مسرور جہاں(پیدائش 8 جولائی 1938، وفات 22 ستمبر 2019) کی شخصیت جتنی دلآویز تھی اتنی ہی دلآویز ان کے افسانوی جہان میں پوشیدہ معانی ہیں. انہوں نے اپنے گہرے تجربات اور بالغ مشاہدات کی بدولت اپنے افسانوں کے پلاٹ کی تشکیل میں گہرے معانی کے ایک جہان کو سمویا ہے. سیدھے اور سادے اسلوب کی وجہ سے کئی دفعہ قاری اس کی عصری حسیت کو ایک معمولی خیال کر کے گزر جاتا ہے لیکن جیوں ہی اس کا اطلاق اپنی زندگی کے مسائل سے کرتا ہے تو اس پر معانی واضح ہوتے چلے جاتے ہیں. مسرور جہاں کے افسانے 'لٹیرا' کو ہی لے لیجئے. ایک عام سی کہانی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے یوں ہی ایک کہانی شاہراہوں کے لٹیروں کے موضوع پر قلم برداشتہ لکھ ڈالی. لیکن دراصل یہ اتنا سِمپل نہیں ہے اور وہ لٹیروں کے موضوع پر لکھی بھی نہیں گئی ہے. اس کی وضاحت کہانی کے آخری لائن سے ہو بھی جاتی ہے. کہانی کے پیچھے کے چھپے فلسفے کو جاننے کے لیے کہانی پر ایک سرسری نظر ڈال لیں.
'لٹیرا' شانتی نام کی ایک غیر ایڈوانس، حاملہ عورت کی کہانی ہے جو اپنی بیمار ماں کی عیادت کے لیے شہر سے گاؤں جاتی ہے اور رات کو واپسی میں بس کے کچھ مسافروں کے ساتھ وہ بھی لٹیروں کی زد میں آ جاتی ہے. کوشی نام کے ایک لٹیرے کو وہ اتنا پسند آ جاتی ہے کہ وہ اپنے حصے کا مال و زر چھوڑ کر صرف شانتی کو حاصل کر لیتا ہے. اپنے آشیانے میں پہنچ کر جب وہ شانتی کے ساتھ اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے اسی درمیان ہزار منت سماجت کے باوجود جب شانتی کو بخشنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تو شانتی التجا کرتی ہے "مجھ پر دیا کرو، میں ماں بننے والی ہوں، میں جھوٹ نہیں بولتی..تم خود دیکھ لو.." اس نے سیدھے ہو کر اپنی ساڑی کا پلو پیٹ پر سے ذرا ہٹا دیا اور مرد نے نظر ہٹالی.. اور اسے تسلی دینے کے انداز میں اس کی پشت سہلانے لگا.. تم نے یہ بات مجھے پہلے کیوں نہ بتا دی روپ؟ " یہ دیکھتے ہی وہ لٹیرا اسے نہ صرف چھوڑ دیتا ہے بلکہ اس کو شہر تک پہنچانے کے انتظام میں بھی لگ جاتا ہے. کسی سے موٹر سائیکل مانگ کر لاتا ہے اور اسے خود شہر کے بس اڈے تک پہنچا کر واپس ہو جاتا ہے. اس حالت میں جب شانتی گھر پہنچتی ہے تو اس کا شوہر پرکاش نیند کی حالت میں دروازہ تو کھولتا ہے لیکن کپڑے بدلنے کی ذرا سی دیری اس سے برداشت نہیں ہوتی اور اسی تھکن کی حالت میں جیوں ہی وہ بستر پر پہنچی، "پرکاش نے بتی بجھا دی اور پھر وہ اس پر اس طرح ٹوٹ پڑا جیسے ایک وحشی درندہ اپنے شکار پر ٹوٹتا ہے" یہ رویہ دیکھ کر شانتی بے چین ہو جاتی ہے کوشی کے سینے سے لگا کر اس کے موٹے موٹے ہونٹوں کو عقیدت و احترام سے چوم لینا چاہتی ہے 'جس نے ڈاکو ہونے کے باوجود اس کے ماں ہونے کا بھرم رکھ لیا تھا' وہ پتی سے متنفر ہو جاتی ہے اس پتی سے 'جو اس کا ریپ کر رہا ہے'(لٹیرا، مجموعہ : خواب در خواب سفر، صفحہ 52).
کہانی بڑی عام سی معلوم ہو رہی ہے. لیکن اسی عام سی کہانی کو مسرور جہاں نے اپنی فنکاری سے نہ صرف لذت اندوزی کے زمرے میں داخل ہونے سے بچالیا بلکہ آخری جملے میں پتی کی حرکتوں کےلیے 'ریپ' کا لفظ استعمال کر کے اسے خاص بنا دیا. آج ازدواجی عصمت دری( Marital Rape ) کی بات نسائیت پسند حلقوں(feminists) میں ہی نہیں ایوان اقتدار سے لے کر عدالتوں تک میں بڑی زور و شور سے ہو رہی ہے. لیکن ادب میں ایک طرح کی خاموشی ہے. حمایت یا مخالفت کسی بھی ناحیے سے اس موضوع پر گفتگو نہیں ہو رہی ہے. ایسے میں ایک انچھوئے موضوع پر گفتگو کرنا آسان نہیں تھا. لیکن مسرور جہاں جیسی با حوصلہ اور با شعور فنکار کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ بھی آنکھ موند لیں. انہوں نے اپنے افسانوں سے حقوقِ نسواں کی آواز کو بخوبی بلند کیا تھا تو اس اہم ترین موضوع پر بھی بولنا ضروری تھا. جب انہوں نے بولا تو عورتوں ہی کی آواز کو اپنی آواز بنایا اور ازدواجی عصمت دری کی مخالفت کی. عورتوں کو اشیاء سمجھنے کی بھول وہ نہیں کر سکتی تھیں. اسی لیے انہوں نے عورتوں کی رضامندی کے بغیر ان کے ساتھ خواہشات کی تکمیل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ریپ کہہ کر اس کے پیچھے چھپے فلسفے کو اور اپنی آواز کو ہنرمندی کے ساتھ واضح کیا.
اسی طرح ان کا افسانہ 'زمین' بھی عورتوں کو اپنے عورت ہونے اور انسان کی طرح اپنے حقوق کو پہچاننے کا شعور دیتا ہے. افسانے کی شروعات ہی نا برابری کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ہوتی ہے 'راحت بی بی زمین تھی اور سیٹھ داؤد آسمان'.( زمین، ورق ورق کہانی کائنات : اردو افسانے کا تانیثی چہرہ از ڈاکٹر عشرت ناہید، صفحہ73). اسی فرق کے ساتھ راحت بی بی نے سیٹھ داؤد کے یہاں اپنی پوری زندگی گزار دی اور اسے لوگوں صبر و شکر کی اعلی مثال کا نام دیا. یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کا کیا جب ان کے بیٹے اور پوتے بھی اسے امی اور دادی کہنے کے بجائے'راحت بوا' کہہ کر بلانے اور پکارنے لگ جائیں تو بھی کیا ایک عورت کے صبر و شکر ہی کا حوالہ دیا جا سکتا ہے. راحت بی بی نے زمین کی طرح بچھ کر سارے کنبے کی خدمت اور پرورش کی اور چند ٹکڑوں پر قناعت کر کے ہی اپنی عظمت کا ثبوت پیش کیا. لیکن اگر اسی طرح ہر عورت کے ساتھ ہوتا چلا جائے تو سوچئے دنیا کا نظام کیا اسی خوبصورتی کے ساتھ چلتا رہے گا؟ اس لئے عورتوں کو اس سے باخبر کرنا اور اپنی اہمیت کا شعور بخشنا ضروری تھا. سوال کیا جا سکتا ہے کہ استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کا کام تو ترقی پسندی کے زمانے میں بھی انجام پاتا رہا ہے اس میں مسرور جہاں کی انفرادیت کہاں ہے؟ جواب بڑا واضح ہے. دو طریقوں سے مسرور جہاں نے اس روش میں بھی اپنی انفرادیت قائم کی. پہلی تو یوں کہ استحصال کرنے والوں کے خلاف اپنی زبان کھولنے میں انہوں نے لکھنؤ کی روایتی شرافت کا لحاظ رکھا ہے جس کے نتیجے میں زیریں لہر میں مخالفت کا احساس ہوتا ہے اور دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے سارا قصور استحصال کرنے والوں کے خلاف منڈھ کر ذمہ داری سے بچنے کی فطرت کی مخالفت کی ہے. اسی افسانے سے یہ جملے دیکھئے: 'سچ بلقیس! ملازم کے معاملے میں تم بڑی خوش نصیب ہو، یہاں چار بدل چکی ہوں…. اور تمہارے یہاں برسوں سے بس ایک ہی ملازمہ دیکھ رہی ہوں…' یہ سن کر کسی بھی شخص کا کیا ری ایکشن ہونا چاہیے. یہ سبھی جانتے ہیں، لیکن یہاں راحت بی بی نے کوئی بھی ری ایکشن نہیں دیا. مسرور جہاں آگے لکھتی ہیں' قریب تھا کہ راحت بی بی کے ہاتھ سے پانی کا جگ چھوٹ جائے، لیکن وہ کمالِ ضبط سے کام لے کر سنبھل گئیں اور وہاں سے چلی گئیں ' اس تبصراتی جملے کی تپش کو بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے جس میں نہ صرف راحت بی بی کے صبر و تحمل کی تعریف کی گئی بلکہ ساتھ ہی اس کے رویے کی سرزنش بھی. محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مسرور جہاں نے راحت بی بی کے اس رویے کو خواتین کے لیے مثالی نہیں کہا بلکہ اس کے حوالے سے خواتین کو کس جگہ پر کس طرح ری ایکٹ کرنا چاہیے اور عزت نفس کی حفاظت کرنی چاہیے، اس کا احساس بھی کرا رہی ہیں اور یہی نکتہ نظر مسرور جہاں کو ترقی پسندی کی آواز کی بھیڑ سے مختلف بناتا ہے. افسانے کی قرأت کے دوران قاری ہمدردی کے ساتھ ساتھ اپنے ہونے کے احساس کا شعور بھی حاصل کرتا چلا جاتا ہے.
مسرور جہاں نے لکھنؤ اور اس کے تہذیبی شناخت کے مٹتے نقوش کی تحفیظ میں بھی آبلہ پائی کی ہے اور وہاں پر بھی اپنے معانی کے جہان کو بے سروسامانی کا شکار ہونے سے بچایا ہے. اسی لیے کہا جاسکتا ہے کہ سرشار اور رسوا کے بعد انہوں نے ہی اس آباد خرابے کی نگہداشت کا فریضہ انجام دیا ہے اور کمال یہ ہے کہ فرضی بنیادوں پر نہیں بلکہ حقیقت نگاری کی تہوں تک پہنچ کر. دشتِ تنہائی ان کا ایسا ہی شاہکار افسانہ ہے. مسرور جہاں نے ایک ملاقات میں راقم کو بتایا تھا کہ 'اس کہانی کا مرکزی کردار 'خالہ جی' کو میں نے اپنی آنکھوں سے ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا'. نیم کے چھتنار درخت کے نیچے بسے گھر میں رہنے والی خالہ جی اپنے شوہر منشی جی کی زندگی میں بھی ظلم و ستم کا شکار بنتی رہیں جبکہ 'ان کی زبان میں تو شہد سے زیادہ مٹھاس تھی لیکن نیم کی ساری کڑواہٹ ان کے میاں کی زبان میں آ گئی تھی'. اور منشی جی کے انتقال کے بعد اپنی اولاد کے ہاتھوں ظلم کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی. 'وہ سب اپنے باپ کی اولاد معلوم ہوتے تھے'. کسی نے ماں کی داد رسی نہیں کی. خالہ نے بکری پال رکھا تھا اور اس کے نام پر راوی کے گھر سے بھوسی مانگ کر لے جاتیں. لیکن ایک دن راوی نے دیکھ لیا کہ اسی بھوسی کو آٹا میں ملا کر روٹی بنانے کے لئے آٹا گوندھ رہی ہیں. راوی کو دیکھتے ہی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے اور بھرم کھل نہ جائے خالہ نے بہانا بنایا 'جب تک اسی نگوڑی چُن مُن( بکری کا نام) کو بھوسی میں آٹا ملا کر نہ دو کم بخت کھاتی ہی نہیں' ( دشت تنہائی، پرندے کا سفر، صفحہ 17). یہ دیکھ کر راوی نے اماں کو بتایا تو اماں نے چپکے سے اپنے ہاتھ سے بھوسی کے ڈبے میں آٹا ملا کر رکھنا شروع کر دیا. یہ تھا تہذیبی شہر کے وسیع القلب خواتین کی کشادہ ظرفی کا اعلی نمونہ. آج کتنے ایسے گاؤں اور شہر ہیں جن میں یہ عمدہ نمونہ پایا جاتا ہے. یہ لکھنؤ جیسے تہذیبی شہر میں ہی ممکن ہو پاتا ہے. اور مسرور جہاں نے اس کے ذریعے اسی وسیع القلبی کو دنیا بھر میں امپورٹ کرنے کی کوشش کی ہے. یہ پورا افسانہ ہی لکھنوی تہذیب، اس کے رکھ رکھاؤ اور دوسرے کی عزت نفس کے خیال رکھنے کی مثالوں سے بھرا ہے. زبان و فکر میں پوشیدہ معانی کی چاشنی اس کے ماسوا. قاری کی کیفیت دل میں زلزلہ آجانے جیسی ہو جاتی ہے.
اس ذیل میں ان کے افسانوی جہان کی وسعتیں اتنی لامتناہی ہیں کہ ایک قاری کی فکر و شعور کو ادراک بہم پہنچانے کا کام بآسانی کیا جا سکتا ہے. بوڑھا یوکلپٹس، انتظار کی صدی، بشارت اور قفس جیسے افسانوں کو بلا تأمل تہذیب و ثقافت کے فن پارے کے روپ میں پیش کیا جا سکتا ہے. مسرور جہاں کی زبان کی سادگی کو اس کی عمومیت نہیں بلکہ خصوصیت کے ادخال میں شمولیت کے سبب کے طور پر دیکھا جانا چاہیے.