ذہانت کیا ہے؟ آج ہم جن روبوٹس کو اور کمپوٹرکے پروگرامز کو مصنوعی ذہانت دے رہیں وہ دراصل کیا ہے؟ ذہانت کی تعریف پیچدہ ہے مگر اس میں سب اہم جُز پیٹرن رکگنیشن ہے۔ یہ کیا ہے؟ فرض کریں آپکے سامنے ایک تصویر ہو جس میں ایک ہی قطار میں گلاب کے، چنبیلی کے اور ٹیولپ کے پھول پڑے ہوں مگر ایک خاص ترتیب میں۔ اگر آپ میں یہ صلاحیت ہے کہ آپ یہ جان سکیں کہ یہ تمام پھول کونسے ہیں اور کس ترتیب میں پڑے ہیں اور اگر آپ اس بنیاد پر آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قطار کو لمبا کیا جائے تو باقی پھول کس ترتیب میں آئیں گے تو آپ پیٹرن رکگنیشن کر رہے ہیں۔ انسان، جانور اور فطرت کے تمام جانداروں میں کسی نہ کسی درجے پر کسی نہ کسی عمل میں پیٹرن رکگنیشن پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور ایک بکری کے سامنے گوشت اور گھاس رکھی جائے تو وہ یہ بتا سکتی ہے کہ گوشت کونسا ہے اور گھاس کونسی۔ یہ سب وہ کس طرح سے کرتی ہے؟ سونگھ کر یا دیکھ کر یا چکھ کر۔
مصنوعی ذہانت بھی دراصل پیڑن رکگنیشن پر قائم ہے۔ آپ ایک روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول سے سیکھے، اس میں موجود پیڑنز کو پہچانے اور پھر اسکے مطابق کوئی فیصلہ کرے، خود کو ڈھالے، تبدیل کرے یا بہتر ہو۔ یعنی وہ اپنے اندر سیکھنے کے عمل سے خود تبدیلیاں رونما کر سکے۔ اسے مشین لرننگ کہتے ہیں۔
بالکل ایسے ہی فیسبک یا یوٹیوب کے پیچھے کارفرما مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز آپکی کسی خاص طرح کی ویڈیوز کو دیکھنے، اُن پر وقت گزارنے یا اّن پر کمنٹس اور ری ایکشن کی بنیاد پر یہ سیکھتی ہے کہ آپ کس مزاج کے آدمی ہیں اور آپکو کونسی چیزیں متوجہ کرتی ہیں۔ لہذا ویڈیو ختم ہونے کے بعد وہ آپکے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپکو اگلی ویڈیو وہ تجویز کرے گا جسے دیکھنے کے آپکے قوی امکانات ہوں۔ یہ پیشنگوئی بہتر سے بہتر ہوتی جائے گی جب آپ زیادہ سے زیادہ وقت ان پلیٹفرمز پر گزاریں گے۔ جتنا زیادہ ڈیٹا مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز کے پاس آپکا ہو گا، وہ اّتنا صحیح اندازہ آپکے بارے میں لگائے گا۔ یہ سب کرنے کے پیچھے ان کمپنیوں کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ وقت فیسبک یا یوٹیوب پر گزار سکیں اور زیادہ سے زیادہ اشتہارات دیکھ سکیں تاکہ ان سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو اشتہارات کی مد میں کمائی ہو۔ جسکی بنیاد پر یہ چل رہے ہوتے ہیں۔
گویا مصنوعی ذہانت کسی نہ کسی شکل میں آپکے اردگرد موجود ہے اور آپکی زندگی اور سوچ پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ اور ایسے ہی اپ بھی اُسے انسانوں کے بارے میں سکھا رہے ہیں۔
دنیا کا مستقبل اب مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے جڑا ہے۔ آسکا ایک مقصد تمام شعبوں میں اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر انہیں خودکار اور مزید موثر بنانا ہے۔ مثال کے طور پر انکی بدولت ہم آج موسم کی صورتحال، سیلاب کی یا طوفان کی پیشنگوئیاں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں کہ یہ موسموں کے پیٹرنز کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح طب کے شعبے میں مختلف بیماریوں جیسے کہ کینسر می تشخیص میں بھی مریض کے اعضا کی لی گئی تصاویر کو دنیا بھر کے کینسر کے مریضوں کی تصاویر کے ڈیٹا سے موازنہ کر کے پیٹرن دیکھا جا سکتا ہے کہ کینسر ہے یا نہیں۔
مصنوعی ذہانت کے کئی فوائد ہیں مگر اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت انسانوں سے بھی آگے نکل جائے اور ہم اسے قابو کرنے میں ناکام رہیں۔ اس حوالے سے سائنس کی کمیونٹی اور محققین میں مخلتف آرا پائی جاتی ہے مگر سب اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ ہمیں اس ٹیکنالوجی کی تحقیق اور استعمال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے تاکہ ان خدشات کو دور کیا جا سکے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹس مستقبل میں دنیا پر قبضہ کر لیں ؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال آپ فیسبک کی وہ ویڈیوز دیکھئے جو مصنوعی ذہانت اپکو تجویز کر رہی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...