احمد رات بھر بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا۔ نیند تھی کہ آنکھوں سے کوسوں دور اور پھر اس نے ایک فیصلہ کرلیا کہ ریحانہ کو وہ ضرور اپنی خواہش کے اظہار سے محروم نہیں کرے گا جو عرصہ دراز سے اس کے دل میں چھپی ہوئ تھی۔ اس نے سرہانے سے موبائیل اٹھایا اور ریحانہ کے واٹس ایپ پر اپنی خواہش کا اظہار کر ڈالا۔
"ریحانہ میں اپنے پیار کا اظہار بارہا کر چکا ہوں بس ایک خواہش ہیکہ میرے ہاتھوں کے کٹوروں میں تمہارا چہرہ ہو اور میں تمہارے لبوں پر صرف ایک بوسہ ثبت کر کے اپنے پیار کو امر کرر لوں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں "
تمہارا احمد
اب شاید احمد کا دل مطمئن ہو گیا تھا کیونکہ اسکی بیچینی کو کسی حد تک قرار آگیا تھا۔ وہ ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔
وہ اور ریحانہ پرائمری اسکول کے ساتھی تھے ۔ کبھی ہنسنا بولنا ٍ کبھی معصوم سی شرارتیں ٍ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ جذبہ جو انسانی بے چینی کا مظہر ہوتا ہے ان کے بیچ کیھی نہ تھا۔ وقت گذرا جوانی گذری۔ دونوں ہی کی شادیاں ہوئیں اور آج ان کی زندگیاں بچوں کیساتھ سفر کاٹ رہی تھیں۔
ایک روز انکی ملاقات ایک سوشل پروگرام میں ہوئ ۔ اتفاق سے ریحانہ کی سیٹ احمد کے بغل میں تھی۔ دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا اور پھر اسکول کے دن لوٹ آئے۔ پروگرام کے بعد الگ بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے کے حال احوال سے واقفیت ہوئ۔ احمد کو یہ جان کر ازحد دکھ پہنچا کہ ریحانہ کا شوہر اسے چھوڑ کر الگ رہ رہا تھا۔ شاید اظہار ہمدردی کا کوئ ہلکا سا جذبہ احمد کے دل میں اٹھا اور اس نے ریحانہ کو ساتھ ڈنر کا آفر کر دیا جسے ریحانہ نے بخوشی منظور بھی کرلیا۔ رات کا ڈنر قریب کے ایک ریستوران میں ہوا اور پھر دونوں ہی نے ایک دوسرے کو الوداع کہہ کر اپنے گھروں کی راہ لی۔
اب اکثر دونوں کی فون پر باتیں ہوتی رہیں۔ کبھی کبھی شہر کے سوشل پروگراموں میں ان کی ملا قاتیں ہوتی رہیں۔ پھر یہ ملاقاتیں بڑھتے بڑھتے تفریح گاؤں اور ریستورانوں کی زینت بنتی رہیں۔ دونوں کو ہی ایسا لگا کہ وہ ایک عرصہ سے ایک دوسرے کے خواہشمند تھے لیکن قدرت نے جو رشتے طے کئے تھے وہ ہی ان کا مقدر تھے۔
وقت آہستگی سے گذر رہا تھا۔ اکثر ملاقات پر احمد اس سے یہ بھی کہہ اٹھتا کہ تم پہلے شوہر سے خلعیٰ لے لو تو ہم ساتھ زندگی بتا سکتے ہیں لیکن ریحانہ ہونٹوں پر دبی مسکراہٹ میں احمد کے اس سوال کو گم کر دیتی۔
پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ریحانہ نے احمد سے ملنا کم کر دیا۔ ملاقاتیں کم ہوئیں تو فون پر گفتگو بھی کم ہوئ۔ احمد نے سبب جاننے کی بہت کوشش کی لیکن ریحانہ ہنس کر ٹال دیتی۔ سوشل پروگرراموں میں بھی ریحانہ کم ہی آتی۔ بس کبھی کبھار ہی اب احمد کی ملاقات ریحانہ سے ہوتی تھی۔ اب کم کم باتیں ہی مسکراہٹ کیساتھ احمد کا حصہ تھیں۔
اچانک موبائیل کی بیپ کی آواز گونجی اور احمد خیالوں کی دنیا سے واپس لوٹ آیا۔ موبائیل پر ریحانہ کا پیغام تھا۔ وہ کل شام اس سے ملنے اس مخصوص پارک کے حصہ میں آرہی تھی جہاں بیٹھ کر وہ ڈھیر ساری باتیں کیا کرتے تھے۔
دوسرے روز کی بیقراری احمد سے سہی نہیں جا رہی تھی۔ شام ہوتے ہی وہ پارک پہنچ گیا تو دیکھا ریحانہ اسی تبسم کے مخصوص انداز کیساتھ استقبال کیلئے موجود تھی۔ احمد نے اس کے قریب پہنچ کر کہا " مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم یہاں موجود ہو" ریحانہ مسکرائ اور اس نے اس کے گالوں پر ہلکی سی چٹکی لی اور پوچھا " اب تو یقین آگیا ہوگا " پھر دونوں بینچ پر بیٹھ گئے۔ ایکدوسرے کا حال احوال دریافت کیا ۔ بہت ساری شکایتیں احمد نے کر ڈالیں جسکا کوئ معقول جواب اسے نہ مل سکا۔ پھر ایک خاموشی طاری ہوئ اور دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مزید گفتگو کیسے آگے بڑھائ جائے کہ اچانک ریحانہ نے احمد کا ہاتھ پکڑا اوور آنکھیں بند کر گویا ہوئ " لو اپنی خواہش پوری کر لو"
احمد ایک لمحہ کیلئے حواس باختہ رہ گبا۔پھر سنبھل کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے اور اب ریحانہ کا چہرا اسکے ہاتھوں کے کٹورے میں تھا۔ اس نے سر کو جنبش دی اور اپنے لب ریحانہ کے چہرے کے قریب لے گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ ریحانہ کہ لب بھی اسے دعوت محبت دے رہے ہیں لیکن یہ کیا کہ احمد نے اپنی خواہش کے عین الٹ ریحانہ کے لبوں پر بوسہ ثبت کرنے کے بجائے اسکی پیشانی کو چوما اور مڑ کر بغیر کچھ کہے واپس لوٹ گیا۔ ریحانہ نے آنکھیں کھولیں اور اسے جاتے دیکھتی رہی۔ اسے لگا کہ شاید احمد اپنے اور اس کے کے درمیان کے معصوم سے رشتہ کو داغدار نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...