پاکستان کا پرنٹ ، ایلکڑک میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ پاکستانی دو پی حالت میں رہتے ہیں ، گلے میں ڈھول بھنگڑا ڈالتے یا سروں پہ خاک ڈالے ماتم کرتے ۔
اج کل پاکستانی پرنٹ اور ایلکڑک میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ پاکستانیوں کی پانامہ لیکس کی لاٹری نکلی ہوئی ہے
ایک گروہ پانامہ لیکس کا ڈھول گلے میں ڈالے ہر وقت بھنگڑے ڈالنے میں مصروف ہے کہ ہٹ جاو ایک طرف اب دولہا بنے کی میری باری ہے اور یہ شادیوں میں شامل ہونے والے عادی براتیوں کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر میری برات میں شامل نہ ہوئے تو میں اکیلا ہے برات لے کے جاوں گا اور دولیں اور اس کے جہیز پہ قبضہ کر لوں گا
پرںت میڈیا چوبیس گھنٹے اس ڈھول کی آواز ہمارے کونوں کے پردے پھاڑ پھاڑ کر ہمارے جسموں ٹھوس رہا ہے
سارے شاہیں صبائی سارے شاہد مسعود اینکر کل سے ماتم کر رہے ہیں کہ عمران خان سیاسی لوگوں کے ساتھ جا کر کیوں بیٹھ گیا ہے اور رو رو کر دہائی دے رہے ہیں کہ ۱۲ اکتوبر کیوں نہیں ہو رہا
سارے بھٹی سارے صابر شاکر سارے سمیح جو کل تک بلاول کو بے بی کہتے کہتے نہیں تکھتے تھے وہ اج بلاول کی سیاست کے گن گا رہے ہیں اور اس کی منتیں کر رہے ہیں کہ دولہن کو بیوہ کرنے میں مدد دے
سارے ڈاکڑ اینکر کیمرے لے کر پرائمریری اور میڑک کے سکولوں میں جارہے ہیں اور بچوں سے کہلوا رہے ہیں کہ راحیل شریف کو قوم کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے اور ۱۲ اکتوبر کی تقریر کر دینی چاہیے
سارے حسن نثار اور سارے اوریا مقبول لفظ چبا چبا کر جمہوریت کو گالیاں دیتے ہوئے خدا سے الیتجا کر رہے ہیں کہ مشرف کی روح جنرل راحیل شریف میں داخل ہو جائے
مگر ،،،، مگر کسی ایک ،، ایک چینل کو یہ توفیق نہین ہوئی کہ وہ ہفتوں چوبیس چوبیس گھنٹوں پانامہ کے ڈھول کو بند کر کے اوکاڑہ کے کسناوں کی لاشیں ہی دیکھا دے ، وہاں کے کسانوں کے جلتے ہوئے کھیت اور ان کسانوں کے جلتے ہوئے گھر ہی دیکھا دے
یہ ایک جسم ہے اس آدمی کو کینسر نہیں ہوا تھا اس آدمی کو جگر کی بیماری نہیں تھی اس کی موت پھپھڑوں میں پانی بھرنے سے نہیں ہوئی اس کے جسم پہ نشان رینجر کے تمغے تپا تپا کر لگانے سے پڑے ہیں ، اس کے جسم کے اندر ابھی تک وہ بجلی ہےجو ملک میں لوڈ شیٹنگ کے باوجود اس کے جسم پہ لگائی گئی ہے
یہ ایم کیو ایم کا آتاب حسین ہے جس کے جسم پہ نشانات پاکستانی فوج اور رینجر کی بہادری کی داستان سنا رہے ہیں
میرا ایم کیو ایم کی سیاست اور اس کی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر میرا تعلق ایسے لاکھوں جسموں سے ہے جن کو ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
افتاب حسین سے ان لوگوں کا کوئی موزانہ تو نہیں ۔۔۔ مگر ،،،،
کبھی یہ جسم آتاب حسین کا ہوتا ہے کبھی نذیر عباسی کا ہوتا ہے کبھی حمید بلوچ کا ہوتا ہے کبھی یہ ضسم حسن ناصر کا ہوتا ہے اور کببھی یہ جسم تشدد کے نشانوں سمیت بلوچستان کی کسی گندی نالی یا کسی سڑک کے کنارے پایا جاتا ہے
اگر کسی کی آنکھوں میں کان لگے ہو تو وہ سن لے اس جسم پہ پڑے نشان بہت کچھ کہہ رہے ہیں اج ان نشانوں کی آواز سن لیں اور اپنی زبانوں پہ پڑھے مصنوعی چھالوں کو صاف کر کے بولیں
ورنہ ۔۔۔ ورنہ
کل یہ جسم آپ کا ہوگا اور اپنے جسم پہ لگے نشان آپ دیکھ بھی نہیں پائیں گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود قمر
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...