یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی _
جیسے سینکڑوں لازوال گیتوں سے پاکستانی فلمی صنعت کو منور کرنے والے معروف شاعر اور کہانی کار مسرور انور کو دنیا سے گزرے آج 23 برس بیت گئے۔
مسرور انور 5 جنوری 1944 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے، برصغیر کی تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے اور 1950 کی دہائی میں امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستانی فلمی صنعت میں سرگرم ہوگئے۔
سن 1962 میں انھوں نے اپنی پہلی فلم 'بنجارن' کے لئے گیت لکھے تاہم انہیں اصل شہرت وحید مراد کی فلم 'ہیرا اور پتھر' کے گیتوں سے ملی۔
جس کے بعد مسرور انور، احمد رشدی اور سہیل رعنا کی ایک ٹیم سامنے آئی جس نے متعدد سپر ہٹ گیتوں کو تخلیق کیا۔
مسرور انور کی ایک اور پہچان ان کے لکھے ہوئے قومی نغمے ہیں۔
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے، اپنی جان نذر کروں، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جگ جگ جیے مرا پیارا وطن اور ہم سب لہریں، کنارا پاکستان ان کے ایسے ہی یادگار قومی نغمات میں شامل ہیں۔
مسرور انور نے7 نگار ایوارڈز حاصل کئے۔
حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
مسرور انور کی زندگی میں 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم 'ارمان' کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کا ہر گیت سپر ہٹ ثابت ہوا، جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم یا کوکو کورینہ جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔
اس ٹیم نے 'دوراہا' کے گیت ہاں اسی موڑ پر کو لازوال بنایا تو فلم 'احسان' کے گیت ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے نے بھی شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا۔
مسرور انور اور نثار بزمی کی جوڑی بھی بہت مقبول ہوئی۔ مثال کے طور پر فلم 'لاکھوں میں ایک' کا گیت چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، فلم صاعقہ کا اک ستم اور میری جاں ابھی ہے، فلم عندلیب کا کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے، فلم انجمن کا گیت اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔
تاہم فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد وہ آہستہ آہستہ پیچھے منظر سے غائب ہونے لگے تاہم کئی فلموں میں انھوں نے اپنے فن کا جادو جگایا، جن میں فلم مشکل کا گیت دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ بہت ہٹ ہوا۔
اداکار شان کی پہلی فلم 'بلندی' مسرور انور کی آخری ہٹ فلم ثابت ہوئی اور یکم اپریل 1996 کو یہ البیلا شاعر اس دنیائے فانی سے منہ موڑ کر چلا گیا، تاہم ان کے لازوال گیت آج تک لوگوں کی زبانوں پر رواں ہیں۔۔!!!!!