ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
No 4
صدرِ مشاعرہ ناقد مسعود حساس کویت
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
تمام عمر نہ حائل کبھی غلاف کیا
تمام عمر ہی ننگے قدم طواف کیا
تمام عمر حقیقت پسند تھا پھر بھی
تمام عمر حقیقت کے برخلاف کیا
تمام عمر ملی روشنی اسی در سے
تمام عمر اسی در سے انحراف کیا
تمام عمر اندھیروں کی سلطنت میں رہے
تمام عمر شبِ تار میں شگاف کیا
تمام عمر ہی لہجہ رہا ہمارا خشک
تمام عمر سمندر میں اعتکاف کیا
مسعود حساس کویت
=====================
کسی کسی کو جو زر وقت پر نہیں ملتا
کسی کسی کو وہی عمر بھر نہیں ملتا
کسی کسی کو سفر در سفر ہوا درپیش
کسی کسی کو تو اذنِ سفر نہیں ملتا
کسی کسی کو ملا سایۂ ہما لیکن
کسی کسی کو تو ظلِ شجر نہیں ملتا
کسی کسی کو دراڑیں بھی راہ دیتی ہیں
کسی کسی کو تو در میں بھی در نہیں ملتا
کسی کسی کو غمِ درد بے پناہ ملے
کسی کسی وہی مشت بھر نہیں ملتا
کسی کسی کو تو صحرا پناہ دیتا ہے
کسی کسی کو تو گھر میں بھی گھر نہیں ملتا
کسی کسی کو بہاریں سلام کہتی ہیں
کسی کسی کو گلِ خشک تر نہیں ملتا
کسی کسی کو ہی ملتا ہے ذوق آرا دل
کسی کسی کو تو ذوقِ نظرنہیں ملتا
کسی کسی کو پکارے بذاتِ خود قبلہ
کسی کسی کو رخِ معتبر نہیں ملتا
کسی کسی کو مدد آتی ہے ہر اک رُخ سے
کسی کسی کو کوئی ارہ گر نہیں ملتا
مسعود حساس کویت
=====================
ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی زہر پییے، غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا لیکن
ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا
مسعود حساس کویت
=============================
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی زہر پییے، غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا لیکن
ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا
مسعود حساس
کلام : محترم مسعود حساس
گفتگو : احمدمنیب لاہور پاکستان
جناب مسعود حساس محترم المقام کی غزل میرے سامنے ہے۔
اس غزل کی ابتدا ایسی ابدی صداقت سے ہوئی ہے کہ جس سے کسی کو انکار ممکن نہیں۔
مطلع کابپہلا مصرع اتنا کامل و مکمل ہے اپنے لفظی ربط اور معنوی اتمام و اہتمام میں کہ اسے کسی بھی دوسرے مصرع یا پوری غزل کی ضرورت ہی نہیں۔
ہر کوئی فکر کا مہمان نہیں ہو سکتا
ارے صاحب! ہو گیا مصرع!
کیا اس مصرع کو کسی دوسرے مصرع کی حاجت ہے؟ قطعیت اور سادہ زرکاری!
دوسرا مصرع اگرچہ اپنی ذات میں بہت خوب صورت ہے لیکن پہلے مصرع کے ہم پلہ نہیں لگا۔
کل ملا کے یہ مطلع بہت اعلی اور دائمی حقیقت ہے۔ مبروک!
ہر کوئی فکر کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا درمان نہیں ہو سکتا
دوسرا شعر پورے کا پورا ایک آفاقی سچائی ہے لیکن ہر کوئی کے لفظ نے اس میں موجود گنجائش کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ کوئی اپنے باپ کی پہچان بن بھی سکتا ہے۔
وااااااہ!شعر ملاحظہ ہو
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
ذیل میں آنے والا تیسرا شعر بہت اذیت ناک صداقت پر مبنی ہے۔ مجھے تو یارِ غار کا جزن یاد آ گیا کہ جب فرمایا کہ
اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا
واقعی ہر کوئی اس قابل نہیں۔ہوتا اور اس قابل بننے کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے۔
رحمی رشتے وھاب خدا نے بنائے ہیں جن میں انسانی سوچ یا کوشش کو مجال کار نہیں گویا رشتہ داریاں موہبت ہیں اور دوستیاں کند ہم جنس باہم جنس پرواز کے تحت انسان خود چنتا ہے۔ اسی اختیار کی بات اس شعر میں کی گئی ہے۔ اب ذرا شعر پڑھیں
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹھائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
ذیل میں آنےوالا شعر بہت فکر پیدا کرتا ہے۔ مجموعہ اور دیوان کا باہمی فرق ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ مجموعہ یہ ہے کہ کوئی شاعر اپنی غزلیات و منظومات ایک کتاب میں چھاپ دے لیکن دیوان یہ ہے کہ حروف تہجی کے اعتبار سے ردیف ا ب پ ۔۔۔ کے تحت مدون کیا جائے۔ اس اعتبار سے جناب مسعود حساس صاحب دیوان ہیں۔ جوش جنون 2014ء میں منظرعام پر آ چکا ہے۔ یاد رہے کہ غالب نے اپنا دیوان خود مدون کیا تھا۔اس لیے
ہر کوئی صاحب مجموعہ ہو ممکن ہے مگر
ہر کوئی صاحب دیوان نہیں ہو سکتا
آنے والا شعر اس ابدی صداقت کا پرچار کر رہا ہے کہ شعر لکھنے والے تو کئی ہیں لیکن کم ایسے شعرا ہیں جو الفاظ کو انتہائی چابکدستی، خوبصورتی اور برمحل استعمال کر کے انہیں نگینے بنا دیتے ہیں جس سے لفظ کا مول پڑتا ہے۔ خوب کلام ہے۔
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثناخوان نہیں ہو سکتا
صوف اور ولایت کے درجات کو کھول کر بیان کرنے والے شعر تک ہم پہنچے ہیں۔ فرمایا کہ:
قولوا اسلمنا ولا کن لا تقولوا آمنا۔ یہ تو کہو کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے ابھی یہ مت کہو کہ ایمان تمہارے اندر راسخ ہو چکا ہے۔ یہ ہے اسلام اور ایمان نیز ایمان اور عشق ایمان کا فرق۔ اب یہ شعر پڑھیے:
ہر کوئی صاحب ایمان ملے گا لیکن
ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا
سبحان اللہ سبحان اللہ! ایسی اعلی ظرفی۔
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
ترنم، درد، کسک، محبت، عشق اور عفو کی اعلی ترین حالت کا اس سے پیارا بیان کیا ہوگا جو ذیل کے شعر میں ہے:
ہر کوئی زہر پئے غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کا زندان نہیں ہو سکتا
مجھے اپنی ایک کیفیت یاد آ گئی حالات ایسے تھے کہ رقم بھی یو گئی وہ اس شعر کی نذر کرنا اپنا فخر سمجھتا ہوں کہ
میں گرا ہوں تو تمہی تھام لو بڑھ کر مجھ کو
کس میں ہمت ہے کہ گرتا بھی سنبھلتا بھی رہے
خود سنبھلنا اور سنورنا بڑا جان جوکھوں کا کام ہے
ہر کوئی بکھرے سنور جائے سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
یہ غزل احساس دلاتی ہے کہ مکمل غزل کسے کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اگر ملکہ نہ دیا ہو تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔
گویا مسعود حساس نام ہے ایک نفیس الطبع، وسیع الظرف، وسیع المشرب، متبحر عالم، ادب نواز، کہکشاں، ہمہ جہت شخص، افہام و تفہیم کے بحر بیکراں، صداقت و امانت میں رچے ہوئے وضع دار انسان کا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک انسان کے پاس دوسروں کو عطا کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے فرق صرف اتنا سا ہے کہ کسی کو لینے کا سلیقہ نہیں ہوتا اور کسی کو عطا کرنے کا۔
یعنی جذب و انجذاب کا باہمی ربط اگر پیدا ہو جائے تو اسی کو کہتے ہیں سونے پر سہاگہ
میری نظر میں مسعود حساس کے پاس قوت موثرہ کے ساتھ ساتھ قوت متاثرہ بھی اپنے کمال کو چھو رہی ہے۔
وہ جس شدت اور محبت سے عطا کرتے ہیں اسی شدت اور محبت سے قبول بھی فرماتے ہیں۔ گویا کم ظرفی نہیں بلکہ اعلی ظرفی کا ایک معیار ہیں۔ میرے لیے سعادت ہے کہ ان کا کلام پڑھوں اور اپنے دل پر گزرنے والی ہر واردات کو جو ان کا کلام پڑھ کر گزرتی ہے ایک امانت کے طور ہر ان کے حضور پیش کرنے کی سعادت پاوں۔
اس باہمی تعلق میں مٙیں نہ تو دوئی کا قائل ہوں اور نہ مداہنت کا کیونکہ دوستی میں دو_ ستی ہوتے ہیں۔ میرے دل میں ان کا بے حد احترام ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے اور زرخیز و شاداب رکھے۔ آمین
عاجز
احمدمنیب
17-02-2019
=============================
کلام: مسعود حساس
گفتگو: افتخار راغب
ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
آنکھ کا مہمان ہونا کوئی محاورہ نہیں ہے تاہم اس کے ہنرمندانہ استعمال نے با معنی بنا دیا ہے اور قاری مفہوم تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ آنکھ کا مہمان ہونا سے مراد ہے کہ آنکھ جس کو مہمانوں کی طرح استقبال کر کے اپنے اندر جگہ دے دے۔ یعنی جو آنکھوں میں بس جائے یا محبوب ہو جائے۔ بے شک ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا جو آنکھوں میں بس جائے۔ پہلا مصرع اچھا ہے لیکن دوسرے نے ساتھ نہیں دیا ہے۔ درد کا دامان ہونا سے کیا مفہوم اخذ کیا جائے؟ اگر کچھ مفہوم نکال بھی لیا جائے تو پہلے مصرع سے اس کا کیا تعلق بنے گے یا کس حوالے سے دونوں مربوط ہوں گے؟ ایسے ہی کچھ سوال ذہن میں ابھرتے ہیں جو قاری کے ذہن کو الجھن کا شکار بنا کر حظ اٹھانے سے محروم کر دیتے ہیں۔ اگر مصرع کچھ اس طرح ہوتا تو کچھ حد تک بات واضح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی۔
ہر کوئی غم کا نگہبان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی میں سے اگر حضرت آدم اور حضرت عیسی کو الگ کر دیا جائے تو پہلا مصرع اپنا مفہوم ادا کر رہا ہے گو کہ اظہار میں شاعرانہ پن یا جاذبیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وجدان پر کچھ گراں گزرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ شاعر نے پوری غزل میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں ہر کوئی سے آغاز کرنے کی پابندی کی ہے۔ بعض اوقات ایسی پابندیوں سے کلام دلکش ہو جاتا ہے بشرطیکہ زبان و بیان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور ردیف و قوافی کے ساتھ انصاف کیا گیا ہو۔ اس غزل میں کئی جگہ "پر کوئی" کا بے جا یا نا مناسب استعمال کیا گیا ہے۔ جب ہم بغیر کسی گھیرا بندی کے ہر کوئی کہیں گے تو اس کے دائرے میں پورے انسان آجائیں گے۔ مثلاً یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر کوئی زندگی میں سانس لیتا ہے یا ہر کوئی سینے میں دل رکھتا ہے۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر کسی کے پاس آنکھ ہے۔ کیوں کہ بہت سارے ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے آنکھ نہیں ہوتی یا دیکھنے لائق نہیں ہوتی۔ مختلف دائرے کھینچ کر ہر کوئی کا استعمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً شاعروں میں ہر کوئی شعوری یا غیر شعوری طور پر اوزان و آہنگ سے واقف ہوتا ہے۔ یا فلاں ملک یا شہر میں ہر کوئی سیاہ رنگ کا ہوتا ہے وغیرہ۔
شعر کا دوسرا مصرع بہت اچھا ہے۔ لیکن مکمل شعر ہر کوئی کی نذر ہو گیا ہے۔
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹھائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
بے شک۔ سچی بات ہے۔ یقینا ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا جس کو دل میں بٹھایا جا سکے۔ دل میں بیٹھنے سے گھر کا نگہبان کی تشبیہ بھی بہت عمدہ ہے۔ ایک بہت اچھا شعر ہوا ہے۔ سبحان اللہ
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا
یہاں پھر ہر کوئی کا بے جا استعمال ہوگیا ہے۔ اس محفل میں دو سو سے زیادہ لوگ ہیں کیا ہر کوئی صاحبِ مجموعہ ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہے مشکل سے بیس تیس لوگ نکل سکتے ہیں۔ دوسرا مصرع درست ہے۔ بے شک ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا۔ پہلے مصرع میں بھی "ہو سکتا ہے" اگر کہا گیا ہوتا تو بات مکمل ہو جاتی یعنی
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہو سکتا ہے
اس طرح کم سے کم قافیہ پیمائی تو مکمل ہو ہی جاتی۔ مضمون ایسا ہے کہ شعر پھر بھی شعر نہیں ہوتا۔ صاحبِ دیوان ہونا کسی زمانے میں فخر کی بات سمجھیں جاتی تھی اب زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ الف سے یا تک کی ردیفوں میں زبردستی غزل کہہ کر دیوان مکمل کرنے کا دور سو سال پہلے ختم ہوگیا۔
ہر کوئی زہر پِئے، غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا
پہلے مصرع میں ہر کوئی کی نذر ہو گیا ہے۔ دوسرے میں درد کا زندان درد کا دامان کی یاد دلا رہا ہے۔ لیکن درد کا زندان ہونا ہر کوئی کے ساتھ مناسب اور بھلا لگ رہا ہے۔ لیکن اس کو شعر بنانے کے لیے پہلے مصرع میں ضروری ترمیم لازمی ہے۔ "غم کو سہے" کہنا بھی فصیح زبان نہیں ہے۔ "غم سہے" میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ یہاں کو کا استعمال قواعد کی گردن پر بغیر دھار کی چھری پھیرتے ہوئے جگہ بھرنے کے لیے ہوا ہے۔
ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی کیا کوئی بھی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا ہے۔ زلفِ پریشان کے مانند ہونے کی بات ہوتی تو بات بن جاتی لیکن یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ بس قاری پریشان ہوگا اور اسے آگے کے اشعار پڑھنے کے لیے مزید کمر کسنی پڑے گی۔
ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا لیکن
ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ استعمال ہوا ہے۔ کیا ہے کوئی جس کو کہ ہر جگہ ہر کوئی صاحبِ ایمان ملتا ہے؟ صاحب ایمان ہونا بھی بہت بڑی بات ہے اگر اس کی شہادت بھی دنیا کسی کے لیے دے دے تو اس کی خوش بختی ہے۔ عاشقِ ایمان کہہ کر جو تفریق کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی ہے۔ عاشقِ باری تعالیٰ یا عاشقِ رسولِ پاک (ص) وغیرہ کہنا زیادہ صاحب ایمان ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا نہ کہ عاشقِ ایمان۔ لیکن قافیے کی مجبوری جو نہ کرائے۔
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
یہاں بھی پہلے مصرع میں "ہر کوئی" کا غیر مناسب استعمال بہت واضح ہے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے مصرع کے آخر میں "معافی دے دے" اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دوسرے مصرع میں"ہو سکتا" کی جگہ "ہوتا" ہوتا۔
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا
پہلا مصرع انتہائی پست ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ کم لوگ بغیر کسے فائدے کے کسی کی تعریف کرتے ہیں۔ اتنی سی بات کہنے کو شاعر ہر کسی کی اضافی پابندی کے ساتھ کہہ کر اتنا مشکل اور گنجلک بنا دیا ہے کہ اگر زیادہ غور کر دیا جائے تو ذہن بوجھل ہونے کے ساتھ کراہیت محسوس کرنے لگے۔
مجموعی طور پر انتہائی کمزور غزل ہے۔ ہر کوئی کی اضافی پابندی نے غزل کو اضافی پستی عطا کر دی ہے۔ پوری غزل میں صرف ایک شعر ہو سکا ہے جسے اچھے شعروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دیگر اشعار میں قافیہ پیمائی بھی ٹھیک سے نہیں ہو سکی ہے۔ سوائے موزینت کے کوئی شعر والی بات بھی کسی شعر میں نظر نہیں آرہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر:
مسعود حساس
گفتگو:
شیخ نورالحسن حفیظی
ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
آنکھ کا مہمان ہونا یعنی آنکھ میں بسا لینا یا کسی کو محبوب بنا لینا
جو آنکھ میں بسا وہ درد کا درمان ہوگا
اگر اس طرح سے شعر کو لیا جائے تو بامعنی ہے لیکن اکثر و بیشتر آنکھوں میں بسنے والے درد دیتے ہیں درد کا درماں نہیں بنتے .
یا شعر میں دو الگ الگ بات ھے . شاعر نے دو مصرعوں میں دو بات کہہ کر مطلع کہا ھے
بہر حال اچھا مطلع ہے
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
باپ کی اولاد یعنی ہر بچّے کی پہچان باپ سے ہوتی ہے کہ فلاں کا بیٹا ہے مگر بہت کم بچّے ایسے ہیں جو باپ کی پہچان بنتے ہیں
خوب است
شعر معنویت کے اعتبار سے ندرت کا حامل ہے
اس شعر میں باپ سے مراد سرپرست بھی لے سکتے ہیں.
اب معنی بنتا ھے باپ کی محنت اگر رنگ لاتی ھے اور وہ بچے کو قابل بناتا بھی ھے تب بھی بیٹا باپ کا مرہون منت ہی رھے گا
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
خوب ہے سوچ سمجھ کر محبّت کیجئیے مگر محبّت کی نہیں جاتی کبھی کبھی ایسوں سے ہوجاتی ہے جو گھر کی نگہبانی کے بجائے گھر کی ویرانی کا باعث ہوتے ہیں
دورِ حاضر کی عکاسی پر بہترین شعر ھے
بھروسہ ، اعتماد اب کسی پر کرنے جیسا نہیں
ایک شعر یاد آیا
انھیں ڈھونڈنے تم کہا چل دئے
وہ کردار تو داستانوں کے تھے
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا
صاحب مجموعہ اور صاحب دیوان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا کبھی کبھار چھوٹے مجموعے بڑے دیوانوں سے اعلٰی و معیاری کلام سے مزّیّن ہوتے ہیں اور بڑے دیوان محض دیوان ہوتے ہیں
شعر برائے شعر
یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر اس شعر میں شاعر کاغذی دیوان کی نہیں زندگی کی کتاب کی بات کر رہا ھے اور کہہ رہا ھے غم اور خوشی میں کچھ کتابیں مجموعہ ہیں اور کچھ دیوان
اور ہر کوئی مصیبت کا سامنا نہیں کر سکتا
ہر کوئی زہر پییے، غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا
غم سہنا کچھ نہ کہنا درد کا زندان ہونا گویا یہ جوانمردی کا کام ہے
زہر پینا غم سہنا اور درد کو زندان کرنا . درد سے بھری زندگی کی علامت ھے. مجبوری کی حدود پار ہو گئیں
ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
گویا عشق کرنا خود کو مٹانے کے مترادف ہے جیسے معشوق رکھے ویسے رہنا
شاعر محبوب کی زلفوں کا اسیر ھے اور یہ گویا عشق کی معراج ھے
ایسی معراج بہت کم خوش بخت کو ملتی ھے
ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا لیکن
ہر کوئی عاشق ایمان نہیں ہو سکتا
میرے خیال میں شعر اپنی تمام تر بلندیوں کو چھو گیا
آج ہر شخص ایمان والا ھے چاھے وہ مسلم ہو عیسائی ہو یہود ہو ہنود ہو مگر اہمانِ عاشقی حقیقت میں ایمان کا درجہ ھے. وہ صرف حسینوں کو ملا کرتا ھے
میں محترم شاعر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
باپ کے قاتل کو معاف کرنا بہادر ہونے کی علامت ہے
تصوف کے پیرائے میں ڈھلا شعر اپنا سارا معاملہ اللہ کے سپرد
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا
لفظ یا الفاظ ہمیشہ سے بکتے آئے ہیں اور بلاوجہ کوئی کسی کی ثنا خوانی کیوں کرے
شاعر محترم حسّاس ہیں اس لیے خلوص کی تلاش میں ہیں
لیکن عبث
ایک شعر اس ضمن میں
زورِ حسد ھے رشک کا بازار گرم ھے
دنیا سے قدر دانیء اہلِ ہنر گئی
خوب عمدہ غزل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
=============================
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
مسعود حساس صاحب کی تین غزلوں پر گفتگو
گفتگو: افتخار راغب
✒ میرے خیال سے کسی بھی شاعر کی تین چار غزلوں کو پڑھ کر اس کی مجموعی شاعری پر تبصرہ مناسب نہیں ہے۔ اس لیے میری گفتگو ان تین غزلوں کے حوالے ہی سے ہوگی۔ پہلی غزل جس کا مطلع ہے:
تمام عمر نہ حائل کبھی غلاف کیا
تمام عمر ہی ننگے قدم طواف کیا
بہت ہی عمدہ ہے۔ جس کا ہر شعر نہیں بلکہ ہر مصرع نہ صرف مرصع و مسجع ہے بلکہ فصاحت و بلاغت سے لبریز ہے۔ ہر مصرع کا آغاز لازمی طور پر "تمام عمر" کے فقرے سے کیا گیا ہے۔ استعارات و تشبیہات کو معقول انداز میں برتنے کے ساتھ شعری تلازمات کا بھی بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ جس شان کے ساتھ مطلع وارد ہوا ہے وہی شان و شوکت مقطع تک برقرار ہے۔ تمام اشعار میں ایک خاص بات مجھے یہ نظر آئی کہ شاعر نے ہر شعر میں فاعل کو محذوف رکھا ہے۔ ایسے شعروں پر بعض ناقدوں یا شاعروں سے فاعل کے غائب یا محذوف ہونے کو عیب یا شعر میں کمی کے طور پر سنتا ہوں تو مجھے بہت حیرانی ہوتی ہے۔ میری نظر میں شاعر اس کے ذریعے شعر کے دائرے کو وسیع کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر:
تمام عمر حقیقت پسند تھا پھر بھی
تمام عمر حقیقت کے برخلاف کیا
اس شعر کا اطلاق میں تھا میں نے کیا، وہ تھا اس نے کیا، تو تھا تو نے کیا، ہر کوئی تھا ہر کسی نے کیا وغیرہ پر ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کا اظہار کر دیا گیا ہوتا تو شعر وہیں تک محدود ہو کر رہ جاتا۔
بعد کے شعروں میں شاعر نے جس در سے روشنی ملی اسی در سے انحراف کرنے کی بات بڑے وسیع تناظر میں کی ہے۔ اندھیروں کی سلطنت میں رہ کر شبِ تار میں شگاف کرنا اور لہجہ خشک رکھ کر سمندر میں اعتکاف کرنے کی بات بھی خوب ہے۔ مجموعی طور پر بلا شبہ ایک شاہکار غزل ہے۔
اس عمدہ غزل کے بعد شاعرِ موصوف کی اسی انداز میں کہی گئی دو غزلیں اور پیش کی گئی ہیں۔ یعنی ان غزلوں میں بھی اس کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر مصرع کا آغاز ایک خاص فقرے سے ہو۔ ممکن ہے پہلی غزل کی کامیابی نے شاعر کو ایسا کرنے کی ترغیب دی ہو۔ لیکن پہلی غزل اپنی خوبیوں کے ساتھ جس قدر بلدی پر ہے دیگر دونوں غزلیں اسی قدر پستی کا شکار ہو گئی ہیں۔ غزل نمبر دو جس کا مطلع ہے:
کسی کسی کو جو زر وقت پر نہیں ملتا
کسی کسی کو وہی عمر بھر نہیں ملتا
مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے پہلی غزل کے اشعار کے ہم پلہ تو دور، ایک شعر بھی ایسا نہیں ملا جس سے کچھ حظ اٹھانے کا احساس ہوا ہو بلکہ بعض مصرعوں کی قرأت بھی بہت مشکل سے مکمل ہو پائی۔ آخری غزل میں ایک شعر بہت عمدہ ملا۔ آخری غزل پر کچھ تفصیل سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ میری بات واضح طور پر سامنے آسکے۔ زبان و بیان اور شعری عیوب و محاسن کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تینوں غزلوں کا بغور مطالعہ کرنے پر بعد کی دونوں غزلیں اور پہلی غزل کے معیار میں انیس بیس نہیں بلکہ انیس اور ایک سو بیس کا فرق نظر آتا ہے۔ آخری دو غزلیں اگر ابتدائی دور کی ہیں اور پہلی غزل بعد کی ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اگر بات اس کے برخلاف ہے تو یہ بہت فکر انگیز بات ہے۔ اگر تینوں غزلیں ایک ہی دور کی ہیں تو یہ بھی حیران کن ہے کہ کسی شاعر کے ایک ہی دور کے کلام کے معیار میں اتنا فرق کیسے واقع ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ میری ذاتی رائے ہے پھر بھی مجھے یقین ہے کہ کلی نہیں تو جزوی طور پر ہی سہی کچھ لوگ میری بات سے ضرور اتفاق کریں گے۔
میں کسی بھی کلام کا پہلے معروضی تجزیہ کرتا ہوں اس کے بعد ہی موضوعی گفتگو کو اہمیت دیتا ہوں۔ معروضی معیار پر پرکھے بغیر موضوعی تجزیہ یعنی شعر کے مضمون و خیال کی تعریف و توصیف کو شعر اور شاعر دونوں کے ساتھ نا انصافی اور دھوکہ سمجھتا ہوں۔
غزل نمبر 3
کلام: مسعود حساس
گفتگو: افتخار راغب
ہر کوئی آنکھ کا مہمان نہیں ہو سکتا
ہر کوئی درد کا دامان نہیں ہو سکتا
✒ آنکھ کا مہمان ہونا کوئی محاورہ نہیں ہے تاہم اس کے ہنرمندانہ استعمال نے با معنی بنا دیا ہے اور قاری مفہوم تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ آنکھ کا مہمان ہونا سے مراد ہے کہ آنکھ جس کو مہمانوں کی طرح استقبال کر کے اپنے اندر جگہ دے دے۔ یعنی جو آنکھوں میں بس جائے یا محبوب ہو جائے۔ بے شک ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا جو آنکھوں میں بس جائے۔ پہلا مصرع اچھا ہے لیکن دوسرے نے ساتھ نہیں دیا ہے۔ درد کا دامان ہونا سے کیا مفہوم اخذ کیا جائے؟ اگر کچھ مفہوم نکال بھی لیا جائے تو پہلے مصرع سے اس کا کیا تعلق بنے گے یا کس حوالے سے دونوں مربوط ہوں گے؟ ایسے ہی کچھ سوال ذہن میں ابھرتے ہیں جو قاری کے ذہن کو الجھن کا شکار بنا کر حظ اٹھانے سے محروم کر دیتے ہیں۔ دامان کی جگہ درمان ہوتا تو کم از کم مصرع با معنی ہو جاتا یہ اور بات کہ دونوں مصرعوں میں پھر بھی کوئی بہت گہرا ربط نہیں پیدا ہوتا پھر بھی مطلع برائے مطلع ضرور ہو جاتا۔ ممکن ہے ٹائپنگ کی غلطی سے درمان کی جگہ دامان لکھا گیا ہو۔
ہر کوئی باپ کی اولاد تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی باپ کی پہچان نہیں ہو سکتا
✒ ہر کوئی میں سے اگر حضرت آدم اور حضرت عیسی کو الگ کر دیا جائے تو پہلا مصرع اپنا مفہوم ادا کر رہا ہے گو کہ اظہار میں شاعرانہ پن یا جاذبیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وجدان پر کچھ گراں گزرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ شاعر نے پوری غزل میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں ہر کوئی سے آغاز کرنے کی پابندی کی ہے۔ بعض اوقات ایسی پابندیوں سے کلام دلکش ہو جاتا ہے بشرطیکہ زبان و بیان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور ردیف و قوافی کے ساتھ انصاف کیا گیا ہو۔ اس غزل میں کئی جگہ "پر کوئی" کا بے جا یا نا مناسب استعمال کیا گیا ہے۔ جب ہم بغیر کسی گھیرا بندی کے ہر کوئی کہیں گے تو اس کے دائرے میں پورے انسان آجائیں گے۔ مثلاً یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر کوئی زندگی میں سانس لیتا ہے یا ہر کوئی سینے میں دل رکھتا ہے۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر کسی کے پاس آنکھ ہے۔ کیوں کہ بہت سارے ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے آنکھ نہیں ہوتی یا دیکھنے لائق نہیں ہوتی۔ مختلف دائرے کھینچ کر ہر کوئی کا استعمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً شاعروں میں ہر کوئی شعوری یا غیر شعوری طور پر اوزان و آہنگ سے واقف ہوتا ہے۔ یا فلاں ملک یا شہر میں ہر کوئی سیاہ رنگ کا ہوتا ہے وغیرہ۔
شعر کا دوسرا مصرع بہت اچھا ہے۔ لیکن مکمل شعر ہر کوئی کی نذر ہو گیا ہے۔
ہر کوئی ایسا کہاں جس کو بٹھائیں دل میں
ہر کوئی گھر کا نگہبان نہیں ہو سکتا
✒ بے شک۔ سچی بات ہے۔ یقینا ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا جس کو دل میں بٹھایا جا سکے۔ دل میں بیٹھنے سے گھر کا نگہبان کی تشبیہ بھی بہت عمدہ ہے۔ ایک بہت اچھا شعر ہوا ہے۔ سبحان اللہ
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہوتا ہے مگر
ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا
✒ یہاں پھر ہر کوئی کا بے جا استعمال ہوگیا ہے۔ اس محفل میں دو سو سے زیادہ لوگ ہیں کیا ہر کوئی صاحبِ مجموعہ ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ہے مشکل سے بیس تیس لوگ نکل سکتے ہیں۔ دوسرا مصرع درست ہے۔ بے شک ہر کوئی صاحبِ دیوان نہیں ہو سکتا۔ پہلے مصرع میں بھی "ہو سکتا ہے" اگر کہا گیا ہوتا تو بات مکمل ہو جاتی یعنی
ہر کوئی صاحبِ مجموعہ تو ہو سکتا ہے
اس طرح کم سے کم قافیہ پیمائی تو مکمل ہو ہی جاتی۔ مضمون ایسا ہے کہ شعر پھر بھی شعر نہیں ہوتا۔ صاحبِ دیوان ہونا کسی زمانے میں فخر کی بات سمجھیں جاتی تھی اب زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ الف سے یا تک کی ردیفوں میں زبردستی غزل کہہ کر دیوان مکمل کرنے کا دور سو سال پہلے ختم ہوگیا۔
ہر کوئی زہر پِئے، غم کو سہے کچھ نہ کہے
ہر کوئی درد کو زندان نہیں ہو سکتا
✒ پہلے مصرع میں ہر کوئی کی نذر ہو گیا ہے۔ دوسرے میں درد کا زندان درد کا دامان کی یاد دلا رہا ہے۔ لیکن درد کا زندان ہونا ہر کوئی کے ساتھ مناسب اور بھلا لگ رہا ہے۔ لیکن اس کو شعر بنانے کے لیے پہلے مصرع میں ضروری ترمیم لازمی ہے۔ "غم کو سہے" کہنا بھی فصیح زبان نہیں ہے۔ "غم سہے" میں بات مکمل ہو جاتی ہے۔ یہاں کو کا استعمال قواعد کی گردن پر بغیر دھار کی چھری پھیرتے ہوئے جگہ بھرنے کے لیے ہوا ہے۔
ہر کوئی بکھرے سنور جائے، سنور کر بکھرے
ہر کوئی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا
✒ ہر کوئی کیا کوئی بھی زلفِ پریشان نہیں ہو سکتا ہے۔ زلفِ پریشان کے مانند ہونے کی بات ہوتی تو بات بن جاتی لیکن یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ بس قاری پریشان ہوگا اور اسے آگے کے اشعار پڑھنے کے لیے مزید کمر کسنی پڑے گی۔
ہر کوئی صاحبِ ایمان ملے گا لیکن
ہر کوئی عاشقِ ایمان نہیں ہو سکتا
✒ ہر کوئی کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ استعمال ہوا ہے۔ کیا ہے کوئی جس کو کہ ہر جگہ ہر کوئی صاحبِ ایمان ملتا ہے؟ صاحب ایمان ہونا بھی بہت بڑی بات ہے اگر اس کی شہادت بھی دنیا کسی کے لیے دے دے تو اس کی خوش بختی ہے۔ عاشقِ ایمان کہہ کر جو تفریق کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی ہے۔ عاشقِ باری تعالیٰ یا عاشقِ رسولِ پاک (ص) وغیرہ کہنا زیادہ صاحب ایمان ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا نہ کہ عاشقِ ایمان۔ لیکن قافیے کی مجبوری جو نہ کرائے۔
ہر کوئی باپ کے قاتل کو معافی دے دے
ہر کوئی اتنا بھی بلوان نہیں ہو سکتا
✒ یہاں بھی پہلے مصرع میں "ہر کوئی" کا غیر مناسب استعمال بہت واضح ہے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے مصرع کے آخر میں "معافی دے دے" اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دوسرے مصرع میں"ہو سکتا" کی جگہ "ہوتا" ہوتا۔
ہر کوئی لفظ کی حرمت کی نہ قیمت مانگے
ہر کوئی مفت ثنا خوان نہیں ہو سکتا
✒ پہلا مصرع انتہائی پست ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ کم لوگ بغیر کسے فائدے کے کسی کی تعریف کرتے ہیں۔ اتنی سی بات کہنے کو شاعر ہر کسی کی اضافی پابندی کے ساتھ کہہ کر اتنا مشکل اور گنجلک بنا دیا ہے کہ اگر زیادہ غور کر دیا جائے تو ذہن بوجھل ہونے کے ساتھ کراہیت محسوس کرنے لگے۔
مجموعی طور پر انتہائی کمزور غزل ہے۔ ہر کوئی کی اضافی پابندی نے غزل کو اضافی پستی عطا کر دی ہے۔ پوری غزل میں صرف ایک شعر ہو سکا ہے جسے اچھے شعروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دیگر اشعار میں قافیہ پیمائی بھی ٹھیک سے نہیں ہو سکی ہے۔ سوائے موزینت کے کوئی شعر والی بات بھی کسی شعر میں نظر نہیں آرہی ہے۔
===========================
شاعر : مسعود حساس
گفتگو : شیخ نور الحسن حفیظیؔ ، سری نگر ۔ جموں کشمیر
تمام عمر نہ حائل کبھی غلاف کیا
تمام عمر ہی ننگے قدم طواف کیا
خوب مطلع ہے شعر تو ہو گیا ہے مگر مکمل ترسیل سے محروم ۔
تمام عمر کس چیز پر غلاف حائل کیا اور کس چیز کا طواف کیا یہ سمجھنا دشوار ہے ۔
تمام عمر حقیقت پسند تھا پھر بھی
تمام عمر حقیقت کے برخلاف کیا
حقیقت پسند ہونا اور عملی طور حقیقت کے بر خلاف ہونا شاید شاعر حالات حاضرہ کے دوغلے پن سے نالاں ہیں ۔
تمام عمر ملی روشنی اسی در سے
تمام عمر اسی در سے انحراف کیا
جس در سے روشنی ملی اسی در سے منحرف ہونا بھی موجودہ زمانے کی زبوں حالی اور ناشکرے پن کی طرف اشارہ ہے ۔
تمام عمر اندھیروں کی سلطنت میں رہے
تمام عمر شبِ تار میں شگاف کیا
اس جرآت و بہادری پر آفریں صد آفریں کہ اندھیروں میں رہ کر اندھیروں کی قبا چاک کرکے روشنی کی طرف بڑھنا ۔ خوب است
تمام عمر ہی لہجہ رہا ہمارا خشک
تمام عمر سمندر میں اعتکاف کیا
اچھے پیرائےاور حسین کنایے میں صاحبِ ثروت کی بخالت بیان کی گئی ہے ۔ سمندر میں اعتکاف کے باوجود گلا خشک رہا کیوں کہ سمندر کا پانی پیاس کے تدارک کا اہل نہیں ۔ اس پر اتتضیٰ نشاط صاحب کا ایک شعر بطور تبصرہ پیش ہے ۔
مجھے بات آگی بڑھانی نہیں
سمندر میں پینے کا پانی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو: محمد زبیر، گجرات، پاکستان
* محترم جناب مسعود حساس صاحب کی اچھوتے اور نادر پیراہن میں ملبوس غزل اس وقت مرکزِ نگاہ ہے۔ الفاظ و مفاہیم کی اس وسیع و بسیط کاٸنات میں داخل ہونے کے لیے مفتاحِ فہم و بصیرت اور شعری ادراک کی کلید ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔
* غزل کو جس عروضی پیمانے (وزن) کے تحت لکھا گیا ہے وہ اس حساس اور لطیف صنف کے لیے از بس موزوں ہے۔ متانت ، وقار اور اعتدال اس بحر کے اوصاف ہیں اور یوں اس کا انتخاب شاعر کے متین و معتدل اور باوقار و شاٸستہ ہونے پہ دال ہے ۔
* ایک ہی ترکیبِ لفظی کو غزل کے جملہ مصارع کے آغاز میں لانا شاعر کی مخصوص افتادِ طبع اور رجحان کا پتہ دیتا ہے۔ ایک ہی لفظ یا مجموعہ ِ الفاظ سےہر مصرع کی ابتدا ، کڑے عروضی قواعد کی پاسداری ، ہر بار ایک مختلف خیال کو منطقی انجام و اختتام تک پہنچانا شاعرِ محض کی بساط نہیں۔ شعور کے ساتھ اورایک مقصد کے تحت شعر گوٸی کے توسط سے ایک پیام کا ابلاغ شاعرِ تام و پختہ کار کا ہی کام ہے اور یہیں پہ بس نہیں ۔ شاعر موصوف کی فکری رفعت اور فنی کمال کا ایک اور ثبوت قافیہ کا انتخاب ہے۔ خانہ پری کی بجاٸے قافیہ میں وہ الفاظ لاٸے ہیں کہ ان کو نبھانا ”کارے دارد“ ۔ غلاف،طواف،انحراف،اعتکاف وغیرہ باقاعدہ اصطلاحات ہیں۔ یہ اگرچہ نامانوس نہیں تاہم بالخصوص بطور قافیہ ان کا استعمال سطحی شعرا ٕ کےہاں نظر نہیں آتا۔ قدرے ”ثقیل علی اللسان“ ان علمی اصطلاحات کی شاعری کے توسط سے تفہیم و ابلاغ کا بیڑہ وہی شاعر اٹھا سکتا ہے جو علم و حکمت میں محکم، منطق و کلام میں پختہ ، گفتار و سخنوری میں رواں اور ہنر و فن میں طاق ہو۔ اور شاعر موصوف کے ہاں یہ اوصاف کثیر و وفیر ہیں۔
*مطلع میں محبت و طاعت سے سرشار ایک نیاز مند کے اپنے مطلوب و مقصود کے لیے والہانہ و عاشقانہ اظہارِ عقیدت کو بیان کیا گیا ہے۔ ننگے قدم طواف اپنے معبودِ حقیقی کے حضور درویشانہ و بے ریا ٕ اظہارِ عبدیت ہے۔ اور حقیقی تلذذ اور فیض یابی ایسی ہی فقیرانہ کیفیت سے حاصل ہوتی ہے۔
شاعرِ موصوف کواپنے دین کے ارکان و مناسک اور ان کی جزٸیات سے نہ صرف گہری جانکاری ہے بلکہ ان کی اداٸیگی سے حاصل ہونے والی روحانی لذت و سرشاری کی حقیقت و کیفیت سے آگاہی بھی ہے۔ سبحان الله و الحَمْدُ ِلله!
*دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں شاعر اپنے حقیقت پسند ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور دوسرے مصرع میں عجیب منطق سے اس کی دلیل لاتے ہیں۔ حقیقت پسند ہونے کے باوجود تمام عمر حق کے بر خلاف کرنے کا برملا اعتراف ہی حقیقت پسند ہونے کا بین ثبوت ہے۔ یہی نکتہ رسی اور منطقی اپچ شاعر موصوف کی شانِ امتیازی ہے۔
* شعرِ سوم مضمون و خیال کے اعتبار سے ما قبل شعر کی توسیع