وادی میںگرنے کی وجہ نظر آئی گی۔
یہ سچ ہے کہ بچوں کو خود بھی بڑا بننے کا بڑا شوق ہوتا ہے ۔اور آپ نے اکثر انہیں اپنی عمر سے زیادہ بڑے کام کرنے کی کوشش کرتے، ٹھوکریںکھاتے اور زخم اٹھاتے اکثر دیکھا ہو گا۔پر مجال ہے جو کبھی باز آئیںاور چپکے بیٹھیں ۔”چوٹ نہیں تو سیکھنا نہیں”والی بات پرانکے پختہ یقین کی برابری کسی بڑے بڑوں کے بس سے باہرہے۔ہمیں انکے اس قصورکو کھلے دل سے معاف کر دینا چاہئے کہ ان بیچاروں کو یہ علم ہی کب ہوتا ہے کہ بڑے ہونے کے نقصانات بھی بہت بہت بڑے ہوتے ہیں ۔اگر ہم انہیں یہ تلخ حقیقت باور نہیں کرا سکتے تو کم از کم یہ کوشش تو کر ہی سکتے ہیںکہ انکا بچپن کچھ اور طویل ہو جائے یا کم از کم سکڑنے نہ پائے ۔لیکن جب ایسا نہیں ہو تا اور اکثر نہیں ہو تا تو ہم دیکھتے ہیں ہمارے بچے جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کرنے لگتے ہیں ۔اوراس دوران انہیں کچھ باتوں کا علم قوت سے بہت پہلے ہو جاتا ہے ۔یہ ‘ ‘ آگہی ” ا ن سے انکی معصومیت وقت سے کہیںپہلے اڑا لے جاتی ہے ۔ تب بڑوں کی بے بسی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ ویسے ان بڑوں پر مجھے بڑا ترس آتا ہے ۔بیچارے بڑے ،ہر وقت کسی نہ کسی بڑے مسئلے میں الجھے ہوتے ہیں۔”آپ بڑے ہو جائیں تو آپ کا مسئلہ کیوںچھوٹا رہ جائے” کے مصداق یہ مسائل انکے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں جبھی تو اکثر حل نہیں ہونے میں نہیں آتے کہ مسائل حل کرنے ہوں تو اپنی” سطح”سے کچھ نیچے آنا پڑتا ہے اور بڑوں کیلئے یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ سو اس پر اکثر عمل نہیں ہو پاتاکہ بڑے اب ضرورت سے زیادہ بڑے ہو چکے ہوتے ہیں ۔جبھی تو کہا ہے بڑوں کے بھی بڑے مسائل ہوتے ہیں ۔
بچپن ہی سے بچے مجھے بڑے اچھے لگتے ہیں ۔اوراب تو جب سے گھر کے آنگن میں دو پھول کھلے ہیں ،یہ وابستگی اور بھی گہری ہو چلی ہے ۔ان کھلے اور خوشبو چھوڑتے پھولوں پر نظر پڑتی ہے تو سچی بات ہے، دل کی کلی کھلتی ہی نہیں کھلکھلا اٹھتی ہے ۔میرا احمداب خیر سے سوا دو سال کا ہو چلاہے اوراکثر والدین کی طرح مجھے بھی یہی خوش گمانی ہے کہ اپنی عمر کے سارے نہیں تو اکثر بچوں سے تو کہیں زیادہ ذہین،چالاک اور تیز ہے ۔بولنا بھی اس نے بہت جلد شروع کر دیا ہے ۔ اس کی معصوم باتوںکا مقابلہ د نیاکا بڑے سے بڑا ادیب بھی نہیں کر سکتا ۔اسکی قدرت بیان مجھے اکژششدر کر دیتی ہے۔اس کی گفتگومیں مفہوم نہیں پس پردہ چھپی محبت گونجتی ہے ۔پھر تو لفظ گویا فضا ء میں عارفانہ مستی پیدا کر دیتے ہیں۔جب وہ اپنی ”توتلی ” سرائیکی میں چند لفظوں سے وسیع مفہوم اور بڑی تاثیر پیدا کرتا ہے تو مجھے یہ تک بھول جاتا ہے کہ بیگم صاحبہ نے اسے اردو کی طرف لانے (بلکہ ورغلانے )کا ٹاسک دے رکھا ہے ۔کبھی کبھی تو مجھے اپنی بیوی کایہ” الزام”سچ میں بڑا عالمگیرسچ لگنے لگتا ہے کہ ماں بولی کا ”چسکا ”لینے کے چکر میں میری تمام تر کوششیں ”نورا کشتی ” ہیں ۔جی نہ چاہتا ہو تو دعا تک بے اثر ہو جاتی ہے۔جدید یت کی آڑ میں ہم لوگ اپنے بچوں کو اپنی ماں بولی سے دور کر کے گویا انکا فطری اورفکری اثاثہ تک ہتھیا لیتے ہیں ۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟مجھے تو یہ ظلم عظیم سے ہرگز کم نہیں لگتا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی ؟آج مجھے آپ سے کچھ ذاتی قسم کا ”دکھ” شئیر کرنا ہے ۔اپنے بچوں کی فطری بے ساختگی بحال رکھنے اور ان کے بچپن کے ”اغوا”کی روک تھام میرا اولین مشن رہا ہے ۔میں نے شادی سے کافی پہلے یہ فیصلہ کرلیاتھا کہ مجھے یہ کام ضرور کرنا ہے ۔اور خدا گواہ ہے میںنے تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجوداس سلسلہ میں کسی غفلت کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ آج مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اس سلسلہ میں بری طرح ناکام رہا ہوں ۔میرا المیہ دیکھیں کہ میرا بچہ میری ہر ممکن کوشش کے باوجوداب بچہ نہیں رہا۔حسب دستور وہ اس کام میں بھی دوسروں پر سبقت لے گیا ہے۔صرف سوا دو سال میں اس نے ایک ایسی بڑی حقیقت”دریافت ”کر لی ہے جس کے بعد یہ تسلیم کئے بنا چارہ نہیں کہ اس کا بچپن بھی بڑی جلدی اس سے چھین لیا گیا ہے ۔اوراس بات نے مجھے بجائے خوش کرنے کے ملول سا کر دیا ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ یہ غم صرف میرا نہیں ہے۔جو پہلے ہی سے اس کا شکار ہیں،میری یہ کہانی ان کے لئے ڈھارس ثابت ہو گی( کہ وہ اس دکھ کے تنہا شکارہرگز نہیں)اور جوابھی بچے ہوئے ہیں ان کے کیلئے ایک ” ویک اپ کال” ۔کہانی پڑھے بغیر کوئی رائے مت دیجئے گا۔میری دعا ہے آپ کا شمار مجھ ایسوںمیں نہ ہو ۔۔۔۔کبھی بھی نہیں نہ ہو۔
” کہاں رہ گیا میرا احمد” ؟
میری بڑبڑاہٹ بامشکل میرے کانوں تک پہنچ پائی تھی ۔میرا گمان تھا اسے کوئی دوسرا نہیں سن پایا ہوگا ۔اچانک ایک خیال آتے ہی میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگتی چلی گئی۔ کوئی میرے قریب ہوتا تو آواز بھی سنتا۔گھر میں اس وقت ہم دو ہی تھے ۔بیگم صاحبہ بمع بیٹی شاپنگ یاترا پر جانے سے پہلے اسے میری تنہائی” بانٹنے” کے خیال سے گھر میں چھوڑ گئی تھی اور خدا گواہ ہے اس نے مجھے ایک لمحے کیلئے بھی تنہا نہیںرہنے دیا۔اس کی تو گویا مراد بر آئی تھی ۔کئی دن بعداسے یہ موقع ہاتھ آیا تھا جسے اس نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔میرا خیال تھا باہر جانے کا سن کر وہ فوراًتیار ہو جائے گا لیکن جب اسکی ماں نے اس کے گھر پر رہنے کا حکم صادر فرمایا تووہ بڑی سعادت مندی سے سر ہلاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا۔آج چونکہ سنڈے تھاتو میرا ارادہ ایک آدھ افسانہ اور کالم لکھنے کا تھاجووقت کی قلت کے سبب کئی دن سے زیر التوا تھے۔اس کی موجودگی میں کچھ لکھنا آسان کام ہرگز نہیں تھااور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کچھ لکھنا تو رہا ایک طر ف مجھے قلم تک کو ہاتھ لگانے کی مہلت نہ ملی۔ وہ اک فاتحانہ شان سے مجھ پر سوار ہوا تو اترنااسے یاد ہی نہ رہا۔میرے پیٹ پر وہ یوں پھدکتا اور اچھلتا رہا جیسے واقعاًوہ کسی گھوڑے کی پشت پر سوارہوکر دشمن کے لشکر میں گھسا تابڑتوڑ حملے کر رہا ہو۔اوپر سے اس کے ”رجز”(بار بار پوچھے گئے الٹے سیدھے سوالات )الگ حوصلہ پسپا کئے دیتے تھے ۔”بچوں کے ساتھ بچہ بننا بھی کتنا مشکل کام ہے ؟اور انہیں دیکھو لگتا ہے گھر کا راستہ بھول بیٹھی ہیں۔ان بیویوں نے بھی شوہروں کو تنگ کرنے کا ڈپلومہ کر رکھا ہوتا ہے۔
ایک سے ایک طریقہ ہوتا ہے ان کے پاس ہم مظلوموں کو تنگ کرنے کا”۔میں دل ہی دل میں جلتا کڑھتا رہا۔اورمیرا بیٹا میری کیفیت سے بے نیازمجھ پراچھلتا کودتا رہا۔ آج اسکی چونچالی اپنے جوبن پر تھی اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ آج وہی ”مین آف دی ڈے” ہے اور میری ایک بھی نہیں چلنے والی۔کبھی کبھی مجھے بائیک سمجھ کرککس لگاتا جیسے مٹرول حتم ہو گیا ہو اور مجھے اسٹارٹ کرنے میں سے شدید دشواری کا سامنا ہو۔گاہے گاہے انگلی میری ناف میں ڈال کراسے گماتاجیسے ٹینکی میں پٹرول ڈالنے کا ارادہ ہو۔اس وقت مجھے یوں لگتا تھا جیسے کوئی مالِ غنیمت ہوں جو تاتاریوں کے ہاتھ لگ گیا ہو۔ایک استاد کی زندگی بڑی دشوار ہوتی ہے اور وہ سرکاری بھی نہ ہو تو مشکلات دوچند ہوجاتی ہیں ۔بیچارے کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ اپنے بچوں کو وقت دے سکے ۔پھر سکول کے فوراً بعد کوچنگ اور ہوم ٹیوشن سے فراغت کے بعد تھکا ہارا گھر آتا ہے تو اس کے الجھے ہوئے ذہن میں ایک سودا سمایا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔نیند ایک لمبی اور طویل نیند۔۔۔جس سے اس وقت تک بیداری نہ ہو جب تک نیند اس کے کٹے پھٹے وجود پر سکون آور مرہم رکھ کر اسے تروتازہ نہ کر چکی ہو۔ایسے میں بچے چھٹی یا فرصت کے دن کی تاک میں رہتے ہیں کہ ادھر سے موقع ملے اور ادھر وہ لمحہ بھر بھی ضائع کئے بنا پوری طرح چھاپ لیں۔آج میرے بیٹے کو بھی ایسا ہی ایک موقع ہاتھ آگیا تھا جو اس نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔ پھر کافی دیرمجھے بور کرنے کے بعدجب خود بور ہوا تو خود ہی کمرے سے نکل گیا ۔ میں نے شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے اخبار نظروں کے آگے تان لیاکہ اب میں صرف یہی عیاشی افورڈ کر سکتا تھا۔ جب کافی دیر گزر گئی اور وہ ظاہر نہ ہوااور نہ اسکی آواز سنائی دی تو فطری طورپر مجھے تشویش نے آن گھیرا۔ اخبار پڑھتے پڑھتے اچانک غیر معمولی خاموشی کے اس احساس نے مجھے چونکا دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر اسکا پتہ کرتا، اسکی سوہنی صورت مجھے سرشار کر گئی۔میں نے مسکراتے ہوئے اسکی چمکدار آنکھوں میں جھانکا تو اسکی ڈبڈباتی آنکھیں مجھے بیقرار کر گئیں ۔
”کیا ہوا میری جان ۔کہاں رہ گئے تھے تم؟”
”ابو ۔۔۔ابو ۔۔ابو وہ ‘ ‘۔
ننھے منے احمد نے باہر کی طرف اشارہ کیا ۔اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر زور زور سے اپنی طرف کھینچنے لگا۔اب اٹھے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔اس کا رخ مرکزی دروازے کی طرف تھا اور میں ظاہر ہے اس کا مقتدی ۔”پیچھے امام کے اللہ اکبر”۔
” یہ تید(چیز) نی دیتا ” ۔
باہر آ کراس نے گھر کے عین سامنے واقع ٹافیوں کی دکان پر بیٹھے دکاندارکی طرف اشارہ کرتے ہوئے منہ بسور کر کہا تومجھ پرکچھ بھی غیر واضح نہ رہا ۔
”بیٹا پیپے کہاں ہیں ”؟
”پیپے تو نی ہیں ”۔اس نے اپنی خالی ہتھیلیاں مجھے دکھاکر گویایہ یقین دلانا چاہا تھا کہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔ انداز رو دینے والا سا تھا۔سفید سفید آنکھوں میں موتی جگمگا اٹھے تھے۔ایک موتی پلکوں کی حد د توڑ کر گرنے کو تھا میں نے جلدی سے دس کا کرارا سا نوٹ اسے تھمایا تو دھوپ میں بارش کا منظر امر ہو گیا۔دکاندار نے مسکراتے ہوئے اسکے ایک ہاتھ میں اسکا موسٹ فیورٹ مونگ پھلی کا پیکٹ تھمایا اور دوسرے کی ہتھیلی پر پانچ کا سکہ رکھاتو بجائے خوش ہونے کے میں نے اسے حیرت زدہ پایا۔اسکی نظریں ہاتھ میں دبے پیکٹ سے پھسل کر ہتھیلی پر دھرے سکے پر رکیں اور پھر دوکاندار کے مسکراتے ہوتے چہرے پر جم سی گئیں۔چند لمحے کیا بیتے یوں لگا کئی سال گزر گئے ہوں ۔میں دم بخود تھا۔سانس گلے میںاٹک سی گئی تھی۔اچانک اسکا الٹا ہاتھ جس پہ چمکتا ہوا سکہ دھرا تھا مٹھی میں ڈھل گیااور گھر کی جانب مڑتے ہوتے سکے پر اسکی گرفت مزیدسخت ہو گئی تھی۔جانے کیوں مجھے یوں لگا جیسے میرے بیٹے کے ہاتھ میں سکے کی جگہ ”ماسٹر کی”دبی ہو ۔کہ آسائشوں اور خواہشوں پر پڑے اکثرتالے جس سے باآسانی کھل جا تے ہیں ۔ ۔۔۔
کیا میں کچھ غلط کہا تھا کہ بڑوں کے بھی بڑے مسائل ہوتے ہیں ۔صرف مسائل…