کندھوں کا درد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دونوں کندھوں کا درد اب بڑھتا ہی جا رہا ہے ، ویسے تو یہ درد کوئی تیس سال سے ہے مگر دس پندرہ سال سے اس میں بہت زیادہ شدت آ گئی ہے پہلے نیند کی ایک دو گولیوں سے اس درد کو سُلا کر سو جاتا تھا مگر جب سے آئے دن جنازے پہ جنازے اُٹھانے پڑ رہے ہیں اب ایک دو گولیوں سے یہ درد نہیں سوتا ، ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں تو وہ درد اور مجھے سلانے کے لیے اور سڑونگ گولی دے دیتا ہے ، اور کہتا ہے ، بس ہم اپریشن کی تیاری کر رہے ہیں بہت جلد تمہیں اس درد سے نجات مل جائے گی
مگر مجھے ایک بات کا اطمنان ہے اس درد میں صرف میں ہی مبتلا نہیں ہوں جس طرف نظر پھیرتا ہوں ہر طرف مرد عورت کے ہاتھ میں درد کو اور خود کو سلانے کے لیے نیند کی گولیوں کے پیکٹ ہیں ،ہر کوئی ملنے پہ کوئی ایک دوسرے کا حال نہیں پوچھتا کہ ان کا حال تو ہاتھوں میں پکڑی نیند کی گولیاں بتا رہی ہیں۔
مگر مجھے لگتا ہے اس درد سے میں جلد نجات پا لوں گا مجھے کسی نے بتایا ہے کہ درد جب حد سے بڑھ جائے تو دوا بن جاتا ہے ،
اس نے میرا کندھا دیکھا اور پھر اپنا کندھا دیکھایا اور کہا پہلے مجھے بھی تیری طرح بہت درد ہوتا تھا چیختا تھا روتا تھا مگر اب میرے کندھے سُن ہو گئے ہیں اب درد محسوس ہی نہیں ہوتا چاہے دن رات پچاس پچاس جنازوں کو کندھا دوں ۔ میں دیکھ رہا ہوں تیرے کندھے بھی میرے کندے کی طرح سُن ہونے کی طرف جا رہے ہین ،میں کبھی اپنے کندھوں کی طرف دیکھتا ہوں کبھی اس کے کندھوں کی طرف ، کہ ایک آواز آتی ہے جلدی کرو تم لوگ یہاں کھڑے ہو اور اُدھر جنازے کندھوں کے منتظر ہیں ، میں درد کی گولی کھاتا ہوں اور جنازے کو کندھا دینے کے لیے چل پڑتا ہوں
گھر آکر فیس بک پہ ایک ویڈیو دیکھی جس میں کچھ داڑھیوں والے لوگ ہاتھوں میں اسلحہ پکڑے بتا رہے تھے کہ چار سدا کی باچا خان یونیورسٹی اور پشاور میں بچوں کے سکول پہ حملہ ہم نے کیا تھا چھوٹی عمر کے بچوں کو ہم نے ہلاک کیا تھا ، مشال کو اینٹوں سے ہم نے ہی سنگسار کیا تھا ۔۔ شبب قدر کے پرنسپل کو بھی ہمارے ہی کارکن نے ہلاک کیا ہے ۔ ہماری نہت سی تنظیمیں ہے لبیک بھی ہماری ہی تنظیم ہے ہمارے لوگ عدالتوں ، پولیس ، فوج میں بھی ہیں ،، مگر جو اہم بات انھوں نے بتائی کہ اب ہم مارکیٹوں، بسوں ، ٹرینوں ، عدالتوں پہ حملہ کرکے بڑے لوگوں کو ہلاک نہیں کرٰیں گے اب ہم سکولوں پہ حملہ کرکے ان چھوٹی عمر کے بچوں کو ہلاک کیا کریں گئے کیونکہ یہی بچے بڑے ہوکر کافر بنتے ہیں ہیں اور کافر بن کر عدالتوں میں بیٹھتے ہیں ، ڈاکڑ بن کر ہسپتالوں میں بیٹھتے ہیں ، سیاست دان بن کر ملک کے ایوانوں میں بیٹھتے ہیں ۔ لہذا ہم نے قران و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ کفر کو جڑ سے ختم کرنا چاہیے لہذا اب ہم سکولوں پہ حملہ کر کے چھوٹی عمر کے کافروں کو ہلاک کیا کریں گے،
میں نے ویڈیو کے اس آخری پیغام کو بار بار پیچھے کر کے دیکھا اور جب مجھے یقین ہو گیا کہ آئندہ وہ سکولوں میں پڑھنے والے چھوٹی عمر کے بچوں کو ہی ہلاک کریں گے تو میں نے سُکھ کا سانس لیا کہ اب وزنی جنازے نہیں اُٹھانے پڑیں گئے
میں تو نیند کی گولیاں کھا کر سونے لگا ہوں ، آپ بھی تکھے ہوئے ہیں نیند کی گولیاں کھانا نہ بھولیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“