مصنوعی ذہانت کا لفظ پہلی بار Dartmouthبرطانیہ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں معرض وجود میں آیا۔مصنوعی ذہانت یعنیArtificial intelligenceکو عموماًاب صرف AI(اے آئی ) کہا جاتا ہے۔’’اے آئی ‘‘اب یہ انگریزی کے مستقل لفظ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ AIایک ایسا تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے جو کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے ایسی مشینوں کو بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو انسانی ذہانت کی مانند سیکھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔یہ مشینیں بڑے پیمانے پر موجودہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے چیزوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق ردعمل کا اظہار کرتی ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روبوٹک سائنسزکی ترقی کے بعد صنعتوں میں انسانوں کی جگہ مشینوں نے لے لی ہے جو انسانوں کے مقابلے میں زیادہ کام کم وقت میں سرانجام دے سکتی ہیں ۔ہزاروں ایسی مشینیں اور ایسے آلات جن کی مثالیں موجود ہیں ۔ریفریجریٹر،ائیر کنڈیشنز،ٹوسٹر ،کھلونے ،حفاظتی آلارم کا نظام ،کمپیوٹر کا شطرنجی کھیل ،ہوائی جہاز اڑانے کی خودکار مشین آٹو پائلٹ ،ہوٹل سروسز میں ویٹر کی جگہ روبوٹ ،ائیر پورٹ اور دیگر حساس مقام میں باڈی سیکنرکا استعمال اور دفاعی انداز میں ڈرون کا استعمال وغیرہ یہ سب مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہی کام کرتے ہیں ۔ایک سائنس داں کا قول ہے کہ :
’’مصنوعی ذہانت کے اصولوں پر بنائی ہوئی کوئی بھی مشین ایک سی مشین بن جاتی
ہے جب لوگ اس کے بار بار استعمال سے اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔‘‘(۱)
مصنوعی ذہانت کے تحت چیٹ جی پی ٹی کا فیچر متعارف کروایا گیا ہے۔چیٹ جی پی ٹی سے اگر کوئی بھی سوال پوچھا جائے تو یہ آپ کو اس حوالے سے ایک تفصیلی جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔خواہ آپ اس سے کوئی نظم لکھوالیںیا اپنے اسکول کی نصابی مشق مکمل کرنے میں راہنمائی حاصل کریں ۔یہ سافٹ ویئر آ پ کو ناامید نہیں کرے گا۔۔۔۔۔مضمون ،شاعری اور لطیفوں سے لے کر کمپیوٹر کوڈز تک ،ڈائیگرم اور تصاویر ،کسی بھی نوعیت کا آرٹ ورک اور بہت کچھ اس کے ذریعے بآسانی تیار کیا جاسکتا ہے ۔چیٹ جی پی ٹی کا حلقہ اُن طلبا سے شروع ہو کر ،جو انہیں اپنا ہوم ورک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ اُن سیاست دانوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جو اس کی مدد سے اپنی تقریریں تیار کرتے ہیں ۔اس رجحان نے انسانی وسائل میں تبدیلی پیدا کردی ہے۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں ’’آئی بی ایم ‘‘جیسی بڑی کمپنیوں نے تقریباً آٹھ ہزار ملازمتوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔اب وہ یہ کام مصنوعی ذہانت کی مدد سے لیں گئے ۔اوکسفرڈ لغت کے مطابق مصنوعی ذہانت کی تعریف یہ ہے:
’’مصنوعی ذہانت ایک ایسا تکنیکی نظام ہے جو معطیات Data))سے حاصل کردہ ہدایات
کے مطابق عمل کرتا ہے اور موجودہ معطیات سے سیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔‘‘ (۲)
تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے اپنے تخیل میں ایک نئی کائنات کو پیدا کیا جس میں وہ ایک ایسی چیز کا بانی ٹھہرا جو انسانی دماغ کی مانند پیچیدہ معلو مات کو پراسیس(عمل ،پیش رفت ) کر سکنے کی قابلیت رکھتی ہے۔مختصر یہ کہ کہانیوں کی شکل میں اس کی طرزِ نقاشی دیو مالائی کہانیوں کی صورت میں بیان ہوتی آئی ہیں ۔انسان کا تخیل ایک لمبے وقت کے بعد کمپیوٹر کی شکل میں سامنے آیا ۔چیٹ بوٹس اور دیگر مصنوعی ذہانت کے آلات کے پاس شاید اپنے کوئی جذبات موجود نہ ہوں ، مگر اب انہیں انسانوں میں جذبات پیدا کرنے اور ہمارے ساتھ گہرے تعلقات مستحکم کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔یہ معاشرے کو کم ازکم کمپیوٹر کو شعوری مخلوق کے طور پر دیکھنا شروع کرنے پربے بس کرسکتا ہے اور انہیں انسانوں کے مساوی حقوق عطا کرسکتا ہے۔
اب ہندوستانی زبانوں میں بھی مصنوعی ذہانت کے استعمال کا آغاز ہوگیا ہے۔اس لیے اُردو کے ساتھ کچھ اور ہندوستانی زبانوں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے مختلف موضوعات پر مضامین اور نظمیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔مگر کیا جذبات ، حقیقت ، تخیل ، ذہانت اور زبان کو اس طرح کی نظموں اور مضامین میں سمو پانا ممکن ہے جس طرح ایک جیتا جاگتا تخلیق کار اپنی شاعری یا نثر میں سموتا ہے۔ایک تخلیق کار زندگی اور معاشرے سے تجربات کشید کرکے اپنی تحریر مکمل کرتا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت انٹرنیٹ کے سمندر میں موجود ڈیٹا کی مدد سے اپنی تحریر بناتی ہے۔مصنوعی ذہانت اپنی تحریر میں ادبی الفاظ پرو سکتی ہے ،شاعری نما کچھ لکھ سکتی ہے لیکن اس کے ذریعے بنائی ہوئی تحریر میں فن اور ہنر مندی کا فقدان ظاہر ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر اُردو کی مشہور نظم ساحر لدھیانوی کی ’’تاج محل ‘‘کو ذہن میں رکھیں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی جانے والی نظم ملاحظہ فرمائیں ۔
مر مر کا قصر ،سفر کی داستان
شاہ جہاں کی محبت کا احسان
یہاں کے باغات میں خوشبو کا لباس
تاج محل کی زیبائی ،دل کے پیار کا پیغام
محبت کی کہانی ، تاج محل کے ہیرے
یادوں کے سنگ ،تاریخ کے جلوس کی طرح (۳)
اسی طرح اسرار الحق مجاز کی نظم ’’رات اور ریل ‘‘بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی گئی ہے۔
ریل چلتی ہے راہوں کی رفاقت کے ساتھ
راستوں پر جا کر کتابوں کے ساتھ
سفر کی دنیا، مناظر دلوں کی خوشبو
یہاں کی داستانوں کے ساتھ
سفر کرتے رہو، اپنے خوابوں کو پکڑو
ریل کی راہوں کی روشنی کے ساتھ (۴)
یووال نوح ہراری کی کتاب Sapeinsدنیا میں بہت زیادہ فروخت ہوئی ،اس میں بھی ہراری کا مقدمہ یہی تھا کہ روبوٹس اور مصنوعی ذہانت بنی نوع بشر کو غلام بنا لیں گئے یا کرہ ارضی سے مکمل طور پر ختم کردیں گئے جیسے کہ ہماری نوع سے قبل کی انواع تباہ و برباد ہوئی ہیں ۔مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے جو ادب دیکھنے کو ملے گا اس پر تنقید نگاری کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے۔یا دوسرے حوالے سے دیکھا جائے تو اس بات کے بھی قومی امکانات موجود ہیں کہ مستقبل میں ادبی تخلیقات کے معیار کو جانچنے کے لیے مصنوعی ذہانت Artificial intelligenceکی مدد سے ایسا سافٹ وئیر تیار کیا جاسکے جو ان کے اسلوب ،فکر و عمل کا جامع انداز میں تنقیدی تجز یہ پیش کرسکے ۔اسی طرح ادیبوں کو دئیے جانے والے ادبی اعزازات اور ایوارڈزکو بھی مصنوعی ذہانت سے جوڑ دیا جائے اور ادبی اعزازات جو کئی ادیبوں اور دانش مندوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں اور اقربا پروری اور بدعنوانی کے الزامات لگائے جاتے ہیں ،ان کا خاتمہ ہوسکے ۔یا دوسرے لفظوں میں ایسے روبوٹ ادیب بھی سامنے آسکتے ہیں جن کی خدمات کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ ادبی اعزازات انہیں عطا کیے جاسکیں ۔ڈاکٹر طارق ہاشمی مستقبل میں مصنوعی ذہانت Artificial intelligenceکے اردو ادب میں امکانات پر تبصرہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
’’ بات یہ ہے کہ مستقبل میں ناول ، افسانہ ،ہماری غزل اور نظم یہ بھی آرٹیفشل
انٹیلیجنس سے تخلیق ہوگئی ۔‘‘ (۵)
اُردو کے مشہور استاد اور ادیب ڈاکٹر مظفر عباس سے ایک مصاحبے میں پوچھا گیا کہ تیزی سے بدلتی دنیا میں جہاں مصنوعی ذہانت کا بہت چرچا ہے ، کیا ادب کی گنجائش موجود رہے گئی؟ وہ یوں گویا ہوتے ہیں :
’’مستقبل میں مصنوعی ذہانت ادب کو مہمیز کردے گئی ۔‘‘(۶)
گو کہ مصنوعی ذہانت بہت سے شعبوں میں سود مند ثابت ہورہی ہے ،مگر اسے ادب کے میدان میں کارآمد ہونے میں بہت وقت لگے گا اور اگر مستقبل میں یہ فائدہ مند ہو بھی جاتی ہے ،تب بھی مصنوعی ذہانت کا انسان کے ذریعے تخلیق کردہ ادب کے معیار تک پہنچنا مشکل ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تمام تر کار کردگی مشین لرننگ الگورتھیم (حساب و شمار کا عمل ) مطلب پہلے سے موجود ڈیٹا سے حاصل کی جاتی ہے۔مصنوعی ذہانت میں زبان کی باریکیوں کا کوئی شعور یا تصور پیدا کرنا بھی ایک مشکل کام ہے۔اُسے فراہم کیے جانے والے تمام تر معطیات (ڈیٹا) کے باوجود مصنوعی ذہانت میں مزاح کا شعور اور استعارے کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا بھی تقریباً ناممکن ہے ۔یقیناً آنے والے وقت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ دو طرح کے ادب ایک انسانی ذہن کا تخلیق کردہ ادب اور ایک مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار ہونے والا ادب سامنے آئے ۔مگر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مشینوں کے ذریعے پیدا ہونے والا ادب انسان کے جذبات و احساسات کا بہترین عکاس نہیں ہے۔کیوں کہ مصنوعی ذہانت ایک رٹا اور نقل ہے ۔بشرطیکہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔بے شک عہد حاضر میں مصنوعی ذہانت انسان کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہے ۔لیکن اس کے بے جا استعمال نے انسانی تخلیق کو بے حد متاثر کیا ہے۔جس کی عمدہ مثال یہ ہے کہ انسان کے اندر تخلیق ،تحقیق اور جستجو ختم ہوتی جارہی ہے۔سب سے بڑھ کر تخلیق ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا تخیل جس کی مدد سے وہ سہانے خواب دیکھتا ہے اور اُن کو صفحہ قرطاس پر اُتارتا ہے وہ تخیل بھی اب ناپید ہوچکا ہے۔انسانی ذہانت مصنوعی ذہانت کی محتاج بن چکی ہے۔اور اس محتاجی سے باہر نکل پانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں مناسب یہی ہے کہ مصنوعی ذہانت کو محض راہنمائی کی حد تک محدود رکھا جائے ۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کردہ ادب کو جوں کا توں قبول کرلینا نہ صرف نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے بلکہ انسانی ذہنیت کو بھی مفلوج کرسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے۔۔۔۔۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ادب کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
حوالہ جات
۱۔باقر نقوی ،مصنوعی ذہانت :ایک نیا فکری تناظر ،اکادمی بازیافت ،کراچی ،۲۰۰۶،ص ۵۵
۲۔www.ibm.defination\English\artificial\intelligence
۳۔https:\\www.inquilab.com.pk\articles
۴۔ https:\\www.inquilab.com.pk\artiles
۵۔https:\\youtu.be\IIWRygnSuV8?si=yEQbQ5gZ72XV94o
۶۔ https:\\www.inquilab.com.pk\artiles