(ولادت: 10 فروری 1930ء – وفات: 5 جولائی 2021ء)
جب ضیاء الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے تو مسعود اشعر فیملی اور ضیاء الحق فیملی دونوں فیملیز کی بہت قربت تھی۔ ضیاء الحق ملتان میں تعیناتی کے دوران ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ سید فخرالدین بلے صاحب اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ امروز مسعود اشعر صاحب کے دفاتر میں آنا جانا تھا. البتہ بروز جمعہ ضیاء الحق فیملی کا ظہرانہ جناب مسعود اشعر صاحب کے گھر پر ہی ہوا کرتا تھا اور یہی معمول رہا ۔
اپنی پاک دھرتی کا اب خدا ہی حافظ ہے
مسندوں پہ آ بیٹھے سرحدوں کے رکھوالے
سید فخرالدین بَلّے
پانچ جولائی 1977 کو ضیاءالحق کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پروفیسر صلاح الدین حیدر، سید فخرالدین بلے، ڈاکٹر اصغر ندیم سید اور دیگر محبان وطن اور دیش بھگتوں کی طرح جناب مسعود اشعر صاحب کو بھی حد درجہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
5th July …………… Black Day
ہم یوں نہ ہو سکے کبھی جمہوریت شعار
ہوتی رہی ہے فوج مشرف بہ اقتدار
سید فخرالدین بَلّے
اور اتفاق دیکھیے کہ جب ملک بھر میں 5 جولائی کی یاد میں یوم سیاہ منایا جارہا تھا تو اسی دن ایک عظیم تخلیق کار اور ایک بے باک اور فرض شناس اور محب وطن صحافی کہ جنھیں قلم کی حرمت کا پاسبان کہا جاتا تھا جی ہاں جناب مسعود اشعر صاحب اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ مسعود اشعر صاحب نظم ۔ ڈسپلن ۔ اور نظم ۔ پتنگ ۔ کو سید فخرالدین بلے کی شاہکار آزاد نظموں میں شمار فرمایا کر تے تھے
سید فخرالدین بَلّے کی آزاد نظم -ڈسپلن
بینک کی یونین کے عہدے دار
بینک کے منیجر سے بدظن تھے
روز لڑتے جھگڑتے رہتے تھے
ایک دن بینک میں بہت زیادہ
ہاتھا پائی ہوئی ، فساد ہوا
بات حد سے بڑھی تو بالآخر
منیجر اور یونین والے
ایک ٹیبل پہ آ کے بیٹھ گئے
پہلے ہوتے رہے گلے شکوے
پھر مسائل پہ بات چیت ہوئی
ہو گیا ان میں ایک سمجھوتہ
دیکھ کر یہ عجیب تبدیلی
بینک کا ایک مستند گن مین
یونین سے جو تھا بہت بیزار
اور ، سبھی افسروں سے نالاں تھا
بینک کی آبرو کے پیش نظر
ہو گیا سارے بینک پر قابض
للہ الحمد ایک مدت سے
گاہکوں کو سکون حاصل ہے
داد دیتے ہیں اب تو افسر بھی
اپنے گن مین کی فراست کی
جس کے ایثار اور حکمت سے
کوئی ہنگامہ اب نہیں ہوتا
اور ، فضا پر سکوت طاری ہے
بینک کا کاروبار چلتا ہے
ارتقاء کا سفر بھی جاری ہے
ارتقاء کا سفر نہ رک جائے
اس لئے بینک کا نیا گن مین
یہ سمجھتا ہے میری باری ہے
ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی قائم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کے زیر اہتمام جناب مسعود اشعر صاحب کی سال گرہ بہت ڈرامائی انداز میں منائی گئی۔ شاید ماہ فروری کی آٹھ تاریخ تھی اور شام کا وقت تھا. ڈاکٹر اجمل نیازی، شاہد واسطی، ظفر علی راجا ، انتظار حسین، شہزاد احمد ، منوبھائی ، نجمی نگینوی ، سلطان ارشد القادری ، اسلم کولسری والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے مابین مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران اچانک مسعود اشعر صاحب کا فون آگیا۔ انھوں نے بابا جانی فخرالدین بلے صاحب سے کوئی چار پانچ منٹ کی بات کی۔ جیسے ہی فون بند ہوا تو ہمارے باباجانی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے انتظار حسین صاحب سے کہا کہ انتظار بھائی آپ سے ایک کام ہے اور وہ یہ کہ پرسوں دس فروری ہے اور اسی شام آپ کا اور مسعود اشعر صاحب کا ایک ساتھ کہیں جانے کا ارادہ بھی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے لیے اپنا طے شدہ پروگرام بدل دیں اور دس تاریخ کے بجائے کسی اور دن کا پروگرام طے کرلیں لیکن اس پروگرام کی تبدیلی کا مسعود اشعر صاحب کو پہلے سے علم نہ ہوپائے۔ انتظار حسین صاحب نے بہ مشکل آدھا منٹ سوچا اور فرمایا جی جی بالکل لیکن آپ کے عزائم کیا ہیں۔ پھر جناب فخرالدین بلے شاہ صاحب نے انتظار حسین صاحب اور وہاں موجود دیگر احباب کو مخاطب فرماتے ہوئے کہا کہ جب پرسوں مسعود اشعر صاحب انتظار حسین صاحب کے گھر پہنچیں گے تو انتظار حسین صاحب اور ہماری بھابی صاحبہ انھیں یہ بتائے بنا کہ ہمارا پروگرام ملتوی ہوگیا ہے انھیں لے کر یہاں آجائیں گے. آپ تمام احباب پہلے سے موجو ہوں گے۔ انتظار حسین صاحب، اجمل نیازی صاحب، شہزاد احمد صاحب، منو بھائی بہ طور خاص مسعود اشعر کی افسانہ نگاری اور صحافتی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال فرمائیں گے اور ہم سب بھی اظہار خیال کرنے والوں میں شامل ہوں گے. اس کے بعد ہم مسعود اشعر صاحب سے ان کی سال گرہ کا کیک کٹواٸیں گے پھر عشائیے کا اہتمام ہوگا اور کوشش کریں گے کہ عشائیہ کے بعد کچھ دیر مزید گفتگو ہوسکے۔ لیکن خیال رہے کہ اس سازش کا مسعود اشعر صاحب کو علم نہ ہوپائے. یہ خوش خبری سنتے ہی نشست میں شامل سب ہی لوگوں کے چہرے کھل اٹھے۔ انتظار حسین صاحب نے ہمارے والد کا یہ بیان سماعت فرما کر کہا کہ آپ کی ہر بات کی تاٸید اور حمایت کا ہمیں یہ پھل ملا کہ آپ نے اسے ایک سازش قرار دے دیا اور مجھے یعنی انتظار حسین کو اس سازش کا اہم کردار بنا ڈالا. انتظار حسین صاحب کا ردعمل ایسا فوری اور برجستہ تھا کہ سب نے ہی انہی کے موقف کی تاٸید کی۔ اللہ کے فضل و کرم سے سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔ دس فروری کو مسعود اشعر صاحب کی سال گرہ کا قافلہ پڑاؤ بہت کام یاب رہا اور اس میں جناب احمد ندیم قاسمی صاحب اور ڈاکٹر سلیم اختر صاحب اور اس سازش میں شامل تمام اصحاب کے علاوہ بھی مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ میں سے اکثر نے شرکت کی۔ ہم پر بھی یہ عقدہ قافلہ کے زیراہتمام منائی جانے والی مسعود اشعر صاحب کی سال گرہ والے دن کھلا کہ یہ ان کی ساٹھویں سال گرہ تھی۔ جب مسعود اشعر انکل سے قافلے کے اس خصوصی پڑاؤ میں کیک کاٹنے کے لیے گزارش کی گئی تو انھوں نے کہا کہ اگر آپ سب لوگ اجازت دیں تو کیک کاٹنے کا معاملہ رات بارہ بجے تک موخر کردیا جائے اور جب تک ایک اور کیک کا بھی اہتمام کرلیا جائے کہ جو ظفر معین بلے سے کٹوایا جائے۔ مسعود اشعر انکل کے اس بیان پر جناب سرفراز سید نے کہا اوبجیکشن اوبجیکشن اگر ایسا ہوا تو ہمارا مطالبہ ہو گا کہ کیک کاٹنے کی رسم کو مزید چوبیس گھنٹےکےلیے ملتوی کردیاجائے کیوں کہ اگر گیارہ فروری کو ظفر معین بلے کی سال گرہ ہے تو بارہ فروری کو سرفراز سید کی بھی سال گرہ ہے۔ لہذا بہتر یہی ہوگا کہ مسعود اشعر صاحب کیک کاٹنے کی رسم بروقت ادا فرمائیں۔ اس پر ہال میں احباب کا زوردار قہقہ گونجا۔ اور تمام شرکائے قافلہ پڑاؤ نے مسعود اشعر صاحب کو ان کی سال گرہ کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ ظفر معین بلے اور سرفراز سید کو بھی سال گرہ کی پیشگی مبارک باد دی۔
مسعود اشعر انکل اپنی دفتری اور نجی مصروفیات کے باعث باقاعدگی سے قافلہ پڑاؤ میں شرکت نہیں کر پاتے تھے تو اس کے ازالے کے طور پر وہ اگلے یا دوسرے تیسرے دن وقت نکال کر ضرور ملنے کےلیے آتے تھے۔ لیکن جب جب بھی مسعود اشعر صاحب نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر منعقدہ قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کی وہ بھی دیگر تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ کی طرح ہماری بھی حسین یادوں کا حصہ ہیں۔ دو تین مرتبہ جب جب بھی محترمہ الطاف فاطمہ صاحبہ نے قافلے کے پڑاؤ میں افسانہ پڑھا تو جہاں اشفاق احمد صاحب، بانو قدسیہ صاحبہ، پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل صاحب، علامہ غلام شبیر بخاری علیگ، ڈاکٹر اجمل نیازی، شہزاد احمد، اسلم کولسری اور صدیقہ بیگم اور اسرار زیدی، بیدار سرمدی اور حسن رضوی جیسے مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ کے ساتھ مسعود اشعر انکل بھی تھے۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل، بانو قدسیہ، اشفاق احمد خاں، ڈاکٹر اجمل نیازی، انتظار حسین اور مسعود اشعر انکل کی گفتگو حد درجہ متاثر کرنے والی ہوا کرتی تھی۔ شرکائے قافلہ پڑاؤ تخلیق سے مستفید ہونے کے بعد اس تخلیق کے حوالے سے قابل ذکر اور اچھوتے پہلوٶں کی بنیاد پر ہونے والی گفتگو میں بھی بہت دل چسپی رکھتے تھے۔ ہم نے احمد ندیم قاسمی صاحب، عطا الحق قاسمی صاحب، ڈاکٹر آغا سہیل صاحب اور منو بھائی کو بھی مسعود اشعر انکل کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا ہے۔
جب لاہور میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا پچھتر سالہ جشن ولادت منایا گیا تو اس کی صدارت جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب نے فرمائی تھی۔ ملک بھر سے محبان احمد ندیم قاسمی نے بھر پور انداز میں شرکت فرمائی تھی۔ بیرون ملک سے بھی کثیر تعداد میں ادب دوستوں نے شرکت فرمائی جن میں جناب نصر ملک صاحب بھی شامل ہیں۔ ملتان سے پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب بھی تشریف لائے تھے اور انھوں نے بلے ہاؤس میں قیام فرمایا تھا۔ جشن احمد ندیم قاسمی کے اختتام پر بہت سے احباب و اصحاب والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ملنے ( اور ان کی عیادت کرنے) شادمان جی او آر تھری میں بلے ہاٶس پہنچنا شروع ہوگئے۔ جن میں مشتاق احمد یوسفی صاحب، جناب مختار مسعود صاحب، جناب مسعود اشعر صاحب اور ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب، شاہد واسطی، کلیم عثمانی صاحب، حفیظ تاٸب صاحب، قتیل شفائی، طفیل ہوشیارپوری اور مسعود اشعر صاحب کے علاوہ بھی دیگر بہت سے احباب تھے۔ اجمل نیازی صاحب نے مسعود اشعر صاحب سے پوچھا کہ جشن ندیم کیسا لگا آپ کو، جناب مسعود اشعر صاحب نے فرمایا یہ جشن تو تھا لیکن دراصل اعلان وراثت کا معاملہ تھا۔ جشن میں تو وراثت کا اعلان کیا گیا۔ کیک کاٹتے وقت ایک طرف ڈاکٹر ناہید قاسمی صاحبہ تھیں اور ایک طرف منصورہ احمد صاحبہ۔
ادبی تنظیم قافلہ کے اکثر پڑاؤ ایسے بھی ہوتے تھے کہ جن میں بیرون ملک سے آئی ہوئی علم و ادب سے وابستہ قابل ذکر شخصیات اور معتبر تخلیق کار بھی شرکت فرماتی تھیں۔ ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ کس ریاست سے لیکن ہاں یو اے ای کے کسی ریڈیو سے وابستہ انتہائی نفیس شخصیت کے مالک جناب مشتاق السید صاحب بھی شریک قافلہ پڑاؤ تھے۔ مسعود اشعر انکل بھی موجود تھے اور اشفاق احمد خاں صاحب بھی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی، شاہد واسطی اور ظفر علی راجا اور میرزا ادیب بھی. ڈاکٹر آغا سہیل صاحب بہت واضح الفاظ میں فرما رہے تھے کہ جب تک تخلیق کار مطالعے اور مشاہدے اور اپنے اور دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کی خواہش کرتا رہے گا معیاری ادب تخلیق ہوتا رہے گا۔ اور جب مقدار کو معیار پر فوقیت دی جانے لگے گی تو پھر انجام ریڈیو پاکستان سے مختلف نہیں ہوگا۔ اس بات کے جواب میں مسعود اشعر صاحب نے فرمایا کہ بےشک آپ کا تجزیہ سو فی صد درست ہے۔ جب سیکھنے کےلیے ادارے موجود ہوں اور ادارے بھی ڈاکٹر آغا سہیل اور اشفاق احمد، سید فخرالدین بلے اور احمد ندیم قاسمی جیسی عظیم المرتبت شخصیات کی شکل میں. اگر ان بےمثل اداروں ، تربیت گاہوں اور جامعات سے استعفادہ حاصل نہ کیا جائے تو دور جانے کی ضرورت نہیں. جیسا کہ ڈاکٹر آغا سہیل صاحب نے فرمایا کہ پھر انجام ریڈیو پاکستان جیسا ہوگا اور واقعی آپ دیکھیے اور غور فرمائیے کہ ہم میں سے ایسا کون ہے تلقین شاہ کے حوالے سے بہ شمول اشفاق احمد خاں صاحب کے کہ جو سید مصطفی علی ھمدانی جیسی بے مثال شخصیت اور ان کے کارناموں اور خدمات سے واقف نہ ہو۔ مگر دیکھ لیجے کہ یہاں موجود ابصار عبدالعلی جیسے گنتی کے کتنے لوگ ہوں گے جنھوں نے مصطفی علی ھمدانی صاحب جیسی درس گاہ سے استعفادہ کیا ہوگا۔ مسعود اشعر انکل کے اس موقف کے جواب میں اشفاق احمد صاحب نے فرمایا کہ آغا سہیل صاحب اور مسعود اشعر صاحب کی رائے سے کسی کو کیا اختلاف ہوسکتا ہے اور میں تو یہ کہوں گا کہ بےشک ایک وقت ایسا ہوگا کہ جب سید صاحب مصطفی علی ھمدانی کی پہچان اور شناخت ریڈیو پاکستان تھا مگر دیکھا جائے اور سمجھا جائے تو ریڈیو پاکستان کا پہلا تعارف کروانے والی شخصیت بھی تو کوئی اور نہیں خود سید مصطفی علی ھمدانی ہیں. لیکن ہم نے تو خود اپنی آنکھوں سے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب ریڈیو پاکستان کی پہچان اور شناخت سید مصطفی علی ھمدانی ہوا کرتے تھے اور ہماری نظر میں تو آج بھی ہیں۔
مسعود اشعر انکل ادب لطیف کے بھی کئی برس تک مدیر رہے۔ بعد ازاں راقم السطور ظفر معین بلے کو بھی مسلسل دس برس ماہنامہ ادب لطیف کا مدیر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان دس برسوں کے عرصۂ ادارت میں ہم نے متعدد بار مسعود اشعر انکل سے مختلف امور اور معاملات میں راہ نمائی حاصل کی۔ مسعود اشعر انکل مشورہ بھی فورا دے دیا کرتے اور راہ نمائی بھی فرمایا کرتے اور ساتھ ساتھ یہ ہدایت ضرور فرماتے کہ بہتر رہے گا اگر اپنے والد سید فخرالدین بلے صاحب سے بھی مشورہ کرلیں اور انھیں یہ بھی بتادیں کی میرا یہ مشورہ ہے. مسعود اشعر صاحب کے محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ سے بھی بہت اچھے مراسم رہے۔ صدیقہ بیگم جب کبھی بھی کسی ادبی تقریب کا اہتمام فرماتیں تو اس میں مسعود اشعر صاحب بھی ضرور مدعو کیے جاتے تھے۔ ہمارا بھی جب جب لاہور جانا ہوتا ہم بھی انھیں ضرور مطلع کرتے اور ایک دو ملاقاتیں تو ضرور ہوجایا کرتی تھیں۔ عموماً تو ہم صدیقہ بیگم کے ہم راہ مسعود اشعر صاحب سے ملنے ان کے دفتر یا گھر جایا کرتے یا پھر صدیقہ بیگم انھیں کہا کرتی تھیں کہ آپ کا بھتیجا ظفر معین بلے کراچی سے آیا ہوا ہے آپ کب ملنے کےلیے تشریف لارہے ہیں. اس بات کے جواب میں مسعود اشعر انکل ہمیشہ یہ ضرور کہا کرتے تھے کہ بےشک بھتیجا تو ہے بلکہ ڈبل بھتیجا ہے ہمارے بہت پیارے بھائیوں جیسے دوست سید فخرالدین بلے صاحب کا بھی بیٹا اور آپ کا بھی بیٹا۔ اس طرح ڈبل بھتیجا ہوگیا۔
مسعود اشعر اور سید فخرالدین بلے کی داستان رفاقت کئی دہائیوں پر بلکہ نصف صدی پر محیط ہے۔ ہمارے ہوش سنبھالنے سے لے کر والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی رحلت تک۔ لیکن مسعود اشعر انکل نے اور ہم نے اور سید انجم معین بلے بھائی اور سید عارف معین بلے بھائی نے دونوں خاندانوں کی تعلق داری کو نہ صرف یہ کہ قائم رکھا بلکہ اسے مذید مستحکم بھی کیا۔ یہاں میں اپنے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے حلقہ احباب میں شامل بیش تر احباب جن میں مدیر اردو ڈائجسٹ جناب الطاف حسن قریشی، جناب پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب، جناب رشید امجد، مدیر فنون جناب احمد ندیم قاسمی صاحب، علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ، انتظار حسین، پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب، جناب شعیب بن عزیز صاحب، جناب طارق محمود صاحب، رسا چغتائی صاحب، پروفیسر صلاح الدین حیدر صاحب، پروفیسر منور علی خان علیگ، عطاء الحق قاسمی صاحب، سید سلطان احمد سابق مدیر روزنامہ امروز ملتان، پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر صاحب، پروفیسر ڈاکٹر اصغر ندیم سید صاحب، جناب اظہر امام زیدی صاحب، جناب جمیل الدین عالی، جلیل عالی صاحب، پروفیسر ڈاکٹر اجمل نیازی، پھوپی اماں ادا جعفری، شبنم رومانی صاحب، خالد احمد بھائی، نجیب احمد بھائی اور دیگر اصحاب کہ جن کے ناموں کی فہرست بہت طویل ہے اور ان میں مسعود اشعر صاحب بھی شامل ہیں کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات ہمارے یتیم ہونے کے بعد بھی بلے فیملی کے ساتھ قائم رکھے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی وفات کے بعد معروف شاعرہ اور سابق شریک مدیرہ فنون منصورہ احمد صاحبہ نے احمد ندیم قاسمی صاحب کی یاد میں رسالہ مونتاج کا آغاز کیا۔ مونتاج کی مجلس مشاورت میں جناب مسعود اشعر صاحب بھی شامل تھے۔ مونتاج نے احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے شان دار اشاعت خاص کا اہتمام بھی فرمایا تھا۔ آپ اس اشاعت خاص کو ایک شاہ کار اور ایک تاریخی دستاویز قرار دے سکتے ہیں۔ منصورہ احمد صاحبہ کا بھی فون آتا تو وہ تفصیلی گفتگو فرماتی تھیں اور برملا اس بات کا اعتراف کرتی تھیں کہ ظفر بلے بھائی مجھے جس قدر حوصلہ جناب مسعود اشعر صاحب نے دیا اور جتنی حوصلہ افزائی فرمائی میں بتا نہیں سکتی۔ فون پر آپ سے بات کرکے اور مسعود اشعر صاحب سے مل کر میری زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ منصورہ احمد صاحبہ ہمیشہ مجھے میری ہی کہی ہوئی باتیں یاد دلایا کرتی تھیں کہ ہمت نہیں ہارنی حوصلے بلند رکھنے ہوں گے، بابا احمد ندیم قاسمی صاحب کی آنکھیں بند ہونے پر بہت سے چہرے بے نقاب ہوجائیں گے۔
اور منصورہ احمد کی زیر ادارت مونتاج کا پہلا شمارہ منظر عام پر آنے سے قبل ہی ایک جناب مسعود اشعرصاحب کا فون آیا اور انھوں نے خیریت دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھےاس بات کی بہت خوشی ہے کہ منصورہ احمد جب جب بھی آپ سے رابطہ کرتی ہیں تو آپ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور آپ کے مشوروں میں منصورہ مجھے شامل رکھتی ہیں۔ آپ کے توسط سے منصورہ احمد کو مونتاج کےلیے قاسمی صاحب کے حوالے سے چند بہت اچھے مضامین بھی موصول ہوئے۔
قلم کی حرمت کے پاسبان جناب مسعود اشعرصاحب کے انتقال پرملال پر ممتاز شاعر اور سینٸر صحافی اور ہردل عزیز کالم نگار جناب محمود شام صاحب نے لائیو شام اطراف میں اپنے اور مسعود اشعر صاحب کے دیرینہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی صحافتی اور ادبی خدمات کا شان دار الفاظ میں ذکر کیا اور انھیں زبردست انداز میں خراج پیش کیا۔
مسعود اشعر انکل کی وفات سے افسانے کا ایک درخشاں عہد ہی ختم نہیں ہوا بلکہ اصولی اور نظریاتی صحافت کا ایک قابل ذکر چراغ بھی گل ہوگیا ہے.
مسعود اشعر انکل نے ملتان کو اپنے دل میں بسایا ہوا تھا اور اہالیان ملتان نے مسعود اشعر صاحب کو اپنے دل میں۔ مسعود اشعر صاحب کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد، پروفیسر اصغر ندیم سید، پروفیسر صلاح الدین حیدر اور دیگر وابستگان ادب دراصل وابستگان مسعود اشعر بھی ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان شخصیات کے سامنے ملتان کا تذکرہ ہوا ہو اور انھوں نے ڈاکٹر اسد اریب، مسعود اشعر، سید فخرالدین بلے، حیدر گردیزی، حسن رضا گردیزی، قصور گردیزی، عرش صدیقی، مقصود زاہدی فرخ درانی، ارشد ملتانی، ڈاکٹر ہلال جعفری، غنی چوہدری، ڈاکٹر مہرعبدالحق، ڈاکٹر اے۔بی اشرف، پروفیسر حسین سحر، جیسی ادب و صحافت سے وابستہ نامور شخصیات کا ذکر نہ کیا ہو۔ اور یہی حال مسعود اشعر صاحب کا تھا. اسی لیے تو ہم اکثر انھیں مسعود اشعر ملتانی انکل کہا کرتے تھے.
مسعود اشعر کو ادبی خدمات پر 2015 میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا، ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی بھی انھیں دیا گیا۔ مسعود اشعر اردو کے معروف افسانہ نگار اور صحافی مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان ہے اور وہ 10 فروری 1930ء کو رام پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور اور ملتان میں قیام پذیر رہے اور روزنامہ احسان، زمیندار، آثار اور امروز سے وابستہ رہے۔
اردو کے ممتاز فکشن نگار، صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر 90 سال کی عمر میں 5.جولاٸی2021 کو انتقال کرگئے۔ ان کی تدفین 6.جولائی 2021 کو کی گئی۔
یہ محض دو برس قبل کی بات ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی سالانہ اردو کانفرنس کے دوران آڈیٹوریمز میں کانفرنس کے سیشن جاری تھے اور مسعود اشعر انکل نے سر میں درد محسوس کیا تو وہ کانفرنس آڈیٹوریم سے اٹھ کر کھلی ہوا اور فضا میں باہر آگئے۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے آڈیٹوریم کے اندر جانے کےلیے دروازہ کھولا تو اس سے قبل کہ ہم قدم اندر رکھتے ہم نے مسعود اشعر صاحب کو باہر آتے ہوئے دیکھا تو دروازہ کھول کر ان کے قدم ہال سے باہر آنے کے انتظار میں کھلا ہی رکھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہم مسعود اشعر صاحب سے مل چکے تھے۔ ہم نے بلا جھجک دریافت کرلیا کہ انکل آپ کو کیا چائے کی طلب ہورہی ہے۔ مسعود اشعر انکل سے ہمارا حد درجہ احترام کا مگر بےتکلفانہ تعلق تھا۔ ہمارے سوال کے جواب میں انکل نے فرمایا ہاں بھئی ضرور چائے کی طلب بھی ہورہی ہے اور سر میں درد سا بھی محسوس ہورہا ہے۔ ہم دونوں ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے اور پھر ہم نے مسعود اشعر انکل سے عرض کیا کہ ہم ایک منٹ میں آپ کےلیے خود چائے لے کر آتے ہیں۔ ہماری اس بات پر انکل مسکرائے اور فرمایا کہ کسی سے کہہ دیں آپ خود کیوں زحمت فرماتے ہیں۔ جواب میں ہمارے پاس بھی کہنے کو کچھ نہ تھا لہذا ہم بھی مسکرادیے اور واقعی ہمیں چائے لانے میں ایک دو منٹ ہی لگے ہوں گے۔
ابھی ہم دونوں نے چائے کے ایک دو گھونٹ ہی لیے ہوں گے کہ ہم نے دیکھا کہ معمولی سے فاصلے پر پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد، پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی، ڈاکٹر وفا یزدان منش ڈاکٹر ذکیہ رانی اور چند دیگر مندوبین بھی آڈیٹوریم کے باہر اسی ہال میں یکجا تھے۔ ہم اور مسعود شعر انکل اٹھ کر اس اردو کانفرنس کا حصہ بن گئے۔ وہاں ادبی موضوعات پر گفتگو جاری تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے ملتان کے قصے چھیڑ دیے۔ ملتان کی علمی و ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں اور ہنگامہ آرائیوں کے حوالے سے بات کرتے رہے۔ ہم نے مسعود اشعر انکل سے پوچھا کہ اب آپ کے سر کا درد کیسا ہے تو مسعود اشعر انکل نے ہمارے قریب ہوکر فرمایا کہ انوار احمد صاحب ہمیں بہت عزیز ہیں ہمارے لیے ان کی گفتگو ہمیشہ سے ہی ٹانک اور انرجائزر کا کام کرتی ہے۔ ہماری اس ایک ڈیڑھ منٹ کی بات چیت کے دوران پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی گفتگو تو جاری تھی ہی لیکن دبستان ملتان کے حوالے سے پہلے تو موضوع گفتگو جناب مسعود اشعر صاحب ہوئے اور اس حوالے سے مسعود اشعر صاحب کے ادبی سفر پر ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے تفصیل سے روشنی ڈالی اور مسعود اشعر صاحب کی ملتان سے قلبی اور جذباتی وابستگی کو بھی موضوع بنایا۔ کیسے کیسے واقعات یاد دلادیے۔ ماشا اللہ ماشا اللہ. پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب کا حافظہ بھی ان کی شخصیت کی طرح شان دار اور بلا کا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی گفتگو کا موضوع والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور پھر سید فخرالدین بلے صاحب کی ادبی اور ثقافتی خدمات اور کارنامے ہوگئے۔ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے سید فخرالدین بلے کے بے شمار کارناموں اور خدمات کا ذکر کرتے ہوئے جشن تمثیل 1982 پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ مسعود اشعر صاحب بھی مسلسل گفتگو میں شامل رہے اور اب تو مسعود اشعر انکل کو بھی خود اپنے، ملتان اور بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلےشاہ صاحب کے حوالے سے بہت سے قصے یاد آگئے اور ڈاکٹر انوار احمد صاحب انیس سو ستر سے انیس سو ستتر تک کے عہد کے ناموران ملتان کو یاد فرمارہے تھے اور اس عہد کے اہم ادبی واقعات بھی۔ پہلے تو وہ مسعود اشعر اور فخرالدین بلے کے باہمی مراسم اور تعلقات پر بات کرتے رہے پھر اس حوالے سے بہت سے واقعات ان کو یاد آتے چلے گئے۔ مسعود اشعر صاحب اور ڈاکٹر انوار احمد صاحب جیسے جیسے سید فخرالدین بلے اور ان کی شخصیت اور فن اور خدمات اور کارناموں پر روشنی ڈالتے چلے جارہے تھے ویسے ویسے ڈاکٹر شاداب احسانی اور ڈاکٹر ذکیہ رانی صاحبہ سے پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش صاحبہ کے تجسس میں اضافہ ہورہا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ خود ہماری کیفیت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ ہم پر بھی اسی دن اسی محفل میں یہ انکشاف ہوا کہ پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش صاحبہ نے انہی دنوں سید فخرالدین بلے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی اے۔ایم۔یو۔ AMU. کی مرتب کردہ کتاب سید فخرالدین بلے ۔ ایک آدرش ۔ ایک انجمن کا مقدمہ تحریر فرمایا ہے.
یہ پاکستان آرٹس کونسل آف کراچی میں قیام پاکستان کے بعد ملتان کی ادبی اور ثقافتی تاریخ کے موضوع پر منعقدہ غیر اعلانیہ کانفرنس کا سرسری سا تذکرہ تھا کہ جس کی صدارت ممتاز محقق، نقاد، ادیب اور استاذالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب فرمارہے تھے. جب کہ مہمانان خصوصی صدر شعبۂ اردو یونی ورسٹی آف تہران۔ ایران پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش اور سابق صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی تھے۔ جب کہ دیگر شرکائے گفتگو میں محترم جناب زاہد حسین جوہری صاحب بھی شامل تھے۔ جناب زاہد حسین جوہری صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی کے بہت سے واقعات بیان فرمائے۔ عہد طالب علمی میں جناب قبلہ والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور محترم و مکرم مسعود اشعر صاحب سے سے بھی اپنی ملاقاتوں کا ذکر فرمایا۔ ڈاکٹر اصغر ندیم سید کو بھی یاد کیا. اس کے ساتھ ساتھ اپنے مقتدر و محترم اساتذۂ کا حد درجہ تعظیم و تکریم سے ذکر فرمایا۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کو بھی یاد فرمایا اور قابل صد احترام استاذالاساتذہ سرکار قبلہ پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب کی علمی اور ادبی حیثیت اوران کی ادبی و علمی خدمات کا تفصیلی جایزہ پیش کیا۔ جناب زاہد حسین جوہری صاحب نے تو یادوں کی کتاب ہی کھول دی. کیا ڈاکٹر سید مقصود زاہدی اور کیا ڈاکٹر مہر عبدالحق۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی اور پروفیسر صلاح الدین حیدر۔ مسعود اشعر انکل کے افسانوں کے مجموعے آنکھوں پر دونوں ہاتھ، سارے افسانے اور اپنا گھر کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2009 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ لاہور میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بعد ازاں روزنامہ دنیا سے وابستہ رہے۔
جب ضیاء الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے تو مسعود اشعر فیملی اور ضیاء الحق فیملی دونوں فیملیز کی بہت قربت تھی۔ ضیاء الحق ملتان میں تعیناتی کے دوران ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ سید فخرالدین بلے صاحب اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ امروز مسعود اشعر صاحب کے دفاتر میں آنا جانا تھا. البتہ بروز جمعہ ضیاء الحق فیملی کا ظہرانہ جناب مسعود اشعر صاحب کے گھر پر ہی ہوا کرتا تھا اور یہی معمول رہا ۔ پانچ جولائی 1977 کو ضیاءالحق کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پروفیسر صلاح الدین حیدر، سید فخرالدین بلے، ڈاکٹر اصغر ندیم سید اور دیگر محبان وطن اور دیش بھگتوں کی طرح جناب مسعود اشعر صاحب کو بھی حد درجہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور اتفاق دیکھیے کہ جب ملک بھر میں 5 جولائی کی یاد میں یوم سیاہ منایا جارہا تھا تو اسی دن ایک عظیم تخلیق کار اور ایک بے باک اور فرض شناس اور محب وطن صحافی کہ جنھیں قلم کی حرمت کا پاسبان کہا جاتا تھا جی ہاں جناب مسعود اشعر صاحب اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
مسعود اشعر صاحب کی تصانیف:
آنکھوں پر دونوں ہاتھ(افسانے)
سارے افسانے
اپنا گھر 2004 (افسانے)
سوال کہانی (افسانے) 2020
پاکستان کی سیاسی جماعتیں
یورپ مسلمانوں کی نظر میں
آخری مرد کی موت
اعزازات: مورخہ 14 اگست 2009ء کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور 2015ء کو پاکستان کا تیسرا بڑا اعزاز ستارہ امتیاز ملا۔
امروز ملتان کا ڈیرہ اڈہ کے نزدیک وہ دفتر کہ جو حسن پروانہ کالونی کے موڑ کے ساتھ ہی تھا اور وہیں اسی حسن پروانہ کالونی کے بالکل شروع میں اور امروز کے دفتر سے چند قدموں کے فاصلے پر جناب مسعود اشعر صاحب کی کرائے کے مکان میں رہاٸش تھی اور شاید یہ مکان جناب پروفیسر ایم۔اے۔ قدوس صاحب کا تھا۔ ہم اور ہم سے بڑی بہن آمنہ، مسعود اشعر اور ان کی اہلیہ کی گودوں میں کھیلے ہیں۔ ہم نے ہوش سنبھالنے سے اب تک مسلسل مسعود اشعر انکل کی قربت کو محسوس کیا ہے اور جب ک یہ عادت پختہ ہو گئی تو ….